Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3595.
حضرت عدی بن حاتم ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ ﷺ کے پاس فقر وفاقہ کی شکایت کی۔ پھر ایک دوسرا آدمی آیا تو اس نے ڈاکا زنی کا شکوہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عدی!تم نے حیرہ شہر دیکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا: دیکھاتو نہیں، البتہ اس کا نام ضرور سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ شہر سے روانہ ہوگی، بیت اللہ کا طواف کرے گی، اسے اللہ کے سوا کسی کابھی خوف نہیں ہوگا۔‘‘ میں نے دل میں خیال کیا کہ قبیلہ طی کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے جنھوں نے تمام شہروں میں آگ لگا رکھی ہے؟(رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: )’’اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: کسریٰ بن ہرمز کے(خزانے)؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں، کسریٰ بن ہرمز کے (خزانے)۔ اگر تیری زندگی دراز ہوئی تو تم یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا۔ اسے کسی ایسے شخص کی تلاش ہوگی جو اسے قبول کرے لیکن اسے کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو اسے قبول کرے۔ تم میں سے ہر آدمی اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا جو ترجمانی کے فرائض سر انجام دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجا تھا جس نے تمھیں میرے احکام پہنچائے ہوں؟وہ عرض کرے گا: بے شک تو نے بھیجا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال ودولت سے نہیں نوازا تھا؟کیا میں نے تجھے اس کے ذریعے سے برتری نہیں دی جاتی؟ وہ عرض کرے گا: کیونکہ نہیں، سب کچھ دیا تھا پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو اسے جہنم کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پھر وہ بائیں جانب نظر کرے گا تو ادھر بھی دوزخ کے علاوہ اورکچھ نظر نہیں آئے گا۔‘‘حضرت عدی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو اورجو کوئی کھجور کاٹکڑا نہ پائے تو وہ لوگوں سے اچھی بات کہہ کر جہنم سے بچے‘‘ حضرت عدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک عورت کو دیکھا کہ وہ حیرہ شہر سے روانہ ہوئی اور اس نے کعبے کاطواف کیا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں تھا۔ اور میں مجاہدین کی اس جماعت میں شریک تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ اور اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم بچشم خود دیکھو گے جو نبی مکرم ابو القاسم ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلےگا(لیکن اسے قبول کرنے والا نہیں ملے گا)۔‘‘ ایک روایت کے مطابق محل بن خلیفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عدی بن حاتم سے سنا، انھوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا(پھر وہی حدیث بیان کی جو پہلے ذکر ہوچکی ہے۔)۔
تشریح:
1۔کسریٰ شاہ ایران کا لقب ہوتا تھا اس کا نام دوسری مرتبہ اس لیے دہرایا گیا کہ حضرت عدی ؓ کے دل میں شاہ ایران کی عظمت بہت زیادہ تھی کہ اس جیسی سپر طاقت کو فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں شاید کوئی اور کسریٰ مراد ہو اس لیے انھوں نے دوبارہ سوال کر کے اس کی توفیق کرائی چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں پوری ہوئی۔ حضرت عدی بن حاتم ؓ اس لشکر میں شامل تھے جنھوں نے اس وقت ایران کو فتح کیا اور ہزار سال سے سلگنے والے آتش کدہ کو بھسم کیا۔2۔یہ غیب کی خبر تھی جو علامات نبوت میں سے ہے۔3۔اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں مال و دولت کی بہت زیادہ فراوانی تھی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر مال و دولت سے نوازدیا تھا کہ کوئی زکاۃ وصول کرنے والا نہیں ملتا تھا۔4۔واضح رہے کہ حیرہ شہر کوفے کے پاس تھا اور عرب کے ان بادشاہوں کا پایہ تخت تھا جو ایران کے ماتحت تھے۔ 5۔آخر میں محل بن خلیفہ کا حضرت عدی بن حاتم ؓ سے سماع ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کا دوسرا طریق بیان کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3460
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3595
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3595
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3595
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت عدی بن حاتم ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ ﷺ کے پاس فقر وفاقہ کی شکایت کی۔ پھر ایک دوسرا آدمی آیا تو اس نے ڈاکا زنی کا شکوہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عدی!تم نے حیرہ شہر دیکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا: دیکھاتو نہیں، البتہ اس کا نام ضرور سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ شہر سے روانہ ہوگی، بیت اللہ کا طواف کرے گی، اسے اللہ کے سوا کسی کابھی خوف نہیں ہوگا۔‘‘ میں نے دل میں خیال کیا کہ قبیلہ طی کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے جنھوں نے تمام شہروں میں آگ لگا رکھی ہے؟(رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: )’’اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: کسریٰ بن ہرمز کے(خزانے)؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں، کسریٰ بن ہرمز کے (خزانے)۔ اگر تیری زندگی دراز ہوئی تو تم یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا۔ اسے کسی ایسے شخص کی تلاش ہوگی جو اسے قبول کرے لیکن اسے کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو اسے قبول کرے۔ تم میں سے ہر آدمی اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا جو ترجمانی کے فرائض سر انجام دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجا تھا جس نے تمھیں میرے احکام پہنچائے ہوں؟وہ عرض کرے گا: بے شک تو نے بھیجا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال ودولت سے نہیں نوازا تھا؟کیا میں نے تجھے اس کے ذریعے سے برتری نہیں دی جاتی؟ وہ عرض کرے گا: کیونکہ نہیں، سب کچھ دیا تھا پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو اسے جہنم کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پھر وہ بائیں جانب نظر کرے گا تو ادھر بھی دوزخ کے علاوہ اورکچھ نظر نہیں آئے گا۔‘‘حضرت عدی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو اورجو کوئی کھجور کاٹکڑا نہ پائے تو وہ لوگوں سے اچھی بات کہہ کر جہنم سے بچے‘‘ حضرت عدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک عورت کو دیکھا کہ وہ حیرہ شہر سے روانہ ہوئی اور اس نے کعبے کاطواف کیا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں تھا۔ اور میں مجاہدین کی اس جماعت میں شریک تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ اور اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم بچشم خود دیکھو گے جو نبی مکرم ابو القاسم ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلےگا(لیکن اسے قبول کرنے والا نہیں ملے گا)۔‘‘ ایک روایت کے مطابق محل بن خلیفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عدی بن حاتم سے سنا، انھوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا(پھر وہی حدیث بیان کی جو پہلے ذکر ہوچکی ہے۔)۔
حدیث حاشیہ:
1۔کسریٰ شاہ ایران کا لقب ہوتا تھا اس کا نام دوسری مرتبہ اس لیے دہرایا گیا کہ حضرت عدی ؓ کے دل میں شاہ ایران کی عظمت بہت زیادہ تھی کہ اس جیسی سپر طاقت کو فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں شاید کوئی اور کسریٰ مراد ہو اس لیے انھوں نے دوبارہ سوال کر کے اس کی توفیق کرائی چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں پوری ہوئی۔ حضرت عدی بن حاتم ؓ اس لشکر میں شامل تھے جنھوں نے اس وقت ایران کو فتح کیا اور ہزار سال سے سلگنے والے آتش کدہ کو بھسم کیا۔2۔یہ غیب کی خبر تھی جو علامات نبوت میں سے ہے۔3۔اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں مال و دولت کی بہت زیادہ فراوانی تھی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر مال و دولت سے نوازدیا تھا کہ کوئی زکاۃ وصول کرنے والا نہیں ملتا تھا۔4۔واضح رہے کہ حیرہ شہر کوفے کے پاس تھا اور عرب کے ان بادشاہوں کا پایہ تخت تھا جو ایران کے ماتحت تھے۔ 5۔آخر میں محل بن خلیفہ کا حضرت عدی بن حاتم ؓ سے سماع ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کا دوسرا طریق بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن حکم نے بیان کیا ، کہا ہم کو نضر نے خبردی ، کہاہم کو اسرائیل نے خبردی ، کہا ہم کو سعد طائی نے خبردی ، انہیں محل بن خلیفہ نے خبردی ، ان سے عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آنحضرت ﷺ سے فقر و فاقہ کی شکایت کی ، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی ، اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : عدی ! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے ؟ ( جوکوفہ کے پاس ایک بستی ہے ) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں ، البتہ اس کانام میں نے سنا ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور ( مکہ پہنچ کر ) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا ۔ میں نے ( حیرت سے) اپنے دل میں کہا ، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہوگا جنہوں نے شہروں کو تباہ کردیا ہے اور فساد کی آگ سلگارکھی ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے ( تم پر ) کھولے جائیں گے ۔ میں ( حیرت میں ) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز ( ایران کا بادشاہ ) کسریٰ آپ نے فرمایا : ہاں کسریٰ بن ہرمز ! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تویہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا ، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہوگی ( جو اس کی زکوٰۃ ) قبول کرلے لیکن اسے کوئی ایساآدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کرلے ، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جودن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہوگا ( بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا ) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا ۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیاہو ؟ وہ عرض کرے گا بے شک تونے بھیجا تھا ۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی ؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی ؟ وہ جواب دے گا بے شک تونے دیا تھا ۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا ، عدی ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرمارہے تھے کہ جہنم سے ڈرو ، اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو ۔ اگر کسی کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہ آسکے تو ( کسی سے ) ایک اچھا کلمہ ہی کہہ دے ۔ حضرت عدی ؓ نے بیان کیا کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور ( مکہ پہنچ کر ) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے ( ڈاکو وغیرہ ) کا ( راستے میں ) خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے ۔ اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لوگے جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ( زکوٰۃ کا سونا چاندی ) بھر کر نکلے گا ( لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا ) مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا ، کہا ہم کو سعد ان بن بشر نے خبردی ، ان سے ابو مجاہد نے بیان کیا ، ان سے محل بن خلیفہ نے بیان کیا ، اور انہوں نے عدی رضی اللہ سنے سنا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا ، پھر یہی حدیث نقل کی جو اوپرمذکور ہوئی ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں مال ودولت کی فراوانی کی پیش گوئی بھی پوری ہوئی کہ مسلمانوں کو اللہ نے بہت دولت مند بنادیا تھا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ تھا۔ حافظ ؒنے کہا کہ حیرہ عرب کے ان بادشاہوں کا پایہ تخت تھا جو ایران کے ماتحت تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Adi bin Hatim (RA): While I was in the city of the Prophet, a man came and complained to him (the Prophet,) of destitution and poverty. Then another man came and complained of robbery (by highwaymen). The Prophet (ﷺ) said, "Adi! Have you been to Al-Hira?" I said, "I haven't been to it, but I was informed about it." He said, "If you should live for a long time, you will certainly see that a lady in a Howdah traveling from Al-Hira will (safely reach Makkah and) perform the Tawaf of the Ka’bah, fearing none but Allah." I said to myself, "What will happen to the robbers of the tribe of Tai who have spread evil through out the country?" The Prophet (ﷺ) further said. "If you should live long, the treasures of Khosrau will be opened (and taken as spoils)." I asked, "You mean Khosrau, son of Hurmuz?" He said, "Khosrau, son of Hurmuz; and if you should live long, you will see that one will carry a handful of gold or silver and go out looking for a person to accept it from him, but will find none to accept it from him. And any of you, when meeting Allah, will meet Him without needing an interpreter between him and Allah to interpret for him, and Allah will say to him: 'Didn't I send a messenger to teach you?' He will say: 'Yes.' Allah will say: 'Didn't I give you wealth and do you favors?' He will say: 'Yes.' Then he will look to his right and see nothing but Hell, and look to his left and see nothing but Hell." 'Adi further said: I heard the Prophet (ﷺ) saying, "Save yourself from the (Hell) Fire even with half a date (to be given in charity) and if you do not find a half date, then with a good pleasant word." 'Adi added: (later on) I saw a lady in a Howdah traveling from Al-Hira till she performed the Tawaf of the Ka’bah, fearing none but Allah. And I was one of those who opened (conquered) the treasures of Khosrau, son of Hurmuz. If you should live long, you will see what the Prophet (ﷺ) Abu-l-Qasim had said: 'A person will come out with a handful. of gold...etc.