Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3610.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے جبکہ آپ مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ اس دوران میں آپ کے پاس ذوالخویصرنامی ایک شخص آیا جو قبیلہ بنی تمیم سے تھا۔ اس نے آتے ہی کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ انصاف سے کام لیں۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ہلاکت ہو!اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو پھر کون انصاف کرے گا؟اگر میں ظالم ہو جاؤں تو ناکام اور خسارے میں رہ گیا۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اس کے متعلق مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن تن سے جدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس سے صرف نظر کرو۔ اس شخص کے ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرے گااور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں ناچیز سمجھےگا۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے۔ اگر اس تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز نظر نہ آئےگی۔ اگر اس کے پٹھے کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے۔ اگر اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کسی چیز کا نشان نہ ملے گا۔ اس طرح اگر اس کے پر کودیکھا جائے تو اس میں بھی کوئی چیز نظر نہ آئے حالانکہ وہ تیر گوبر اور خون سے گزر کر آیا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ فام آدمی ہو گا جس کا ایک بازو عورت کے پستان یا گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ وہ اس وقت ظاہر ہوں گے جب لوگ افتراق و انتشار کا شکار ہوں گے۔‘‘ حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابو طالب ؓ نے ان سے جنگ کی تھی جبکہ میں ان کے ساتھ تھا۔ انھوں نے اس شخص کے متعلق حکم دیا تو اسے تلاش کر کے لایا گیا۔ جب میں نے اسے بغور دیکھا تو اسی صفت پر پایا جو نبی ﷺ نے اس کے متعلق بیان فرمائی تھی۔
تشریح:
1۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے سونا بھیجا جسے رسول اللہ ﷺ نے اقرع بن حابس عیینہ بن بدر، زید طائی اور علقمہ بن علاثہ میں تقسیم کردیا تو ذوالخوبصرہ نے آتے ہی اعتراض کردیا کہ اس تقسیم میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344)یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی کیونکہ نبی ﷺ پر اعتراض کرنا اللہ کے غضب کودعوت دینا ہے۔ اس بد بخت نے بھی آپ کی تقسیم پر اعتراض کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی لہذا واجب القتل ٹھہرا۔ایک روایت میں ہے حضرت خالد بن ولید ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔(فتح الباري:755/6)لیکن رسول اللہ ﷺ نے کسی مصلحت کی بنا پر انھیں اجازت نہ دی البتہ آپ نے خود فرمایا:’’اگر میں انھیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح انھیں صفحہ ہستی سے مٹادوں گا۔‘‘ یعنی جب ا کی کثرت ہو جائے اور وہ مسلح ہو کر مسلمانوں سے تعرض کرنے لگیں تو انھیں قتل کرنا جائز ہو جائے گا جیسا کہ ایک روایت میں اس کا واضح اشارہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔(صحیح البخاري، حدیث:3344)اور ان کے قتل سے منع کرتے وقت یہ سبب موجود نہ تھا لہٰذا آپ نے قتل سے منع فرمادیا۔ پھر بعد میں حضرت علی کے عہد حکومت میں ان کا ظہور ہوا تو انھوں نے ان سے جنگ کی حتی کہ وہ کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور ذوالخو بصرہ جس نے رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کیا تھا اسے تلاش کیا گیا تو وہ لاشوں کے نیچے مراہواملا۔2۔اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا معجزہ واضح ہو تا ہے کہ آپ نے خبر دی امت کا باہم اختلاف ہو گا ان کے دو گروہ بن جائیں گے۔ پھر ان میں لڑائی ہو گی اور اس لڑائی میں وہ شخص قتل ہو گا جس نے رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کے اوصاف بیان کیے ہیں وہ مردود خارجی تھے جو بظاہر بہت دین دار تھے لیکن در حقیقت دین سے کوسوں دور تھے لیکن سر سری نظر سے دیکھنے میں بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آتے تھے ظاہر میں بڑے نماز پرہیزگار لیکن پرلے درجے کے بے دین چھوٹی چھوٹی بات پر مسلمانوں کو کافر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3475
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3610
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3610
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3610
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے جبکہ آپ مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ اس دوران میں آپ کے پاس ذوالخویصرنامی ایک شخص آیا جو قبیلہ بنی تمیم سے تھا۔ اس نے آتے ہی کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ انصاف سے کام لیں۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ہلاکت ہو!اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو پھر کون انصاف کرے گا؟اگر میں ظالم ہو جاؤں تو ناکام اور خسارے میں رہ گیا۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اس کے متعلق مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن تن سے جدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس سے صرف نظر کرو۔ اس شخص کے ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرے گااور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں ناچیز سمجھےگا۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے۔ اگر اس تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز نظر نہ آئےگی۔ اگر اس کے پٹھے کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے۔ اگر اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کسی چیز کا نشان نہ ملے گا۔ اس طرح اگر اس کے پر کودیکھا جائے تو اس میں بھی کوئی چیز نظر نہ آئے حالانکہ وہ تیر گوبر اور خون سے گزر کر آیا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ فام آدمی ہو گا جس کا ایک بازو عورت کے پستان یا گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ وہ اس وقت ظاہر ہوں گے جب لوگ افتراق و انتشار کا شکار ہوں گے۔‘‘ حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابو طالب ؓ نے ان سے جنگ کی تھی جبکہ میں ان کے ساتھ تھا۔ انھوں نے اس شخص کے متعلق حکم دیا تو اسے تلاش کر کے لایا گیا۔ جب میں نے اسے بغور دیکھا تو اسی صفت پر پایا جو نبی ﷺ نے اس کے متعلق بیان فرمائی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے سونا بھیجا جسے رسول اللہ ﷺ نے اقرع بن حابس عیینہ بن بدر، زید طائی اور علقمہ بن علاثہ میں تقسیم کردیا تو ذوالخوبصرہ نے آتے ہی اعتراض کردیا کہ اس تقسیم میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344)یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی کیونکہ نبی ﷺ پر اعتراض کرنا اللہ کے غضب کودعوت دینا ہے۔ اس بد بخت نے بھی آپ کی تقسیم پر اعتراض کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی لہذا واجب القتل ٹھہرا۔ایک روایت میں ہے حضرت خالد بن ولید ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔(فتح الباري:755/6)لیکن رسول اللہ ﷺ نے کسی مصلحت کی بنا پر انھیں اجازت نہ دی البتہ آپ نے خود فرمایا:’’اگر میں انھیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح انھیں صفحہ ہستی سے مٹادوں گا۔‘‘ یعنی جب ا کی کثرت ہو جائے اور وہ مسلح ہو کر مسلمانوں سے تعرض کرنے لگیں تو انھیں قتل کرنا جائز ہو جائے گا جیسا کہ ایک روایت میں اس کا واضح اشارہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔(صحیح البخاري، حدیث:3344)اور ان کے قتل سے منع کرتے وقت یہ سبب موجود نہ تھا لہٰذا آپ نے قتل سے منع فرمادیا۔ پھر بعد میں حضرت علی کے عہد حکومت میں ان کا ظہور ہوا تو انھوں نے ان سے جنگ کی حتی کہ وہ کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور ذوالخو بصرہ جس نے رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کیا تھا اسے تلاش کیا گیا تو وہ لاشوں کے نیچے مراہواملا۔2۔اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا معجزہ واضح ہو تا ہے کہ آپ نے خبر دی امت کا باہم اختلاف ہو گا ان کے دو گروہ بن جائیں گے۔ پھر ان میں لڑائی ہو گی اور اس لڑائی میں وہ شخص قتل ہو گا جس نے رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کے اوصاف بیان کیے ہیں وہ مردود خارجی تھے جو بظاہر بہت دین دار تھے لیکن در حقیقت دین سے کوسوں دور تھے لیکن سر سری نظر سے دیکھنے میں بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آتے تھے ظاہر میں بڑے نماز پرہیزگار لیکن پرلے درجے کے بے دین چھوٹی چھوٹی بات پر مسلمانوں کو کافر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبردی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبردی اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے اور آپ ( جنگ حنین کا مال غنیمت ) تقسیم فر رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یار سول اللہ ! انصاف سے کام لیجئے ۔ یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : افسوس ! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا ۔ اگر میں ظالم ہوجاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے ۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا حضور ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن ماردوں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو ۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیداہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھوگے ۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا ۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائےں گے جیسے زوردار تیر جانور سے پار ہوجاتا ہے ۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز ( خون وغیرہ ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا ۔ اس کے نفی ( نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں ) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا ۔ اسی طرح اگر اس کے پرکودیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا ۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے ۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہوگا ۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ( اٹھا ہوا ) ہوگایا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگا اور حرکت کررہاہوگا ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے ، حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی اور میں گواہی دیتاہوں کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے ان سے جنگ کی تھی ( یعنی خوارج سے ) اس وقت میں بھی حضرت علی ؓ کے ساتھ تھا ۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا ( جسے آنحضرت ﷺ نے اس گروہ کی علامت کے طورپر بتلایا تھا ) آخروہ لایا گیا ۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آنحضرت ﷺ کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا ۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جس طرح ایک تیر کمان سے نکلنے کے بعد شکار کو چھید تا ہوا گزر جانے پر بھی بالکل صاف شفاف نظر آتا ہے حالانکہ اس سے شکار زخمی ہوکر خاک وخون میں تڑپ رہا ہے، چونکہ نہایت تیزی کے ساتھ اس نے اپنا فاصلہ طے کیا ہے اس لیے خون وغیرہ کا کوئی اثر اس کے کسی حصے پر دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح یہ لوگ بھی دین سے بہت دور ہوں گے لیکن بظاہر بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہ آئیں گے۔ یہ مردود خارجی تھے جو حضرت علی ؓ اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ظاہر میں اہل کوفہ کی طرح بڑے نمازی پرہیز گار، ادنیٰ ادنیٰ بات پر مسلمانوں کو کافر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا۔ حضرت علی ؓ نے ان مردودوں کو مارا ، ان میں کا ایک زندہ نہ چھوڑا ۔ معلوم ہوا کہ قرآن کو زبان سے رٹنا۔ مطالب ومعانی میں غور نہ کرنا یہ خارجیوں کا شیوہ ہے اور آیات قرآنیہ کا بے محل استعمال کرنا بھی بدترین حرکت ہے۔ اللہ کی پناہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): While we were with Allah's Apostle (ﷺ) who was distributing (i.e. some property), there came Dhu-l-Khuwaisira, a man from the tribe of Bani Tamim and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Do Justice." The Prophet (ﷺ) said, "Woe to you! Who could do justice if I did not? I would be a desperate loser if I did not do justice." 'Umar said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allow me to chop his head off." The Prophet (ﷺ) said, "Leave him, for he has companions who pray and fast in such a way that you will consider your fasting negligible in comparison to theirs. They recite Qur'an but it does not go beyond their throats (i.e. they do not act on it) and they will desert Islam as an arrow goes through a victim's body, so that the hunter, on looking at the arrow's blade, would see nothing on it; he would look at its Risaf and see nothing: he would look at its Na,di and see nothing, and he would look at its Qudhadh ( 1) and see nothing (neither meat nor blood), for the arrow has been too fast even for the blood and excretions to smear. The sign by which they will be recognized is that among them there will be a black man, one of whose arms will resemble a woman's breast or a lump of meat moving loosely. Those people will appear when there will be differences amongst the people." I testify that I heard this narration from Allah's Apostle (ﷺ) and I testify that ' Ali Ibn Abi Talib (RA) fought with such people, and I was in his company. He ordered that the man (described by the Prophet) should be looked for. The man was brought and I looked at him and noticed that he looked exactly as the Prophet (ﷺ) had described him.