باب: شام کے بنے ہوئے چغہ میں نماز پڑھنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) in a Syrian cloak (made by infidels))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصری نے فرمایا کہ جن کپڑوں کو پارسی بنتے ہیں اس کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ معمر بن راشد نے فرمایا کہ میں نے ابن شہاب زہری کو یمن کے ان کپڑوں کو پہنے دیکھا جو ( حلال جانوروں کے ) پیشاب سے رنگے جاتے تھے اور علی بن ابی طالب نے نئے بغیر دھلے کپڑے پہن کر نماز پڑھی۔حضرت امام بخاری کامقصد یہ ہے کہ کافروں کے بنائے ہوئے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی درست ہے جب تک ان کی ظاہری نجاست کا یقین نہ ہو۔ حافظ نے کہا کہ شام میں ان دنوں کافروں کی حکومت تھی اور وہاں سے مختلف اقسام کے کپڑے یہاں مدینہ میں آیا کرتے تھے، اس لیے ان مسائل کے بیان کی ضرورت ہوئی۔ پیشاب سے حلال جانوروں کا پیشاب مراد ہے۔ جس کو رنگائی کے مصالحوں میں ڈالا جاتا تھا۔
363.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ کسی سفر میں تھا، آپ نے فرمایا: ’’اے مغیرہ! پانی کا برتن پکڑ لو۔‘‘ میں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے برتن پکڑ لیا۔ پھر آپ باہر گئے یہاں تک کہ آپ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر آپ نے قضائے حاجت کی اور اس وقت آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے اس کی آستین سے اپنا ہاتھ باہر نکالنا چاہا، چونکہ وہ تنگ تھی، اس لیے آپ نے اپنا ہاتھ اس کے نیچے سے نکالا۔ پھر میں نے آپ کے اعضائے شریفہ پر پانی ڈالا، آپ نے نماز کے لیے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر نماز پڑھی۔
تشریح:
1 ۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔ شام میں ان دنوں کفار کی حکومت تھی اور ان کے تیار کردہ جبے تنگ آستینوں والےتھے۔ اس سے معلوم ہواکہ کفار مشرکین کے تیار کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہے بشر یکہ اس بات کا یقین ہو کہ یہ نجاست آلود نہیں۔ (شرح ابن بطال:25/2) 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اپنا مدعا بایں طور ثابت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دارالکفر کا تیار کردہ جبہ استعمال فرمایا اور یہ دریافت نہیں کیا کہ اسے کس نے بنایا ہے اور اس کی تیاری میں کوئی ناپاک چیز تو استعمال نہیں کی گئی، پھر اس کے دھونے کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ ثابت ہوا کہ ان چیزوں کے متعلق کریدنے کی ضرورت نہیں۔ جب تک اس کے نجس ہونے کے متعلق خصوصی دلیل نہ ہو اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خصوصی دلیل کے لیے مشاہدہ یا مخبر صادق کی اطلاع کا ہونا ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر امام بخاری ؒ کا یہی مقصد تھا تو عنوان میں جبہ شامیہ کی قید لگائی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری عام طورپر الفاظ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے عنوان بندی کا اہتمام کرتے ہیں۔ 3۔ کفار ومشرکین اور یہود وہنود کے مستعمل کپڑوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟چونکہ ہمارے ہاں غیر مسلم ممالک سے مستعمل کپڑے درآمد کیے جاتے ہیں، جسے ’’لنڈے کا مال‘‘ کہا جاتاہے۔ ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ جو کپڑے اوپر کے حصہ جسم پر استعمال ہوتے ہوں، جیسا کہ چادر، قمیص اورجرسی وغیرہ، وہ طاہر سمجھے جائیں گے اور جو کپڑے جسم کے نچلے حصے پر استعمال ہوتے ہیں، جیسے پاجامہ، شلوار، پینٹ اور جانگیہ وغیرہ انھیں دھو کر استعمال کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ طہارت ونظافت کا اہتمام نہیں کرتے اور نہ نجاست سے احتراز کرتے ہیں، لہذا بظاہر ایسے کپڑے بول وبراز سے ملوث ہوں گے۔ موفق ابن قدامہ ؒ نےلکھا ہے کہ امام احمد حنبل ؒ کے نزدیک اگر ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لی جائے تو اس نماز کا اعادہ، انھیں زیادہ پسند ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ لنڈے کے وہ کپڑے جو کفار ومشرکین نے جسم کے نچلے حصے میں استعمال کیے ہوں، انھیں دھوکر کارآمد بنایاجاسکتا ہے۔ انھیں دھوئے بغیر استعمال کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
361
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
363
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
363
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
363
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ کفار کے تیار کردہ کپڑوں کو استعمال کیاجاسکتاہے اور ان میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔اسی طرح دارالکفر کے تیار کردہ کپڑے،خواہ ان کے بنانے والے آتش پرست ہوں یا یہود ونصاریٰ ،ان کا استعمال جائز ہے بشرط یہ کہ کپڑا پاک ہو کیونکہ ان کے استعمال کا مدارطہارت وعدم طہارت پر ہے،تیار کرنے والوں کے احوال واوصاف اور ان کے ملک ومقام پر مدار نہیں۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تین آثار کا حوالہ دیا ہے :حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ابونعیم بن حماد نے باسند ذکر کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ آتش پرست کے تیار کردہ کپڑے میں دھونے سے پہلے نماز پڑھی جاسکتی ہے ،البتہ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ اسے ناپسند کرتے تھے۔امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا عمل مصنف عبدالرزاق میں موصولاً مذکور ہے کہ وہ ایسے کپڑے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے جو پیشاب میں رنگے گئے ہوں۔شارحین نے لکھا ہے۔کہ حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ دھونے کے بعد ان کپڑوں کو استعمال کرتے تھے یا پھر ان جانوروں کاپیشاب مراد ہے جن کاگوشت کھایا جاتا ہے۔( فتح الباری 614/1۔) یہ بھی ممکن ہے کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کپڑا ان چیزوں میں سے ہو جن پر طہارت ونجاست کا حکم شرعی تیاری کے بعد لگایاجاتا ہے ،تیاری کے دوران میں جو بھی حالات گزریں،شریعت ان کااعتبار نہیں کرتی۔اس لیے اگر کپڑے کی تیاری کے دوران میں بول کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل کو ابن سعد نے موصولاً بیان کیا ہے۔عطاء بن محمد کہتے ہیں:میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک نئی کرابیسی قمیص میں نماز پڑھتے دیکھا جو اَن دھلی تھی۔( فتح الباری 614/1۔) الغرض کفار کے تیار کردہ اور بلاد کفار سے درآمد کردہ کپڑے اگرظاہری آثار کے اعتبار سے پاک ہوں اور مخبر صادق کی اطلاع ان کی نجاست پر نہ ہوتو ان کے استعمال میں چنداں حرج نہیں ہے۔
امام حسن بصری نے فرمایا کہ جن کپڑوں کو پارسی بنتے ہیں اس کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ معمر بن راشد نے فرمایا کہ میں نے ابن شہاب زہری کو یمن کے ان کپڑوں کو پہنے دیکھا جو ( حلال جانوروں کے ) پیشاب سے رنگے جاتے تھے اور علی بن ابی طالب نے نئے بغیر دھلے کپڑے پہن کر نماز پڑھی۔حضرت امام بخاری کامقصد یہ ہے کہ کافروں کے بنائے ہوئے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی درست ہے جب تک ان کی ظاہری نجاست کا یقین نہ ہو۔ حافظ نے کہا کہ شام میں ان دنوں کافروں کی حکومت تھی اور وہاں سے مختلف اقسام کے کپڑے یہاں مدینہ میں آیا کرتے تھے، اس لیے ان مسائل کے بیان کی ضرورت ہوئی۔ پیشاب سے حلال جانوروں کا پیشاب مراد ہے۔ جس کو رنگائی کے مصالحوں میں ڈالا جاتا تھا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ کسی سفر میں تھا، آپ نے فرمایا: ’’اے مغیرہ! پانی کا برتن پکڑ لو۔‘‘ میں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے برتن پکڑ لیا۔ پھر آپ باہر گئے یہاں تک کہ آپ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر آپ نے قضائے حاجت کی اور اس وقت آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے اس کی آستین سے اپنا ہاتھ باہر نکالنا چاہا، چونکہ وہ تنگ تھی، اس لیے آپ نے اپنا ہاتھ اس کے نیچے سے نکالا۔ پھر میں نے آپ کے اعضائے شریفہ پر پانی ڈالا، آپ نے نماز کے لیے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
1 ۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔ شام میں ان دنوں کفار کی حکومت تھی اور ان کے تیار کردہ جبے تنگ آستینوں والےتھے۔ اس سے معلوم ہواکہ کفار مشرکین کے تیار کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہے بشر یکہ اس بات کا یقین ہو کہ یہ نجاست آلود نہیں۔ (شرح ابن بطال:25/2) 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اپنا مدعا بایں طور ثابت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دارالکفر کا تیار کردہ جبہ استعمال فرمایا اور یہ دریافت نہیں کیا کہ اسے کس نے بنایا ہے اور اس کی تیاری میں کوئی ناپاک چیز تو استعمال نہیں کی گئی، پھر اس کے دھونے کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ ثابت ہوا کہ ان چیزوں کے متعلق کریدنے کی ضرورت نہیں۔ جب تک اس کے نجس ہونے کے متعلق خصوصی دلیل نہ ہو اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خصوصی دلیل کے لیے مشاہدہ یا مخبر صادق کی اطلاع کا ہونا ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر امام بخاری ؒ کا یہی مقصد تھا تو عنوان میں جبہ شامیہ کی قید لگائی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری عام طورپر الفاظ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے عنوان بندی کا اہتمام کرتے ہیں۔ 3۔ کفار ومشرکین اور یہود وہنود کے مستعمل کپڑوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟چونکہ ہمارے ہاں غیر مسلم ممالک سے مستعمل کپڑے درآمد کیے جاتے ہیں، جسے ’’لنڈے کا مال‘‘ کہا جاتاہے۔ ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ جو کپڑے اوپر کے حصہ جسم پر استعمال ہوتے ہوں، جیسا کہ چادر، قمیص اورجرسی وغیرہ، وہ طاہر سمجھے جائیں گے اور جو کپڑے جسم کے نچلے حصے پر استعمال ہوتے ہیں، جیسے پاجامہ، شلوار، پینٹ اور جانگیہ وغیرہ انھیں دھو کر استعمال کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ طہارت ونظافت کا اہتمام نہیں کرتے اور نہ نجاست سے احتراز کرتے ہیں، لہذا بظاہر ایسے کپڑے بول وبراز سے ملوث ہوں گے۔ موفق ابن قدامہ ؒ نےلکھا ہے کہ امام احمد حنبل ؒ کے نزدیک اگر ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لی جائے تو اس نماز کا اعادہ، انھیں زیادہ پسند ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ لنڈے کے وہ کپڑے جو کفار ومشرکین نے جسم کے نچلے حصے میں استعمال کیے ہوں، انھیں دھوکر کارآمد بنایاجاسکتا ہے۔ انھیں دھوئے بغیر استعمال کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن (بصری) نے کہا: جن کپڑوں کو آتش پرست بنتے ہیں، انہیں پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ معمر بن راشد نے کہا: میں نے امام زہری کو یمن کے دو کپڑے پہنے ہوئے دیکھا جنہیں پیشاب میں رنگا گیا تھا۔ حضرت علی ؓ نے ایک کورے کپڑے میں (بغیر دھوئے) نماز پڑھی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ ٍؓ سے، آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر ( غزوہ تبوک ) میں تھا۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا۔ مغیرہ! پانی کی چھاگل اٹھا لے۔ میں نے اسے اٹھا لیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ چلے اور میری نظروں سے چھپ گئے۔ آپ نے قضائے حاجت کی۔ اس وقت آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ ہاتھ کھولنے کے لیے آستین اوپر چڑھانی چاہتے تھے لیکن وہ تنگ تھی اس لیے آستین کے اندر سے ہاتھ باہر نکالا۔ میں نے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ آپ ﷺ نے نماز کے وضو کی طرح وضو کیا اور اپنے خفین پر مسح کیا۔ پھر نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mughira bin Shu'ba (RA): Once I was traveling with the Prophet (ﷺ) and he said, "O Mughira! Take this container of water." I took it and Allah's Apostle (ﷺ) went far away till he disappeared. He answered the call of nature and was wearing a Syrian cloak. He tried to take out his hands from its sleeve but it was very tight so he took out his hands from under it. I poured water and he performed ablution like that for prayers and passed his wet hands over his Khuff (leather socks) and then prayed.