باب: (بلا ضرورت) ننگا ہونے کی کراہیت نماز میں (ہو یا اور کسی حال میں)۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: It is disliked to the naked during As-Salat (the prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
364.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ قریش کے ہمراہ تعمیرِ کعبہ کے لیے پتھر اٹھاتے تھے۔ آپ نے صرف تہ بند باندھا ہوا تھا۔ آپ کے چچا حضرت عباس ؓ نے کہا: اے میرے بھتیجے! اگر تم اپنا تہ بند اتار کر اسے اپنے کندھوں پر پتھر کے نیچے رکھ لو (تو تمہارے لئے آسانی ہو گی) ۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا تہ بند اتار کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا، چنانچہ آپ اسی وقت بےہوش ہو کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔
تشریح:
1۔ برہنگی نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں ممنوع ہے، نماز کی حالت میں تو ظاہر ہے، لیکن نماز کے علاوہ بھی بلاضرورت ستر کا برہنہ رکھناشرعاً ممنو ع ہے۔ مذکورہ بالا روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ خارج صلاۃ کا ہے۔ امام بخاری ؒ کا استدلال اس طرح ہے کہ جب سترپوشی کااہتمام نماز کے علاوہ اس قدر ہے تونماز میں توبدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ ابن بطال ؒ نے لکھاہے کہ کشف ازار کا واقعہ جب پیش آیا تو آپ کی عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور نبوت سے بھی سرفراز نہیں ہوئے تھے۔ چونکہ برہنگی آپ کی شان کے خلاف تھی، اس لیے فوراً بے ہوشی طاری کردی گئی اور تنبیہ کردی گئی تاکہ آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو، کیونکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی تربیت شروع ہی سے اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی میں ہوتی ہے۔ بعثت سے قبل ایسے امور کی اصلاح دوسرے ہی طریقوں سے ممکن تھی، اس لیے آسمانی اشارے یاسلامت طبع کے تحت فوراً آپ بے ہوش ہوگئے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی ؒ کے حوالے سے یہ الفاط نقل کیے ہیں کہ آپ فوراً کھڑے ہوئے، اپنی آواز کو سنبھالا اور فرمایا کہ مجھے ننگا ہو کر چلنے سے منع کردیا گیا ہے۔ (فتح الباري:615/1) اس سے معلوم ہوا کہ آپ بعثت سے پہلے برے کاموں اور بے شرمی کی باتوں سے محفوظ تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب عام حالات میں کسی خاص ضرورت کے پیش نظر برہنگی درست نہیں تو نماز ننگے کیسے پڑھی جاسکتی ہے؟ایک دوسرے کو ننگا دیکھ سکتے ہیں۔ (شرح ابن بطال:27/2) اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں دوسروں کے سامنے ننگا ہونا منع ہے۔ البتہ خاص حالات میں کسی مجبوری کے پیش نظر اس کا جواز ہے۔ خاص حالات حسب ذیل ہوسکتے ہیں، غسل خانے میں نہاتے وقت، مثانے یا بواسیر کا آپریشن کراتے وقت، ولادت کے موقع پر اپناستر کھولنے کی اجازت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
362
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
364
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
364
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
364
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ننگے رہنے کی علی الاطلاق ممانعت ہے،نماز ہویا غیر نماز۔اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ کراہت لغوی معنی میں استعمال کیا ہے،یعنی ممنوع اور ناپسندیدہ ہے۔اس تعبیر میں ہر طرح کی ممانعت شامل ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ قریش کے ہمراہ تعمیرِ کعبہ کے لیے پتھر اٹھاتے تھے۔ آپ نے صرف تہ بند باندھا ہوا تھا۔ آپ کے چچا حضرت عباس ؓ نے کہا: اے میرے بھتیجے! اگر تم اپنا تہ بند اتار کر اسے اپنے کندھوں پر پتھر کے نیچے رکھ لو (تو تمہارے لئے آسانی ہو گی) ۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا تہ بند اتار کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا، چنانچہ آپ اسی وقت بےہوش ہو کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ برہنگی نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں ممنوع ہے، نماز کی حالت میں تو ظاہر ہے، لیکن نماز کے علاوہ بھی بلاضرورت ستر کا برہنہ رکھناشرعاً ممنو ع ہے۔ مذکورہ بالا روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ خارج صلاۃ کا ہے۔ امام بخاری ؒ کا استدلال اس طرح ہے کہ جب سترپوشی کااہتمام نماز کے علاوہ اس قدر ہے تونماز میں توبدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ ابن بطال ؒ نے لکھاہے کہ کشف ازار کا واقعہ جب پیش آیا تو آپ کی عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور نبوت سے بھی سرفراز نہیں ہوئے تھے۔ چونکہ برہنگی آپ کی شان کے خلاف تھی، اس لیے فوراً بے ہوشی طاری کردی گئی اور تنبیہ کردی گئی تاکہ آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو، کیونکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی تربیت شروع ہی سے اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی میں ہوتی ہے۔ بعثت سے قبل ایسے امور کی اصلاح دوسرے ہی طریقوں سے ممکن تھی، اس لیے آسمانی اشارے یاسلامت طبع کے تحت فوراً آپ بے ہوش ہوگئے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی ؒ کے حوالے سے یہ الفاط نقل کیے ہیں کہ آپ فوراً کھڑے ہوئے، اپنی آواز کو سنبھالا اور فرمایا کہ مجھے ننگا ہو کر چلنے سے منع کردیا گیا ہے۔ (فتح الباري:615/1) اس سے معلوم ہوا کہ آپ بعثت سے پہلے برے کاموں اور بے شرمی کی باتوں سے محفوظ تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب عام حالات میں کسی خاص ضرورت کے پیش نظر برہنگی درست نہیں تو نماز ننگے کیسے پڑھی جاسکتی ہے؟ایک دوسرے کو ننگا دیکھ سکتے ہیں۔ (شرح ابن بطال:27/2) اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں دوسروں کے سامنے ننگا ہونا منع ہے۔ البتہ خاص حالات میں کسی مجبوری کے پیش نظر اس کا جواز ہے۔ خاص حالات حسب ذیل ہوسکتے ہیں، غسل خانے میں نہاتے وقت، مثانے یا بواسیر کا آپریشن کراتے وقت، ولادت کے موقع پر اپناستر کھولنے کی اجازت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انھوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ( نبوت سے پہلے ) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھ پر رکھ لیتے ( تا کہ تم پر آسانی ہو جائے ) حضرت جابر نے کہا کہ آپ ﷺ نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔
حدیث حاشیہ:
اللہ پاک نے آپ ﷺ کو بچپن ہی سے بے شرمی اور جملہ برائیوں سے بچایاتھا۔ آپ ﷺۗ کے مزاج اقدس میں کنواری عورتوں سے بھی زیادہ شرم تھی۔ حضرت جابر ؓ نے حضور ﷺ سے یہ واقعہ سنا اور نقل کیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ اترا اور اس نے فوراً آپ کا تہبند باندھ دیا۔ (ارشادالساري) ایمان کے بعد سب سے بڑا فریضہ ستر پوشی کا ہے، جو نماز کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہوجانا امردیگر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): While Allah's Apostle (ﷺ) was carrying stones (along) with the people of Makkah for (the building of) the Ka’bah wearing an Izar (waist-sheet cover), his uncle Al-'Abbas said to him, "O my nephew! (It would be better) if you take off your Izar and put it over your shoulders underneath the stones." So he took off his Izar and put it over his shoulders, but he fell unconscious and since then he had never been seen naked.