Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3643.
(شبیب بن غرقدہ کہتے ہیں کہ) میں نے ایک دوسری حدیث خود حضرت عروہ ؓ سے سنی، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’خیروبرکت تو قیامت کے دن تک گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے۔‘‘ چنانچہ شبیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ ؓ کی حویلی میں ستر گھوڑے بندھے ہوئے دیکھے۔ سفیان کہتے ہیں کہ حضرت عروہ ؓ نے آپ ﷺ کے لیے بکری خریدی تھی شاید وہ قربانی کےلیے ہوگی۔
تشریح:
1۔اس مقام پر یہ اشکال ہے کہ امام بخاری ؒ کو حضرت عروہ بارقی ؓ کی کون سی حدیث مقصود ہے؟ اگرگھوڑوں کی حدیث مقصود ہے تو وہ بلاشبہ موصول ہے مگر اس کو عنوان سے کوئی مناسبت نہیں اور اگر بکری والی حدیث مقصود ہے تو عنوان کے مطابق تو ہے مگر وہ موصول نہیں کیونکہ شبیب کے قبیلے والے مجہول ہیں۔اس کاجواب اس طرح دیا گیا ہے کہ قبیلے والے متعدد اشخاص تھے وہ سب جھوٹ بولیں یہ نہیں ہوسکتا،نیز جب یہ معلوم ہے کہ شبیب صرف عادل راوی سے روایت کرتا ہے تو یقین کیا جائے گا کہ انھوں نے قبیلے کے عادل راویوں ہی سے روایت لی ہے۔بہرحال یہ روایت متصل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے ایک معجزے کا بیان ہے کہ عروہ باقی کے لیے آپ کی دعا قبول ہوئی۔اگر مٹی بھی خریدتے تو وہ بھی سونے کے بھاؤ فروخت ہوتی تھی اور انھیں اس سے کافی نفع ہوتا تھا۔یہ نبوت کی دلیل ہے۔2۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عروہ بارقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سودے کو نہ صرف برقراررکھا بلکہ اسے پسند فرمایا اور دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کی خریدوفروخت کے معاملات میں برکت عطا فرمائے۔3۔معلوم ہوا کہ منافع کی شرح میں کوئی تعین نہیں ہے۔اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نےقیمت خرید کے برابر نفع وصول کیا۔واللہ أعلم۔4۔گھوڑوں والی حدیث بھی عنوان کے عین مطابق ہے کہ آج جدید اسلحے کی فراوانی کے باوجود بھی فوج میں گھوڑے کی اہمیت باقی ہے۔بہرحال دونوں احادیث متصل ہیں اور عنوان کے مطابق ہیں۔واللہ المستعان۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3505.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3643
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3643
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3643
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
(شبیب بن غرقدہ کہتے ہیں کہ) میں نے ایک دوسری حدیث خود حضرت عروہ ؓ سے سنی، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’خیروبرکت تو قیامت کے دن تک گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے۔‘‘ چنانچہ شبیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ ؓ کی حویلی میں ستر گھوڑے بندھے ہوئے دیکھے۔ سفیان کہتے ہیں کہ حضرت عروہ ؓ نے آپ ﷺ کے لیے بکری خریدی تھی شاید وہ قربانی کےلیے ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس مقام پر یہ اشکال ہے کہ امام بخاری ؒ کو حضرت عروہ بارقی ؓ کی کون سی حدیث مقصود ہے؟ اگرگھوڑوں کی حدیث مقصود ہے تو وہ بلاشبہ موصول ہے مگر اس کو عنوان سے کوئی مناسبت نہیں اور اگر بکری والی حدیث مقصود ہے تو عنوان کے مطابق تو ہے مگر وہ موصول نہیں کیونکہ شبیب کے قبیلے والے مجہول ہیں۔اس کاجواب اس طرح دیا گیا ہے کہ قبیلے والے متعدد اشخاص تھے وہ سب جھوٹ بولیں یہ نہیں ہوسکتا،نیز جب یہ معلوم ہے کہ شبیب صرف عادل راوی سے روایت کرتا ہے تو یقین کیا جائے گا کہ انھوں نے قبیلے کے عادل راویوں ہی سے روایت لی ہے۔بہرحال یہ روایت متصل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے ایک معجزے کا بیان ہے کہ عروہ باقی کے لیے آپ کی دعا قبول ہوئی۔اگر مٹی بھی خریدتے تو وہ بھی سونے کے بھاؤ فروخت ہوتی تھی اور انھیں اس سے کافی نفع ہوتا تھا۔یہ نبوت کی دلیل ہے۔2۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عروہ بارقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سودے کو نہ صرف برقراررکھا بلکہ اسے پسند فرمایا اور دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کی خریدوفروخت کے معاملات میں برکت عطا فرمائے۔3۔معلوم ہوا کہ منافع کی شرح میں کوئی تعین نہیں ہے۔اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نےقیمت خرید کے برابر نفع وصول کیا۔واللہ أعلم۔4۔گھوڑوں والی حدیث بھی عنوان کے عین مطابق ہے کہ آج جدید اسلحے کی فراوانی کے باوجود بھی فوج میں گھوڑے کی اہمیت باقی ہے۔بہرحال دونوں احادیث متصل ہیں اور عنوان کے مطابق ہیں۔واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
البتہ یہ دوسری حدیث خود میں نے عروہ ؓ سے سنی ہے ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ نے فرمایا خیر اور بھلائی گھوڑوں کی پیشانی کے ساتھ قیامت تک کے لیے بندھی ہوئی ہے ، شبیب نے کہا کہ میں نے حضرت عروہ ؓ کے گھر میں ستر گھوڑے دیکھے ۔ سفیان نے کہا کہ حضرت عروہ ؓ نے حضور اکرم ﷺ کے لیے بکری خریدی تھی ۔ شاید وہ قربانی کے لیے ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اعتراض ہواہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کو عروہ کی کونسی حدیث مقصود ہے اگر گھوڑوں کی حدیث مقصود ہے تو وہ بے شک موصول ہے مگر اس کو باب سے مناسبت نہیں ہے اور اگر بکری والی حدیث مقصود ہے تو وہ باب کے موافق ہے کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ یعنی دعا کا قبول ہونا مذکور ہے مگر وہ موصول نہیں ہے، شبیب کے قبیلے والے مجہول ہیں۔ جواب یہ ہے کہ قبیلے والے متعدد اشخاص تھے۔ وہ سب جھوٹ بولیں، یہ نہیں ہوسکتا تو حدیث موصول اور صحیح ہوگئی۔ گھوڑوں والی حدیث ميں ایک پیش گوئی ہے جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔ یہ بھی اس طرح باب سے متعلق ہے کہ اس میں آپ کی صداقت کی دلیل موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(In another narration) 'Urwa said, "I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "There is always goodness in horses till the Day of Resurrection." (The subnarrator added, "I saw 7O horses in 'Urwa's house.') (Sufyan said, "The Prophet (ﷺ) asked 'Urwa to buy a sheep for him as a sacrifice.")