باب: قمیص اور پاجامہ اور جانگیا اور قباء (چغہ) پہن کر نماز پڑھنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer Salat (prayer) with a shirt, trousers, a Tubban or a Qaba (an outer garment with full length sleeves))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
365.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک آدمی کھڑا ہوا اور نبی ﷺ سے سوال کیا: آیا ایک کپڑے میں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے سب کے پاس دو، دو کپڑے ہیں؟‘‘ پھر کسی شخص نے حضرت عمر ؓ سے یہی سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا: جب اللہ تعالیٰ وسعت فرمائے تو اس وسعت کا اظہار کرو۔ چاہیے کہ لوگ اپنے جسم پر اللہ کے دیے ہوئے کپڑے استعمال کریں، یعنی ازار اور چادر میں، ازار اور قمیص میں، ازار اور قبا میں، پاجامہ اور چادر میں، پاجامہ اور قمیص میں، پاجامہ اور قبا میں، جانگھیے اور قبا میں، جانگھیے اور قمیص میں نماز پڑھیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: میں گمان کرتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ نے جانگھیے اور چادر میں ادائیگی نماز کے متعلق بھی فرمایا تھا۔
تشریح:
1۔ حضرت عمر ؓ کی کپڑوں کے متعلق بیان کردہ تفصیل میں ستر پوشی، پھر بدن پوشی کی رعایت مقدم معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کپڑے جو وسط جسم کے ستر کے لیے استعمال ہوتے ہیں انھیں آپ نے پہلے بیان فرمایا، کیونکہ جسم کے جس حصے کا سترضروری ہے وہ وسط جسم ہی ہے، پھر جو کپڑے وسط جسم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ تین ہیں: ازار، پاجامہ اور جانگیہ۔ ان تینوں میں سے ازار کو سب سے پہلے رکھا، یہ کثیر الاستعمال بھی ہے اور جسم کے لیے ساتربھی۔ گویا آپ نے سترعورۃ کے لحاظ سے کپڑوں کے تین درجے بتائے ہیں: پہلے ازار، پھرپاجامہ، آخر میں جانگیے اس لیے رکھا کہ اس میں سترسب سے کم ہے، ہاں اگرچادریاقمیص کے ساتھ اس کااستعمال ہوتو چنداں حرج نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگرنمازی دوکپڑوں میں نماز پڑھے توتہ بند کے ساتھ اوپر کے جسم کے لیے چادر، کرتایا قبا بھی ہو، اگرپاجامے کے ساتھ پڑھے تو اس کے ساتھ بھی چادر یا کرتا یا قبا ہو۔ اگرجانگیے پہنے ہوئے ہوتواس کے ساتھ چادر یاکرتایا قبا ہوتا کہ سترپوشی کی رعایت زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔ (فتح الباري:617/1) حافظ ابن حجر ؒ نےلکھاہے کہ نماز کے وقت کپڑوں کا اہتمام ضروری ہے۔ جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے اورایک کپڑے میں نماز پڑھنا صرف تنگی اور افلاس کے وقت ہے۔ وہ کپڑوں میں نماز پڑھنا بہ نسبت ایک کپڑے کے افضل ہے۔ اگرچہ قاضی عیاض ؒ نے اس کےمتعلق اختلاف کی نفی کی ہے، تاہم ابن منذر ؒ کی عبارت سے اختلاف کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے ائمہ سے ایک کپڑے میں جواز صلاۃ کا کرکے لکھاہے کہ بعض حضرات نے دوکپڑوں میں نماز کو مستحب قراردیاہے، مگر اشبب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی قدرت ووسعت کے باوجود صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے گا تو وقت کے دوران میں اسکا اعادہ کرنا ہوگا ہاں اگروہ کپڑا موٹا ہوتو اعادے کی ضرورت نہیں اور بعض حنفیہ نے بھی شخص مذکور کی نماز کومکروہ کہا ہے۔ (عمدة القاري:286/3) 2۔ مصنف عبدالرزاق (356/1) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک کپڑے میں نماز کو مکروہ کہتے تھے اور اس کی اجازت کو اسلام کے ابتدائی دورمیں تنگی کے وقت پرمحمول کرتے تھے۔ جب لوگوں کو زیادہ کپڑے میسر نہ تھے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ اس کے خلاف ایک کپڑے میں نماز کومکروہ نہیں کہتے تھے۔ ان دونوں حضرات کے اختلاف کو سن کر حضرت عمر ؓ منبر پرکھڑے ہوئے اور اعلان فرمایا کہ درست بات وہی ہے جو حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں نہ کہ وہ جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
363
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
365
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
365
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
365
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
نماز کے لیے ستر پوشی ضروری ہے۔اس کے لیے نہ تو عدو کی ضرورت ہے اور نہ کسی اور ہی نوعیت کی پابندی ہے،صرف ستر عورۃ کی پابندی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک آدمی کھڑا ہوا اور نبی ﷺ سے سوال کیا: آیا ایک کپڑے میں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے سب کے پاس دو، دو کپڑے ہیں؟‘‘ پھر کسی شخص نے حضرت عمر ؓ سے یہی سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا: جب اللہ تعالیٰ وسعت فرمائے تو اس وسعت کا اظہار کرو۔ چاہیے کہ لوگ اپنے جسم پر اللہ کے دیے ہوئے کپڑے استعمال کریں، یعنی ازار اور چادر میں، ازار اور قمیص میں، ازار اور قبا میں، پاجامہ اور چادر میں، پاجامہ اور قمیص میں، پاجامہ اور قبا میں، جانگھیے اور قبا میں، جانگھیے اور قمیص میں نماز پڑھیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: میں گمان کرتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ نے جانگھیے اور چادر میں ادائیگی نماز کے متعلق بھی فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عمر ؓ کی کپڑوں کے متعلق بیان کردہ تفصیل میں ستر پوشی، پھر بدن پوشی کی رعایت مقدم معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کپڑے جو وسط جسم کے ستر کے لیے استعمال ہوتے ہیں انھیں آپ نے پہلے بیان فرمایا، کیونکہ جسم کے جس حصے کا سترضروری ہے وہ وسط جسم ہی ہے، پھر جو کپڑے وسط جسم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ تین ہیں: ازار، پاجامہ اور جانگیہ۔ ان تینوں میں سے ازار کو سب سے پہلے رکھا، یہ کثیر الاستعمال بھی ہے اور جسم کے لیے ساتربھی۔ گویا آپ نے سترعورۃ کے لحاظ سے کپڑوں کے تین درجے بتائے ہیں: پہلے ازار، پھرپاجامہ، آخر میں جانگیے اس لیے رکھا کہ اس میں سترسب سے کم ہے، ہاں اگرچادریاقمیص کے ساتھ اس کااستعمال ہوتو چنداں حرج نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگرنمازی دوکپڑوں میں نماز پڑھے توتہ بند کے ساتھ اوپر کے جسم کے لیے چادر، کرتایا قبا بھی ہو، اگرپاجامے کے ساتھ پڑھے تو اس کے ساتھ بھی چادر یا کرتا یا قبا ہو۔ اگرجانگیے پہنے ہوئے ہوتواس کے ساتھ چادر یاکرتایا قبا ہوتا کہ سترپوشی کی رعایت زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔ (فتح الباري:617/1) حافظ ابن حجر ؒ نےلکھاہے کہ نماز کے وقت کپڑوں کا اہتمام ضروری ہے۔ جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے اورایک کپڑے میں نماز پڑھنا صرف تنگی اور افلاس کے وقت ہے۔ وہ کپڑوں میں نماز پڑھنا بہ نسبت ایک کپڑے کے افضل ہے۔ اگرچہ قاضی عیاض ؒ نے اس کےمتعلق اختلاف کی نفی کی ہے، تاہم ابن منذر ؒ کی عبارت سے اختلاف کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے ائمہ سے ایک کپڑے میں جواز صلاۃ کا کرکے لکھاہے کہ بعض حضرات نے دوکپڑوں میں نماز کو مستحب قراردیاہے، مگر اشبب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی قدرت ووسعت کے باوجود صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے گا تو وقت کے دوران میں اسکا اعادہ کرنا ہوگا ہاں اگروہ کپڑا موٹا ہوتو اعادے کی ضرورت نہیں اور بعض حنفیہ نے بھی شخص مذکور کی نماز کومکروہ کہا ہے۔ (عمدة القاري:286/3) 2۔ مصنف عبدالرزاق (356/1) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک کپڑے میں نماز کو مکروہ کہتے تھے اور اس کی اجازت کو اسلام کے ابتدائی دورمیں تنگی کے وقت پرمحمول کرتے تھے۔ جب لوگوں کو زیادہ کپڑے میسر نہ تھے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ اس کے خلاف ایک کپڑے میں نماز کومکروہ نہیں کہتے تھے۔ ان دونوں حضرات کے اختلاف کو سن کر حضرت عمر ؓ منبر پرکھڑے ہوئے اور اعلان فرمایا کہ درست بات وہی ہے جو حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں نہ کہ وہ جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہ کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب کے واسطہ سے، انھوں نے محمد سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم سب ہی لوگوں کے پاس دو کپڑے ہو سکتے ہیں؟ پھر ( یہی مسئلہ ) حضرت عمر ؓ سے ایک شخص نے پوچھا تو انھوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراغت دی تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔ آدمی کو چاہیے کہ نماز میں اپنے کپڑے اکٹھا کر لے، کوئی آدمی تہبند اور چادر میں نماز پڑھے، کوئی تہبند اور قمیص، کوئی تہبند اور قبا میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامہ اور قمیص میں، کوئی پاجامہ اور قبا میں، کوئی جانگیا اور قبا میں، کوئی جانگیا اور قمیص میں نماز پڑھے۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور چادر میں نماز پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
اس میں حضرت ابوہریرہ ؓ کو شک تھا کہ حضرت عمر ؓ نے یہ آخر کا لفظ کہا تھا یا نہیں، کیونکہ محض جانگیا سے ستر پوشی نہیں ہوتی، ہاں اس پر ایسا کپڑا ہو جس سے ستر پوشی کامل طور پر حاصل ہوجائے توجائز ہے اور یہاں یہی مراد ہے:'' والستر به حاصل مع القبا ومع القمیص''(قسطلاني) چغہ یا طویل قمیص پہن کر اس کے ساتھ ستر پوشی ہوجاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A man stood up and asked the Prophet (ﷺ) about praying in a single garment. The Prophet (ﷺ) said, "Has every one of you two garments?" A man put a similar question to 'Umar on which he replied, "When Allah makes you wealthier then you should clothe yourself properly during prayers. Otherwise one can pray with an Izar and a Rida' (a sheet covering the upper part of the body.) Izar and a shirt, Izar and a Qaba', trousers and a Rida, trousers and a shirt or trousers and a Qaba', Tubban and a Qaba' or Tubban and a shirt." (The narrator added, "I think that he also said a Tubban and a Rida. ")