باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3668.
حضرت ابوبکر ؓنے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: توجہ سے سنو!جو شخص حضرت محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاتھا تو بے شک اللہ تعالیٰ زندہ جاویدہے اور اس پرکبھی موت نہیں آئے گی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’بے شک آپ مرنے والے ہیں اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ نیز یہ آیت بھی تلاوت فرمائی: ’’حضرت محمد ﷺ صرف رسول ہیں۔ آپ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ اگرآپ وفات پاجائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیاتم سب اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گا وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو اچھی جز ادے گا۔‘‘ یہ سن کر لوگ بے اختیار رونے لگے اور انصار حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے پاس سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع ہوگئے اور کہنے لگے: ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کے پاس گئے۔ حضرت عمر تقریر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن حضرت ابوبکر نے انھیں چپ کرادیا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے: واللہ!میرا ارادہ یہ تھا کہ میں نے ایک بہت اچھی تقریر تیار کرلی تھی۔ میراخیال تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاملے کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ بہرحال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریر شروع کی۔ واقعی وہ تمام لوگوں سے زیادہ بلیغ ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ہم مہاجرین امراء اور حکام ہوں گے اور تم انصار ہمارے وزیر ہوں گے۔ اس دوران میں حباب بن منذر ؓ نے فرمایا: واللہ!ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ ابوبکر ؓ نےفرمایا: ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہم امراء ہوں گے اور تم وزراء ہوگے کیونکہ محل وقوع کے اعتبار سے قریش تمام عربوں سے بہتر اور افعال وکردار کے لحاظ سے افضل ہیں، لہذا تم سب حضرت عمر یا ابوعبیدہ بن جراح کی بیعت کرلو۔ حضرت عمر ؓ نےفرمایا: نہیں، ہم تو آپ ہی کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار، ہم میں سے افضل اور ہم سب میں سے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کاہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کرلی اور اس کے بعد تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ کسی کہنے والے نے کہا: تم نے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کو ہلاک کرڈالا ہے، یعنی اسے نظر انداز کردیاہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اسے تواللہ نے ہلاک کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3530.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3668
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3668
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3668
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکر ؓنے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: توجہ سے سنو!جو شخص حضرت محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاتھا تو بے شک اللہ تعالیٰ زندہ جاویدہے اور اس پرکبھی موت نہیں آئے گی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’بے شک آپ مرنے والے ہیں اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ نیز یہ آیت بھی تلاوت فرمائی: ’’حضرت محمد ﷺ صرف رسول ہیں۔ آپ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ اگرآپ وفات پاجائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیاتم سب اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گا وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو اچھی جز ادے گا۔‘‘ یہ سن کر لوگ بے اختیار رونے لگے اور انصار حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے پاس سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع ہوگئے اور کہنے لگے: ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کے پاس گئے۔ حضرت عمر تقریر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن حضرت ابوبکر نے انھیں چپ کرادیا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے: واللہ!میرا ارادہ یہ تھا کہ میں نے ایک بہت اچھی تقریر تیار کرلی تھی۔ میراخیال تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاملے کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ بہرحال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریر شروع کی۔ واقعی وہ تمام لوگوں سے زیادہ بلیغ ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ہم مہاجرین امراء اور حکام ہوں گے اور تم انصار ہمارے وزیر ہوں گے۔ اس دوران میں حباب بن منذر ؓ نے فرمایا: واللہ!ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ ابوبکر ؓ نےفرمایا: ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہم امراء ہوں گے اور تم وزراء ہوگے کیونکہ محل وقوع کے اعتبار سے قریش تمام عربوں سے بہتر اور افعال وکردار کے لحاظ سے افضل ہیں، لہذا تم سب حضرت عمر یا ابوعبیدہ بن جراح کی بیعت کرلو۔ حضرت عمر ؓ نےفرمایا: نہیں، ہم تو آپ ہی کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار، ہم میں سے افضل اور ہم سب میں سے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کاہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کرلی اور اس کے بعد تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ کسی کہنے والے نے کہا: تم نے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کو ہلاک کرڈالا ہے، یعنی اسے نظر انداز کردیاہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اسے تواللہ نے ہلاک کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکر ؓ نے پہلے اللہ کی حمد کی اور ثنا بیان کی ۔ پھر فرمایا : لوگو ! دیکھو اگر کوئی محمد ( ﷺ ) کو پوجتا تھا ( یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں ، وہ کبھی نہیں مریں گے ) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی ۔ ( پھر ابوبکر ؓ نے سورہ زمر کی یہ آیت پڑھی ) ”اے پیغبر! توبھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں ۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں ۔ پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاو¿ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزاربندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔‘‘ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کررونے لگے ۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ ؓ کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم ( مہاجرین ) میں سے ہوگا ( دونوں مل کر حکومت کریں گے ) پھر ابوبکر ، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کی مجلس میں پہنچے ۔ عمر ؓ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا ۔ عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کرلی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی ، مجھے ڈرتھا کہ ابوبکر اسکو نہیں پہنچ سکیں گے ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم ( قریش ) امراءہیں اور تم ( جماعت انصار ) وزارءہو ۔ اس پر حضرت حباب بن منذر ؓ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ، ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراءہیں تم وزارء ہو ( وجہ یہ ہے کہ ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کاملک ( یعنی مکہ ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمرؓ سے بیعت کرلو یا ابوعبیدہ بن جراح سے ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : نہیں ہم آپ سے ہی بیعت کریں گے ۔ آپ ہمارے سردار ہیں ، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول کریم ﷺ کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ حضرت عمرؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی پھر سب لوگوں نے بیعت کی ۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ ؓ کو تم لوگوں نے مارڈالا ۔ عمر ؓ نے کہا : انہیں اللہ نے مارڈالا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bakr (RA) praised and glorified Allah and said, No doubt! Whoever worshipped Muhammad, then Muhammad is dead, but whoever worshipped Allah, then Allah is Alive and shall never die." Then he recited Allah's Statement.:-- "( O Muhammad (ﷺ) ) Verily you will die, and they also will die." (39:30) He also recited:-- "Muhammad is no more than an Apostle; and indeed many Apostles have passed away, before him, If he dies Or is killed, will you then Turn back on your heels? And he who turns back On his heels, not the least Harm will he do to Allah And Allah will give reward to those Who are grateful." (3:144) The people wept loudly, and the Ansar were assembled with Sad bin 'Ubadah in the shed of Bani Saida. They said (to the emigrants). "There should be one 'Amir from us and one from you." Then Abu Bakr, Umar bin Al-Khattab (RA) and Abu 'baida bin Al-Jarrah went to them. 'Umar wanted to speak but Abu Bakr (RA) stopped him. 'Umar later on used to say, "By Allah, I intended only to say something that appealed to me and I was afraid that Abu Bakr (RA) would not speak so well. Then Abu Bakr (RA) spoke and his speech was very eloquent. He said in his statement, "We are the rulers and you (Ansars) are the ministers (i.e. advisers)," Hubab bin Al-Mundhir said, "No, by Allah we won't accept this. But there must be a ruler from us and a ruler from you." Abu Bakr (RA) said, "No, we will be the rulers and you will be the ministers, for they (i.e. Quarish) are the best family amongst the 'Arabs and of best origin. So you should elect either 'Umar or Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah as your ruler." 'Umar said (to Abu Bakr), "No but we elect you, for you are our chief and the best amongst us and the most beloved of all of us to Allah's Apostle." So 'Umar took Abu Bakr's hand and gave the pledge of allegiance and the people too gave the pledge of allegiance to Abu Bakr. Someone said, "You have killed Sad bin Ubadah." 'Umar said, "Allah has killed him."