باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3670.
حضرت ابوبکر ؓ نے لوگوں کی خوب رہنمائی فرمائی اور جو ان کی ذمہ داری تھی وہ ان پر واضح کی، چنانچہ جب لوگ وہاں سے نکلے تو یہ آیت کریمہ تلاوت کررہے تھے: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌّ۔ ۔ ۔ الشَّاكِرِينَ﴾ تک۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ آپ کی بصیرت عظیم خطبہ اور بروقت اقدام نے امت کے شیرازے کو منتشر ہونے سے بچا لیا ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا علم حضرت عمر ؓ بلکہ تمام صحابہ کے علم سے بڑھ کر تھا۔2۔انصار نے جو تجویز پیش کی تھی کہ دو امیر مقرر کر لیے جائیں وہ صحیح نہ تھی ۔ اگر اس پر عمل ہو جاتا تو امت کی وحدت کے خلاف بڑے بھیانک نتائج بر آمد ہوتے۔حضرت عمر نے بروقت اور برجستہ اس تحریک کا جواب دیا اور فرمایا:ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ اور ابوبکر ؓ کا ہاتھ پکڑ کرفرمایا:بتاؤ﴿إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ﴾ غار میں دونوں کون تھے؟﴿ذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ﴾ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کون تھے اور﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا﴾ میں اللہ تعالیٰ کی معیت کن کو حاصل تھی؟ پھر آپ نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی اور لوگوں سے کہا:تم بھی ان کی بیت کرو،چنانچہ سب لوگوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی۔ (فتح الباري:41/7) 3۔اس حدیث سے منصب خلافت کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تجہیز وتکفین پر اسے مقدم رکھا۔افسوس کہ آج مسلمانوں نے اس اہم فرض کوفراموش کردیاہے۔اگرچہ آج دنیا میں مسلمانوں کی متعدد حکومتیں قائم ہیں مگر خلافت راشدہ کی جھلک سے اکثر محروم ہیں۔واللہ المستعان۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3531.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3670
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3670
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3670
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکر ؓ نے لوگوں کی خوب رہنمائی فرمائی اور جو ان کی ذمہ داری تھی وہ ان پر واضح کی، چنانچہ جب لوگ وہاں سے نکلے تو یہ آیت کریمہ تلاوت کررہے تھے: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌّ۔ ۔ ۔ الشَّاكِرِينَ﴾ تک۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ آپ کی بصیرت عظیم خطبہ اور بروقت اقدام نے امت کے شیرازے کو منتشر ہونے سے بچا لیا ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا علم حضرت عمر ؓ بلکہ تمام صحابہ کے علم سے بڑھ کر تھا۔2۔انصار نے جو تجویز پیش کی تھی کہ دو امیر مقرر کر لیے جائیں وہ صحیح نہ تھی ۔ اگر اس پر عمل ہو جاتا تو امت کی وحدت کے خلاف بڑے بھیانک نتائج بر آمد ہوتے۔حضرت عمر نے بروقت اور برجستہ اس تحریک کا جواب دیا اور فرمایا:ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ اور ابوبکر ؓ کا ہاتھ پکڑ کرفرمایا:بتاؤ﴿إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ﴾ غار میں دونوں کون تھے؟﴿ذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ﴾ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کون تھے اور﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا﴾ میں اللہ تعالیٰ کی معیت کن کو حاصل تھی؟ پھر آپ نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی اور لوگوں سے کہا:تم بھی ان کی بیت کرو،چنانچہ سب لوگوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی۔ (فتح الباري:41/7) 3۔اس حدیث سے منصب خلافت کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تجہیز وتکفین پر اسے مقدم رکھا۔افسوس کہ آج مسلمانوں نے اس اہم فرض کوفراموش کردیاہے۔اگرچہ آج دنیا میں مسلمانوں کی متعدد حکومتیں قائم ہیں مگر خلافت راشدہ کی جھلک سے اکثر محروم ہیں۔واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
اور بعد میں حضرت ابوبکر ؓ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھادی اور ان کو بتلادیا جو ان پر لازم تھا ( یعنی اسلام پر قائم رہنا ) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے ”محمد ﷺ ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزرچکے ہیں۔ الشاکرین۔‘‘ تک ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر ؓ کے اس عظیم خطبہ نے امت کے شیرازے کو منتشر ہونے سے بچالیا۔ انصار نے جو دوامیر مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی وہ صحیح نہ تھی۔ کیونکہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رکھی جاسکتیں۔ روایت میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے لیے حضرت عمر ؓ کی بددعا مذکور ہے۔ وہی دو امیر مقرر کرنے کی تجویز لے کر آئے تھے۔ خدانخواستہ اس پر عمل ہوتا تونتیجہ بہت ہی برا ہوتا ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ اس کے بعد شام کے ملک کو چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حدیث سے نصب خلیفہ کا وجوب ثابت ہو ا کیونکہ صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ کی تجہیز وتکفین پر بھی اس کو مقدم رکھا۔ صد افسوس کہ امت نے جلد ہی اس فر ض کو فراموش کردیا۔ پہلی خرابی یہ پیداہوئی کہ خلافت کی جگہ ملوکیت آگئی۔ پھر جب مسلمانوں نے قطار عالم میں قدم رکھا تو مختلف اقوام عالم سے ان کا سابقہ پڑا جن سے متاثر ہو کر وہ اس فریضہ ملت کو بھول گئے اور انتشار کا شکار ہوگئے۔ آج تو دور ہی دوسرا ہے اگر چہ اب بھی مسلمانوں کی کافی حکومتیں دنیا میں قائم ہیں مگر خلافت راشدہ کی جھلک سے اکثر محروم ہیں۔ اللہ پاک اس دور پُر فتن میں مسلمانوں کو باہمی اتفاق نصیب کرے کہ وہ متحدہ طورپر جمع ہوکر ملت اسلامیہ کی خدمت کرسکیں ۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Then Abu Bakr (RA) led the people to True Guidance and acquainted them with the right path they were to follow so that they went out reciting:-- "Muhammad is no more than an Apostle (ﷺ) and indeed many Apostles have passed away before him.." (3:144)