باب: ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی ؓکے فضائل کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of 'Ali bin Abi Talib رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا حضرت علی ؓسے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓسے کہا کہ رسول اللہ ﷺاپنی وفات تک ان سے راضی تھے ۔تشریح: امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؓ چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوالتراب ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، اور غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ یہ گندمی رنگ والے ، بڑی روشن، خوبصورت آنکھوں والے تھے، طویل القامت نہ تھے، داڑھی بہت بھری ہوئی تھی۔ آخر میں سر اور داڑھی ہردو کے بال سفید ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے دن جمعہ کو 18 ذی الحجہ 35 ھ میں تاج خلافت ان کے سرپر رکھا گیا اور 18 رمضان 40 ھ میں جمعہ کے دن عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے آپ کے سرپر تلوار سے حملہ کیا جس کے تین دن بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ نے آپ کو غسل دیا۔ حسن ؓ نے نماز پڑھائی۔ صبح کے وقت آپ کو دفن کیا گیا، آپ کی عمر 63سال کی تھی، مدت خلافت چار سال ، نوماہ اور کچھ دن ہے۔ عنوان باب میں حضرت علی ؓکے متعلق حدیث ” انت منی وانا منک “ مذکور ہے یعنی تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں، آنحضرت ﷺ جب جنگ تبوک میں جانے لگے تو حضرت علی ؓ کو مدینہ میںچھوڑ گئے ان کو رنج ہوا، کہنے لگے آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں اس وقت آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی یعنی جیسے حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور کو جاتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو اپنا جانشیں کرگئے تھے، ایسا ہی میں تم کو اپنا قائم مقام کرکے جاتاہوں، اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے بعد متصلا تم ہی میرے خلیفہ ہوگے۔ کیونکہ حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کی حیات میں گزرگئے تھے۔ دوسری روایت میں اتنا اور زیادہ ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔
3701.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت کرےگا۔‘‘ لوگ رات بھر سوچتے رہے کہ دیکھیں جھنڈا کسے ملتا ہے؟صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہرایک کی خواہش تھی کہ جھنڈا اسے دیاجائے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: ’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ان کی آنکھوں میں کوئی شکایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے پیغام بھیج کر بلاؤ۔‘‘ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ اس سے انھیں ایسی شفا ہوئی کہ گویا پہلے کوئی مرض ہی نہیں تھا۔ آپ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا دیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ !میں ان سے جنگ کرتا رہوں حتیٰ کہ وہ سارے ہم جیسے(مسلمان) ہوجائیں؟آ پ نے فرمایا: ’’ابھی یوں ہی چلتے رہو۔ جب ان کے میدان میں اترو تو پہلے انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق (واجب) ہیں؟اللہ کی قسم!اگرتمھاری کوشش سے کسی ایک شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت کردے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3562
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3701
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3701
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3701
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا حضرت علی ؓسے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓسے کہا کہ رسول اللہ ﷺاپنی وفات تک ان سے راضی تھے ۔تشریح: امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؓ چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوالتراب ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، اور غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ یہ گندمی رنگ والے ، بڑی روشن، خوبصورت آنکھوں والے تھے، طویل القامت نہ تھے، داڑھی بہت بھری ہوئی تھی۔ آخر میں سر اور داڑھی ہردو کے بال سفید ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے دن جمعہ کو 18 ذی الحجہ 35 ھ میں تاج خلافت ان کے سرپر رکھا گیا اور 18 رمضان 40 ھ میں جمعہ کے دن عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے آپ کے سرپر تلوار سے حملہ کیا جس کے تین دن بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ نے آپ کو غسل دیا۔ حسن ؓ نے نماز پڑھائی۔ صبح کے وقت آپ کو دفن کیا گیا، آپ کی عمر 63سال کی تھی، مدت خلافت چار سال ، نوماہ اور کچھ دن ہے۔ عنوان باب میں حضرت علی ؓکے متعلق حدیث ” انت منی وانا منک “ مذکور ہے یعنی تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں، آنحضرت ﷺ جب جنگ تبوک میں جانے لگے تو حضرت علی ؓ کو مدینہ میںچھوڑ گئے ان کو رنج ہوا، کہنے لگے آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں اس وقت آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی یعنی جیسے حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور کو جاتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو اپنا جانشیں کرگئے تھے، ایسا ہی میں تم کو اپنا قائم مقام کرکے جاتاہوں، اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے بعد متصلا تم ہی میرے خلیفہ ہوگے۔ کیونکہ حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کی حیات میں گزرگئے تھے۔ دوسری روایت میں اتنا اور زیادہ ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت کرےگا۔‘‘ لوگ رات بھر سوچتے رہے کہ دیکھیں جھنڈا کسے ملتا ہے؟صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہرایک کی خواہش تھی کہ جھنڈا اسے دیاجائے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: ’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ان کی آنکھوں میں کوئی شکایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے پیغام بھیج کر بلاؤ۔‘‘ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ اس سے انھیں ایسی شفا ہوئی کہ گویا پہلے کوئی مرض ہی نہیں تھا۔ آپ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا دیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ !میں ان سے جنگ کرتا رہوں حتیٰ کہ وہ سارے ہم جیسے(مسلمان) ہوجائیں؟آ پ نے فرمایا: ’’ابھی یوں ہی چلتے رہو۔ جب ان کے میدان میں اترو تو پہلے انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق (واجب) ہیں؟اللہ کی قسم!اگرتمھاری کوشش سے کسی ایک شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت کردے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: "تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ "نیز حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓ کے متعلق فرمایا تھا کہ رسول اللہ ﷺا پنی وفات تک ان سے راضی اور خوش تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہاہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا ، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ خیبر کے موقع پر بیان فرمایا کہ کل میں ایک ایسے شخص کو اسلامی علم دوںگا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا ، راوی نے بیان کیا کہ رات کو لوگ یہ سوچتے رہے کہ دیکھئے علم کسے ملتا ہے ، جب صبح ہوئی تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں سب حضرات ( جو سرکردہ تھے ) حاضر ہوئے ، سب کو امید تھی کہ علم انہیں ہی ملے گا ، لیکن حضور ﷺ نے دریافت فرمایا ، علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے بتایاکہ ان کی آنکھوں میں درد ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ پھر ان کے یہاں کسی کو بھیج کر بلوالو ، جب وہ آئے تو آنحضرت ﷺ نے ان کی آنکھ میں اپنا تھوک ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی ، اس سے انہیں ایسی شفا حاصل ہوئی جیسے کوئی مرض پہلے تھاہی نہیں ، چنانچہ آپ نے علم انہیں کو عنایت فرمایا ، حضرت علی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ان سے اتنا لڑوں گا کہ وہ ہمارے جیسے ہوجائیں ( یعنی مسلمان بن جائیں ) آپ نے فرمایا : ابھی یوں ہی چلتے رہو ، جب ان کے میدان میں اترو تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاو کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق واجب ہیں ، خداکی قسم اگر تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں ( کی دولت ) سے بہتر ہے ۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہو لڑائی کی نوبت نہ آنے پائے، اسلام لڑائی کرنے کا حامی نہیں ہے، اسلام امن چاہتاہے، اس کی جنگ صرف مدافعانہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Tomorrow I will give the flag to a man with whose leadership Allah will grant (the Muslim) victory." So the people kept on thinking the whole night as to who would be given the flag. The next morning the people went to Allah's Apostle (ﷺ) and every one of them hoped that he would be given the flag. The Prophet (ﷺ) said, "Where is Ali Ibn Abi Talib (RA) ?" The people replied, "He is suffering from eye trouble, O Allah's Apostle." He said, "Send for him and bring him to me." So when 'Ali came, the Prophet (ﷺ) spat in his eyes and invoked good on him, and he became alright as if he had no ailment. The Prophet (ﷺ) then gave him the flag. 'Ali said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall I fight them (i.e. enemy) till they become like us?" The Prophet (ﷺ) said, "Proceed to them steadily till you approach near to them and then invite them to Islam and inform them of their duties towards Allah which Islam prescribes for them, for by Allah, if one man is guided on the right path (i.e. converted to Islam) through you, it would be better for you than (a great number of) red camels."