Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: Narration about Mu'awiya رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3764.
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت معاویہ ؓ نے نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا۔ ان کے پاس حضرت ابن عباس ؓ کا آزادکردہ غلام تھا۔ وہ اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3622
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3764
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3764
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3764
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابوعبدالرحمان ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئے ۔صلح حدیبیہ کےبعد اسلام قبول کیا لیکن کسی وجہ سے اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا حتی کہ فتح مکہ کے سال اسلام کو ظاہر کیا۔وہ عمرہ قضاء میں مسلمان تھے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے چھوٹے کیے۔( صحیح البخاری الحج حدیث 1730۔) جبکہ بالوں کا چھوٹا کرنا عمرے میں تھا کہ کیونکہ حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک کے بال منڈوائے تھے،چھوٹے نہیں کرائے۔بہرحال عمرۃ القضاء کے وقت آپ مسلمان تھے۔آپ کے لیے یہ اعزاز ہی کافی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی صراحت ہے۔( صحیح مسلم فضائل الصحابۃ حدیث 6409(2501)) لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس منقبت کو متنازعہ بنانے کے لیے فرمایا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں اسلوب بدل دیا ہے۔مناقب کے بجائے لفظ ذکر اختیارکیا ہے کیونکہ مذکورہ احادیث سے کوئی منقبت ثابت نہیں ہوتی۔حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فقہ اور صحبت کا اثبات ہوتا ہے جو بے شک فضل کثیر تو ہے (لیکن منقبت خاصہ نہیں) اسحاق بن راہویہ نے کہا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ کےقول پر اعتبار کرتے ہوئے عنوان کا اسلوب بدل دیا۔( فتح الباری 132/7۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے د عا فرمائیذ:"اے اللہ! اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت پر قائم رہنے والا بنادے،نیز اس کے ذریعے سے اپنی مخلوق کو رہنمائی فرما۔"( مسند الامام احمد:216/4۔) باقی رہا مسئلہ اسلوب کی تبدیلی کا توقبل ازیں کتنے اکابر صحابہ ہیں جن کے متعلق صرف"ذکر" کا لفظ استعمال ہوا ہے ،مثلاً :حضرت عباس ؓ (باب:11) حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ (باب نمبر:14) حضرت اسامہ بن زید ؓ (باب:18) ،حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ (باب:24) بہرحال حضرت معاویہ ؓ جلیل القدر صحابی اور رسول اللہ ﷺ کے کاتب وحی ہیں۔آپ نے 15 رجب 60ہجری بمطابق 679م اپریل میں وفات پائی۔
بڑوں کی لغزش ) حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی خدمات سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہیں مگر کوئی انسان بھول چوک سے معصوم نہیں ہے، صرف انبیاء علیہم السلام کی ذات ہے جن کی حفاظت اللہ پاک خود کرتاہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذکرکے سلسلے میں مولانا مرحوم کے قلم سے ایک نامناسب بیان نکل گیا ہے۔الفاظ یہ ہیں:” مترجم کہتاہے، صحابیت کا ادب ہم کو اس سے مانع ہے کہ ہم معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی محبت نہ تھی۔مختصراً “ دلوں کا جاننے والا صرف باری تعالیٰ ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں مرحوم کا یہ لکھنا مناسب نہ تھا، خو د ہی صحابیت کے ادب کا اعتراف بھی ہے اور خود ہی ان کے ضمیر پر حملہ بھی۔ انا للہ وانا الیه راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی اس لغزش کو معاف فرمائے، اور حشر کے میدان میں سب کو آیت کریمہ ونزعنا مافی صدورھم من غل ( الاعراف : 43 ) کا مصداق بنائے۔ آمین، حضرت امیر معایہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور حضرت ابوسفیان رسول کریم ﷺ کے چچا ہوتے ہیں۔ بعمر82 سال 60ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شہر دمشق میں وفات پائی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ارضاہ۔
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت معاویہ ؓ نے نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا۔ ان کے پاس حضرت ابن عباس ؓ کا آزادکردہ غلام تھا۔ وہ اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کہا ہم سے حسن بن بشیر نے بیان کیا ، ان سے عثمان بن اسود نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ ؓ نے عشاءکے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ، وہیں حضرت ابن عباس ؓ کے مولیٰ ( کریب ) بھی موجود تھے ، جب وہ حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ( حضرت امیر معاویہ ؓ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا ) اس پر انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ہے ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے ۔
حدیث حاشیہ:
یقینا ان کے پاس حضور ﷺ کے قول وفعل سے کوئی دلیل ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abu Mulaika (RA): Muawiyah offered one Rak'a Witr prayer after the 'Isha prayer, and at that time a freed slave of Ibn 'Abbas (RA) was present. He (i.e. the slave) went to Ibn 'Abbas (RA) (and told him that Muawiyah offered one Rak'a Witr prayer). Ibn Abbas (RA) said, "Leave him, for he was in the company of Allah's Apostle."