باب: س آیت کی تفسیر میں ’’اور اپنے نفسوں پر وہ دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں ، اگر چہ خود وہ فاقہ ہی میں مبتلاہوں “
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: “... (they) give them (emigrants) preference over themselves ...”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3798.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس تو پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون ہے جو اس کو اپنے ساتھ لے جائے یا (فرمایا کہ کون ہے جو) اس کی ضیافت کرے؟‘‘ ایک انصاری شخص نے کہا: میں (اس کی مہمانی کروں گا)، چنانچہ وہ شخص اسے اپنے ساتھ لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خوب خاطر مدارت کرو۔ وہ کہنے لگی: ہمارے پاس تو اپنے بچوں کے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انصاری نے کہا: تم کھانا تیار کر کے چراغ جلا دینا اور بچے (جب کھانا مانگیں تو انہیں) بہلا کر سلا دینا، چنانچہ اس نے کھانا تیار کر کے چراغ روشن کیا اور بچوں کو بہلا کر سلا دیا۔ پھر اس طرح اٹھی جیسے چراغ درست کر رہی ہو لیکن اس کو گل کر دیا۔ ان دونوں نے مہمان کو یہ باور کرایا جیسے میاں بیوی دونوں کھانا کھا رہے ہیں، حالانکہ وہ بھوکے سوئے تھے۔ پھر جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آج رات تم دونوں کے کام پر اللہ تعالٰی ہنسا (یا فرمایا کہ) اللہ نے اظہار تعجب کیا۔‘‘ پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود سخت ضرورت مند ہوں اور جو کوئی اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ مفسرین نے اس آیت کریمہ کی مختلف شان نزول بیان کی ہیں۔ بہر حال امام بخاری ؒ کے بیان کردہ واقعے کو ترجیح حاصل ہے۔ 2۔اس میں انصار کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ وہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود بھی دوسروں کے کام کرتے اور اپنی ضروریات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث میں بیان کردہ صفت "ضحك" کی تاویل کی ہے جبکہ اسلاف کا موقف یہ ہے کہ اس طرح صفات کو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح ثابت کیا جائے جیسا کہ اس کی شان کے شایان ہو، اس کی کوئی تاویل نہ کی جائے۔ شارحین بخاری نے اس کی تاویل کی ہے۔ وہ اس سے مراد اللہ کی خوشی لیتے ہیں کہ ہنسنے کو خوشی لازم ہے۔ بہرحال حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت ضحك اور تعجب کا اثبات ہے، اسے بلا تاویل اللہ تعالیٰ کے لیےثابت کیا جائے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی آئندہ حدیث میں مذکورہ واقعہ بھی اس کی تائید ہے۔ اگرچہ دیگر روایات میں اس کا پس منظر کچھ اور بھی بیان ہوا ہے تاہم ان میں جمع(تطبیق )کی صورت ممکن ہے۔( فتح الباری:7/148۔)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس تو پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون ہے جو اس کو اپنے ساتھ لے جائے یا (فرمایا کہ کون ہے جو) اس کی ضیافت کرے؟‘‘ ایک انصاری شخص نے کہا: میں (اس کی مہمانی کروں گا)، چنانچہ وہ شخص اسے اپنے ساتھ لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خوب خاطر مدارت کرو۔ وہ کہنے لگی: ہمارے پاس تو اپنے بچوں کے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انصاری نے کہا: تم کھانا تیار کر کے چراغ جلا دینا اور بچے (جب کھانا مانگیں تو انہیں) بہلا کر سلا دینا، چنانچہ اس نے کھانا تیار کر کے چراغ روشن کیا اور بچوں کو بہلا کر سلا دیا۔ پھر اس طرح اٹھی جیسے چراغ درست کر رہی ہو لیکن اس کو گل کر دیا۔ ان دونوں نے مہمان کو یہ باور کرایا جیسے میاں بیوی دونوں کھانا کھا رہے ہیں، حالانکہ وہ بھوکے سوئے تھے۔ پھر جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آج رات تم دونوں کے کام پر اللہ تعالٰی ہنسا (یا فرمایا کہ) اللہ نے اظہار تعجب کیا۔‘‘ پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود سخت ضرورت مند ہوں اور جو کوئی اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ مفسرین نے اس آیت کریمہ کی مختلف شان نزول بیان کی ہیں۔ بہر حال امام بخاری ؒ کے بیان کردہ واقعے کو ترجیح حاصل ہے۔ 2۔اس میں انصار کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ وہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود بھی دوسروں کے کام کرتے اور اپنی ضروریات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث میں بیان کردہ صفت "ضحك" کی تاویل کی ہے جبکہ اسلاف کا موقف یہ ہے کہ اس طرح صفات کو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح ثابت کیا جائے جیسا کہ اس کی شان کے شایان ہو، اس کی کوئی تاویل نہ کی جائے۔ شارحین بخاری نے اس کی تاویل کی ہے۔ وہ اس سے مراد اللہ کی خوشی لیتے ہیں کہ ہنسنے کو خوشی لازم ہے۔ بہرحال حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت ضحك اور تعجب کا اثبات ہے، اسے بلا تاویل اللہ تعالیٰ کے لیےثابت کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن داود نے بیان کیا، ان سے فضیل بن غزوان نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ ایک صاحب (خود ابوہریرہ ؓ ہی مراد ہیں) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا۔ (تاکہ ان کو کھانا کھلادیں) ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلالو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلادو۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلادیا اور اپنے بچوں کو (بھوکا) سلادیا، پھر وہ دکھا تو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کررہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھارہے ہیں، لیکن ان دونوں نے (اپنے بچوں سمیت رات) فاقہ سے گزاردی، صبح کے وقت جب وہ صحابی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا (یہ فرمایا کہ اسے) پسند کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر (دوسرے غریب صحابہ کو) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
مجموعی طورپر انصار کی فضیلت ثابت ہوئی۔ حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A man came to the Prophet. The Prophet (ﷺ) sent a messenger to his wives (to bring something for that man to eat) but they said that they had nothing except water. Then Allah's Apostle (ﷺ) said, "Who will take this (person) or entertain him as a guest?" An Ansar man said, "I." So he took him to his wife and said to her, "Entertain generously the guest of Allah's Apostle (ﷺ) " She said, "We have got nothing except the meals of my children." He said, "Prepare your meal, light your lamp and let your children sleep if they ask for supper." So she prepared her meal, lighted her lamp and made her children sleep, and then stood up pretending to mend her lamp, but she put it off. Then both of them pretended to be eating, but they really went to bed hungry. In the morning the Ansari went to Allah's Apostle (ﷺ) who said, "Tonight Allah laughed or wondered at your action." Then Allah revealed: "But give them (emigrants) preference over themselves even though they were in need of that And whosoever is saved from the covetousness Such are they who will be successful." (59.9)