باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The arrival of the Prophet (saws) at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3926.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آنے لگا۔ میں (تیمارداری کرنے کے لیے) دونوں کے پاس گئی اور کہا: ابا جان! کیا حال ہے؟ اے بلال! تم کیسے ہو؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو کہتے: ہر کوئی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔ اور حضرت بلال ؓ کا بخار جب اتر جاتا تو وہ بآواز بلند کہتے: کاش! مجھے پتہ چل جائے کیا میں اس وادی میں رات گزاروں گا، جبکہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو گی؟ کیا میں کسی دن مجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل نامی پہاڑیاں ظاہر ہوں گی؟ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمیں مدینہ طیبہ محبوب بنا دے جیسے ہمیں مکہ مکرمہ محبوب تھا بلکہ اس سے زیادہ محبت پیدا کر دے اور اس کی آب و ہوا اچھی کر دے، نیز ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما، اس کی وبائی امراض جحفه منتقل کر دے۔‘‘
تشریح:
1۔حجفہ میں اس وقت یہودی رہا کرتے تھے اور یہ مدینہ طیبہ سے سات مراحل پر واقع ہے۔ اس کے اور سمندر کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔ اب اہل مصر کا میقات ہے۔ آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے اب بھی مشہور ہے یقیناً رسول اللہ ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔ 2۔حضرت بلال ؓ بخار اترنے کے بعد یہ بھی کہا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر، انھیں اپنی رحمت سے باہر نکال دے جیسے انھوں نے ہمیں اس وبائی سر زمین میں آنے پر مجبور کیا۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1889) 3۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عامر بن فہرہ کے پاس بھی جاتی اور اس سے حال پوچھتی تو وہ بھی کہتے کہ موت آنے سے پہلے ہی مجھے اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! یہ حضرات شدت بخار کی وجہ سے ہذیان کا شکار ہیں: خود حضرت عائشہ ؓ کو مدینے پہنچ کر اس قدر سخت بخار ہوا کہ آپ کے بال جھڑ گئے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی آب و ہوا کے خوشگوار ہونے کی دعا فرمائی۔ اس کی تفصیل کتاب فضائل المدینہ کے آخر میں حدیث 1889 کے تحت ملاحظہ کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ ربیع الاول میں مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا لیکن بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد ماہ محرم ہی میں ہجرت کا عزم کر لیا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ یا بارہ ربیع الاول بروز سوموار کو مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے۔اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ سے پہلے مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے اس کی تفصیل ہجرت کے باب میں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آنے لگا۔ میں (تیمارداری کرنے کے لیے) دونوں کے پاس گئی اور کہا: ابا جان! کیا حال ہے؟ اے بلال! تم کیسے ہو؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو کہتے: ہر کوئی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔ اور حضرت بلال ؓ کا بخار جب اتر جاتا تو وہ بآواز بلند کہتے: کاش! مجھے پتہ چل جائے کیا میں اس وادی میں رات گزاروں گا، جبکہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو گی؟ کیا میں کسی دن مجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل نامی پہاڑیاں ظاہر ہوں گی؟ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمیں مدینہ طیبہ محبوب بنا دے جیسے ہمیں مکہ مکرمہ محبوب تھا بلکہ اس سے زیادہ محبت پیدا کر دے اور اس کی آب و ہوا اچھی کر دے، نیز ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما، اس کی وبائی امراض جحفه منتقل کر دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔حجفہ میں اس وقت یہودی رہا کرتے تھے اور یہ مدینہ طیبہ سے سات مراحل پر واقع ہے۔ اس کے اور سمندر کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔ اب اہل مصر کا میقات ہے۔ آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے اب بھی مشہور ہے یقیناً رسول اللہ ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔ 2۔حضرت بلال ؓ بخار اترنے کے بعد یہ بھی کہا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر، انھیں اپنی رحمت سے باہر نکال دے جیسے انھوں نے ہمیں اس وبائی سر زمین میں آنے پر مجبور کیا۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1889) 3۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عامر بن فہرہ کے پاس بھی جاتی اور اس سے حال پوچھتی تو وہ بھی کہتے کہ موت آنے سے پہلے ہی مجھے اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! یہ حضرات شدت بخار کی وجہ سے ہذیان کا شکار ہیں: خود حضرت عائشہ ؓ کو مدینے پہنچ کر اس قدر سخت بخار ہوا کہ آپ کے بال جھڑ گئے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی آب و ہوا کے خوشگوار ہونے کی دعا فرمائی۔ اس کی تفصیل کتاب فضائل المدینہ کے آخر میں حدیث 1889 کے تحت ملاحظہ کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال ؓ کو بخار چڑھ آیا، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اورمیں نے عرض کیا والد صاحب! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر کو جب بخار چڑھا تو یہ شعر پڑھنے لگے۔ (ترجمہ) ہر شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ صبح کرتا ہے اور موت تو جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے ’’اور بلال ؓ کے بخار میں جب کچھ تخفیف ہوتی تو زور زور سے روتے اور یہ شعر پڑھتے ’’ کاش مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ کبھی میں ایک رات بھی وادی مکہ میں گزار سکوں گا جب کہ میرے ارد گرد (خوشبو دار گھاس) اذخر اور جلیل ہوں گی، اور کیا ایک دن بھی مجھے ایسا مل سکے گا جب میں مقام مجنہ کے پانی پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیوں کو ایک نظر دیکھ سکوں گا۔‘‘ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھرمیں حضور ا کرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اطلاع دی تو آپ نے دعا کی، اے اللہ ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں اتنی پیدا کردے جتنی مکہ کی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ، یہاں کی آب وہوا کو صحت بخش بنا۔ ہمارے لئے یہا ں کے صاع اور مد (اناج ناپنے کے پیمانے) میں برکت عنایت فرما اور یہاں کے بخار کو مقام جحفہ میں بھیج دے۔
حدیث حاشیہ:
جحفہ اب مصروالوں کی میقات ہے۔ اس وقت وہاں یہودی رہا کرتے تھے۔ امام قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلا کہ کافروں کے لئے جو اسلام اور مسلمانوں کے ہر وقت درپے آزار رہتے ہوں ان کی ہلا کت کے لئے بد دعا کرنا جائز ہے امن پسند کافروں کا یہاں ذکر نہیں ہے مقام جحفہ اپنی خراب آب وہوا کے لئے اب بھی مشہور ہے جو یقینا آنحضرت ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے ان شعروں کا منظوم ترجمہ یوں کیا ہے۔ خیر یت سے ا پنے گھر میں صبح کرتا ہے بشر موت اس کی جوتی کے تسمے سے ہے نزدیک تر کاش میں مکہ کی وادی میں رہوں پھر ایک رات سب طرف میرے اگے ہوں واں جلیل اذخر نبات کاش پھر دیکھوں میں شامہ کاش پھر دیکھوں طفیل اور پیوں پانی مجنہ کے جو ہیں آب حیات شامہ اور طفیل مکہ کی پہاڑیوں کے نام ہیں۔ رونے میں جو آوازنکلتی ہے اسے عقیرہ کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): When Allah's Apostle (ﷺ) came to Medina, Abu Bakr (RA) and Bilal (RA) got fever, and I went to both of them and said, "O my father, how do you feel? O Bilal (RA) , how do you feel?" Whenever Abu Bakr's fever got worse, he would say, "Every man will meet his death once in one morning while he will be among his family, for death is really nearer to him than his leather shoe laces (to his feet)." And whenever fever deserted Bilal (RA) , he would say aloud, "Would that I know whether I shall spend a night in the valley (of Makkah) with Idhkhir and Jalil (i.e. kinds of grass) around me, and whether I shall drink one day the water of Mijannah, and whether I shall see once again the hills of Shamah and Tafil?" Then I went to Allah's Apostle (ﷺ) and told him of that. He said, "O Allah, make us love Madinah as much as or more than we used to love Makkah, O Allah, make it healthy and bless its Sa' and Mud (i.e. measures), and take away its fever to Al-Juhfa."