Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3939.
حضرت عبدالرحمٰن بن مطعم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میرے ایک ساتھی نے بازار میں چند درہم ادھار پر فروخت کیے تو میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس نے کہا: سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں نے انہیں بازار میں فروخت کیا ہے۔ کسی نے بھی اس خریدوفروخت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح خریدوفروخت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’جو نقد ہو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ ادھار پر اس طرح کی خریدوفروخت جائز نہیں۔‘‘ تم حضرت زید بن ارقم ؓ کے پاس جاؤ، اس خریدوفروخت کے متعلق ان سے دریافت کرو کیونکہ وہ ہم سے بہت بڑے تاجر تھے۔ میں نے حضرت زید بن ارقم ؓ سے پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان کبھی اس کو بایں الفاظ بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح کی خریدوفروخت کرتے تھے اور کبھی بایں الفاظ بیان کرتے تھے: ہم موسم یا حج تک ادھار خریدوفروخت کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ یعنی سفیان روایت کرتے وقت کبھی تو ادھار کی مدت کا تعین نہیں کرتے تھے اور کبھی ادھار کی مدت بیان کرتے کہ وہ موسم یا حج تک مدت ادھار کرتے تھے۔ 2۔ بہرحال اس طرح کہ خرید و فروخت جائز نہیں کیونکہ کرنسی کی خرید و فروخت میں ادھار جائز نہیں ہوتا بلکہ اسی مجلس میں لین دین کرنا ضروری ہے، جیسا کہ کتاب البیوع میں یہ مسئلہ بیان ہواہے۔ 3۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
یہ عنوان مستقل نہیں بلکہ پہلے عنوان کا تکملہ ہے۔کیونکہ پیش کردہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری پر جو واقعات پیش آئے،انھی کو بیان کیا گیا ہے ۔چنانچہ ایک حدیث میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے اور دوسری روایت میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک معاملے کا ذکر ہے۔واللہ اعلم۔
حضرت عبدالرحمٰن بن مطعم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میرے ایک ساتھی نے بازار میں چند درہم ادھار پر فروخت کیے تو میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس نے کہا: سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں نے انہیں بازار میں فروخت کیا ہے۔ کسی نے بھی اس خریدوفروخت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح خریدوفروخت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’جو نقد ہو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ ادھار پر اس طرح کی خریدوفروخت جائز نہیں۔‘‘ تم حضرت زید بن ارقم ؓ کے پاس جاؤ، اس خریدوفروخت کے متعلق ان سے دریافت کرو کیونکہ وہ ہم سے بہت بڑے تاجر تھے۔ میں نے حضرت زید بن ارقم ؓ سے پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان کبھی اس کو بایں الفاظ بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح کی خریدوفروخت کرتے تھے اور کبھی بایں الفاظ بیان کرتے تھے: ہم موسم یا حج تک ادھار خریدوفروخت کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یعنی سفیان روایت کرتے وقت کبھی تو ادھار کی مدت کا تعین نہیں کرتے تھے اور کبھی ادھار کی مدت بیان کرتے کہ وہ موسم یا حج تک مدت ادھار کرتے تھے۔ 2۔ بہرحال اس طرح کہ خرید و فروخت جائز نہیں کیونکہ کرنسی کی خرید و فروخت میں ادھار جائز نہیں ہوتا بلکہ اسی مجلس میں لین دین کرنا ضروری ہے، جیسا کہ کتاب البیوع میں یہ مسئلہ بیان ہواہے۔ 3۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ المدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمروبن دینار نے، انہوں نے ابومنہال (عبد الرحمن بن مطعم) سے سنا، عبد الرحمن بن مطعم نے بیان کیا کہ میرے ایک ساجھی دارنے بازار میں چند درہم ادھار فروخت کیے، میں نے اس سے کہا سبحان اللہ! کیا یہ جائز ہے؟ انہوں نے کہا سبحان اللہ خدا کی قسم کہ میں نے بازار میں اسے بیچا تو کسی نے بھی قابل اعتراض نہیں سمجھا۔ میں نے براء بن عازب ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب (ہجرت کرکے) تشریف لائے تو اس طرح خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ خرید وفروخت کی اس صورت میں اگر معاملہ دست بدست (نقد) ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر ادھار پر معاملہ کیا تو پھر یہ صورت جائز نہیں اورزید بن ارقم سے بھی مل کر اس کے متعلق پوچھ لو کیونکہ وہ ہم میں بڑے سوداگر تھے۔ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ سفیان نے ایک مرتبہ یوں بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب ہمارے یہاں مدینہ تشریف لائے تو ہم (اس طرح کی) خرید وفروخت کیا کرتے تھے اور بیان کیا کہ ادھار موسم تک کے لئے یا (یوں بیان کیا کہ) حج تک کے لیے۔
حدیث حاشیہ:
یہ بیع جائز نہیں ہے، کیونکہ بیع صرف میں تقابض اسی مجلس میں ضروری ہے جیسے کہ کتاب البیوع میں گزر چکا ہے، آخر حدیث میں راوی کو شک ہے کہ موسم کا لفظ کہا یا حج کا مطابقت باب اس سے نکالی کہ آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Minhal 'AbdurRahman bin Mut'im: A partner of mine sold some Dirhams on credit in the market. I said, "Glorified be Allah! Is this legal?" He replied, "Glorified be Allah! By Allah, when I sold them in the market, nobody objected to it." Then I asked Al-Bara' bin ' Azib (RA) (about it) he said, "We used to make such a transaction when the Prophet (ﷺ) came to Medina. So he said, 'There is no harm in it if it is done from hand to hand, but it is not allowed on credit.' Go to Zaid bin Al- Arqam and ask him about it for he was the greatest trader of all of us." So I asked Zaid bin Al-Arqam., and he said the same (as Al-Bara) did."