جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس یہودیوں کے آنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The coming of the Jews to the Prophet (saws) on his arrival at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
3943.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالٰی نے موسٰی ؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر فتح دی تھی، چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم کے پیش نظر روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم تمہاری نسبت حضرت موسٰی ؑ کے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ پھر آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
تشریح:
1۔اس مقام پر ایک اشکا ل ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں ربیع الاول کو آئے۔ اس وقت یہودیوں کا روزہ رکھنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو آئندہ سال محرم میں اس کا علم ہوا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہودی شمس سال کے اعتبار سے روزہ رکھتے ہوں او راس سال عاشوراء کا روزہ ماہ ربیع الاول میں آیا ہو۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کا ذکر ہے۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی آپ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ واللہ اعلم۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب ہے کہ الفاظ حدیث کی مناسبت سے قرآنی الفاظ کی لغوی معنی تشریح کرتے ہیں،چونکہ حدیث میں قوم یہود کا ذکر آیا ہے،اس لیے قرآن میں آنے والے دوالفاظ کی تشریح کردی۔پہلا لفظ(هَادُوا) ہے جو سورہ مائدہ:(41) میں ہے اس کے معنی ہیں: وہ لوگ جو یہودی ہوئے اوردوسرا لفظ(هُدْنَا)ہے جو سورہ اعراف:(156) میں ہے۔اس کے معنی"ہم نے توبہ کی" ہیں۔ابوعبیدہ نے بھی اسی طرح ان الفاظ کی تشریح کی ہے۔( عمدۃ القاری 660/11۔)
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالٰی نے موسٰی ؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر فتح دی تھی، چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم کے پیش نظر روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم تمہاری نسبت حضرت موسٰی ؑ کے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ پھر آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس مقام پر ایک اشکا ل ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں ربیع الاول کو آئے۔ اس وقت یہودیوں کا روزہ رکھنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو آئندہ سال محرم میں اس کا علم ہوا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہودی شمس سال کے اعتبار سے روزہ رکھتے ہوں او راس سال عاشوراء کا روزہ ماہ ربیع الاول میں آیا ہو۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کا ذکر ہے۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی آپ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
قرآن میں (هَادُوا) کے معنی ہیں: "انہوں نے یہودیت کو اختیار کیا۔" اور (هُدْنَا) کے معنی ہیں: "ہم نے توبہ کی۔" اسی سے هائد بنا ہے جس کے معنی ہیں توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابو بشر جعفر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس کے متعلق ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کو فرعوں پر فتح عنایت فرمائی تھی چنانچہ اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہم موسیٰ ؑ سے تمہاری بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور آپ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): When the Prophet (ﷺ) arrived at Madinah he found that the Jews observed fast on the day of 'Ashura'. They were asked the reason for the fast. They replied, "This is the day when Allah caused Moses (ؑ) and the children of Israel to have victory over Pharaoh, so we fast on this day as a sign of glorifying it." Allah's Apostle (ﷺ) said, "We are closer to Moses (ؑ) than you." Then he ordered that fasting on this day should be observed.