جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس یہودیوں کے آنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The coming of the Jews to the Prophet (saws) on his arrival at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
3944.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سر کے بال پیشانی پر لٹکاتے تھے جبکہ قریش مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی سر کے بال اپنی پیشانیوں پر لٹکائے رکھتے تھے۔ نبی ﷺ کے پاس جس معاملے کے متعلق اللہ کا حکم نہ آتا تھا آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ بعد میں نبی ﷺ مانگ نکالنے لگے۔
تشریح:
1۔ اہل کتاب چونکہ ایک سماوی شریعت کے قائل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس جن کاموں میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ آتا تو آپ ان کی موافقت پسند فرماتے۔ پھر جب آپ کو بذریعہ وحی پتہ چلا کہ بالوں میں مانگ نکالنا تو ملتِ ابراہیم ہے تو آپ اس پر عمل پیرا ہوئے۔ پھر آپ نے مشرکین کی موافقت کی کوئی پروانہ کی۔ 2۔ اس حدیث میں یہود کی ایک رسم کا ذکر ہے جس کی مخالفت کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب ہے کہ الفاظ حدیث کی مناسبت سے قرآنی الفاظ کی لغوی معنی تشریح کرتے ہیں،چونکہ حدیث میں قوم یہود کا ذکر آیا ہے،اس لیے قرآن میں آنے والے دوالفاظ کی تشریح کردی۔پہلا لفظ(هَادُوا) ہے جو سورہ مائدہ:(41) میں ہے اس کے معنی ہیں: وہ لوگ جو یہودی ہوئے اوردوسرا لفظ(هُدْنَا)ہے جو سورہ اعراف:(156) میں ہے۔اس کے معنی"ہم نے توبہ کی" ہیں۔ابوعبیدہ نے بھی اسی طرح ان الفاظ کی تشریح کی ہے۔( عمدۃ القاری 660/11۔)
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سر کے بال پیشانی پر لٹکاتے تھے جبکہ قریش مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی سر کے بال اپنی پیشانیوں پر لٹکائے رکھتے تھے۔ نبی ﷺ کے پاس جس معاملے کے متعلق اللہ کا حکم نہ آتا تھا آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ بعد میں نبی ﷺ مانگ نکالنے لگے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اہل کتاب چونکہ ایک سماوی شریعت کے قائل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس جن کاموں میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ آتا تو آپ ان کی موافقت پسند فرماتے۔ پھر جب آپ کو بذریعہ وحی پتہ چلا کہ بالوں میں مانگ نکالنا تو ملتِ ابراہیم ہے تو آپ اس پر عمل پیرا ہوئے۔ پھر آپ نے مشرکین کی موافقت کی کوئی پروانہ کی۔ 2۔ اس حدیث میں یہود کی ایک رسم کا ذکر ہے جس کی مخالفت کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
قرآن میں (هَادُوا) کے معنی ہیں: "انہوں نے یہودیت کو اختیار کیا۔" اور (هُدْنَا) کے معنی ہیں: "ہم نے توبہ کی۔" اسی سے هائد بنا ہے جس کے معنی ہیں توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبید اللہ عبد اللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ سر کے بال کو پیشانی پر لٹکا دیتے تھے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی اپنے سروں کے بال پیشانی پر لٹکائے رہنے دیتے تھے۔ جن امور میں نبی کریم ﷺ کو (وحی کے ذریعہ) کوئی حکم نہیں ہوتا تھا آپ ان میں اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے۔ پھر بعد میں آنحضرت ﷺ بھی مانگ نکالنے لگے تھے۔
حدیث حاشیہ:
شاید بعد میں آپ کواس کا حکم آگیا ہوگا۔ پیشانی پر بال لٹکانا آپ نے چھوڑ دیا اب یہ نصاریٰ کا طریق رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ صرف اپنے رسول کریم ﷺ کا طور طریق چال چلن اختیار کریں اور دوسروں کی غلط رسموں کو ہر گز اختیار نہ کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) used to keep his hair falling loose while the pagans used to part their hair, and the People of the Scriptures used to keep their hair falling loose, and the Prophet (ﷺ) liked to follow the People of the Scriptures in matters about which he had not been instructed differently, but later on the Prophet (ﷺ) started parting his hair.