Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The martyrdom of Hamza رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4072.
حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری سے روایت ہے، اس نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب ہم حمص پہنچے تو مجھے عبیداللہ بن عدی نے کہا: کیا تمہیں وحشی بن حرب حبشی ؓ کو دیکھنے کی خواہش ہے، ہم اس سے حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں؟ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وحشی نے حمص میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ہم نے اس کے متعلق لوگوں سے پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ گویا وہ پانی سے بھری ہوئی سیاہ مشک ہے۔ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے ہاں ٹھہرے رہے۔ پھر ہم نے سلام کیا تو انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ عبیداللہ نے پگڑی کے ساتھ چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔ حضرت وحشی ؓ کو صرف اس کی آنکھیں اور پاؤں نظر آ رہے تھے۔ عبیداللہ نے پوچھا: اے وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وحشی نے عبیداللہ کی طرف دیکھ کر کہا: نہیں، اللہ کی قسم! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیات نےا یک عورت سے نکاح کیا تھا جسے ام قتال بنت ابو عیص کہا جاتا تھا۔ پھر مکہ میں اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو تو میں اس کے لیے کوئی دودھ پلانے والی تلاش کر رہا تھا۔ میں نے اس بچے کو اٹھایا جبکہ اس کی والدہ بھی ہمراہ تھی۔ پھر میں نے اس بچے کو دودھ پلانے والی کے حوالے کر دیا، گویا اب میں تیرے قدموں کو دیکھ رہا ہوں (جو اس بچے کے قدموں سے ملتے جلتے ہیں)۔ اس کے بعد عبیداللہ نے اپنا چہرہ کھولا اور اس سے کہا: کیا تم ہمیں حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے واقعات بیان کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ واقعہ یوں ہے کہ حضرت حمزہ ؓ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے مالک جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا: اگر تم میرے چچا کے بدلے حضرت حمزہ ؓ کو قتل کر دو تو میں تجھے آزاد کر دوں گا۔ جب قریش کے لوگ عینین کی لڑائی کے سال نکلے ۔۔ عینین، اُحد پہاڑ کے سامنے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ اس وقت میں بھی لڑنے والوں کے ہمراہ نکلا۔ جب لوگوں نے لڑائی کے لیے صف بندی کی تو سباع نے صف سے نکل کر آواز دی: کوئی ہے لڑنے والا؟ یہ سنتے ہی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور کہنے لگے: اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کا ختنہ کرتی تھی، کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے؟ اس کے بعد حضرت حمزہ ؓ نے اس پر حملہ کر کے اسے قصہ پارینہ بنا دیا اور اسے صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔ بہرحال میں حضرت حمزہ ؓ کو قتل کرنے کے لیے ایک پتھر کی آڑ میں گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ میرے قریب آئے تو میں نے اپنے نیزے سے ان پر وار کیا اور ان کے زیر ناف ایسا نیزہ پیوست کیا کہ وہ ان کی دونوں سرینوں کے پار ہو گیا۔ یہ ان کا آخری وقت تھا۔ پھر جب قریش مکہ واپس آئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آ کر مکہ میں مقیم ہو گیا، یہاں تک کہ مکہ میں بھی دین اسلام پھیل گیا۔ اس وقت میں طائف چلا گیا لیکن جب اہل طائف نے بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف قاصد روانہ کیے تو مجھ سے کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ قاصدوں کو کچھ نہیں کہتے، اس لیے میں بھی ان کے ہمراہ ہو گیا حتی کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا، پھر جب آپ ﷺ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے فرمایا: ’’وحشی تو ہی ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’حضرت حمزہ ؓ کو تو نے ہی شہید کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کی: آپ کو تو تمام رپورٹ پہنچ چکی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو مجھ سے خود کو چھپا سکتا ہے؟‘‘ بہرحال میں اٹھ کر باہر آ گیا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور مسیلمہ کذاب کا ظہور ہوا تو میں نے خیال کیا کہ مسیلمہ کے مقابلے کے لیے جانا چاہئے ممکن ہے کہ اسے قتل کر کے حضرت حمزہ ؓ کا بدلہ اتار سکوں۔ اس کے بعد میں مسلمانوں کے ہمراہ نکلا۔ پھر وہی کچھ ہوا جو ہوناتھا۔ وہاں میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو پراگندہ بالوں کے ساتھ ایک شکستہ دیوار کی اوٹ میں کھڑا تھا گویا وہ خاکستری اونٹ کی مانند ہے۔ میں نے اسے نیزہ یوں مارا کہ اس کی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اس کے دونوں شانوں کے پار کر دیا۔ پھر ایک انصاری نے دوڑ کر اس کی کھوپڑی پر تلوار کا وار کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ایک لڑکی نے چھت پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ امیر المومنین کو ایک سیاہ غلام نے قتل کر دیا ہے۔
تشریح:
1۔ وحشی نے حضرت حمزہ ؓ کو ایسی بے دردی سے قتل کیا کہ ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور آپ کی لاش کو بگاڑدیا۔ 2۔ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ وحشی کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو حضرت حمزہ ؓ کی المناک شہادت یاد آجاتی، اس لیے آپ نے اسے اپنے سے دوررہنے کی تلقین فرمائی، بلکہ آپ نے اسے فرمایا:’’اے وحشی!جاؤ اللہ کے راستے میں جہاد کرو جس طرح تم پہلے اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے تھے۔‘‘ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک آپ کے سامنے نہیں آئے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اُحد کے موقع پر ر سول اللہ ﷺ حضرت حمزہ ؓ کی لاش تلاش کرنے کے لیے نکلے تو انھیں ایک نشیبی علاقے میں پایا۔ ان کی شکل کو بگاڑدیا گیا تھا۔ انھیں دیکھ کر آپ کو بہت غم ہوا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر کس قدر صدمے سے نڈھال ہوگی، نیز میرے بعد لوگ شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں انھیں اس حالت میں چھوردیتا، اسے درندے اور پرندے کھاجاتے پھر قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے برآمد ہوکر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ (حسین سلیم) حدیث 3568 و فتح الباري:464/7) 4۔ اگرچہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، تاہم وحشی کے دل میں اللہ کا ڈر تھا انھوں نے سوچا کہ جس طرح میں نے زمانہ کفر میں ایک بڑے جلیل القدر آدمی کو شہید کیا، اسی طرح زمانہ اسلام میں کسی خبیث اور بدترین انسان کو مار کر اس کا بدلہ چکاؤں، چنانچہ انھوں نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دورخلافت میں مسیلمہ کذاب کو قتل کیا جس کی تفصیل کتاب الفتن میں آئے گی۔ 5۔ اس حدیث سے حضرت وحشی ؓ کی ذکاوت اور قیافہ شناسی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک روایت میں تفصیل ہے کہ وحشی نے عبیداللہ سے کہا:جب سے میں نے تجھے تیری رضاعی والدہ کے حوالے کیا، جس نے تجھے دودھ پلایا تھا، اس وقت سے آج تک نہیں دیکھا اور وہ بھی میں نے اس حالت میں اسے دیا تھا کہ وہ ذی طویٰ مقام میں اپنے اونٹ پر سوارتھی تو میں نے تجھے اٹھا کر اس کے حوالے کردیا تھا۔ اٹھاتے وقت مجھے تیراپاؤں نظر آیا تھا۔ اب تو میرے پاس آکر کھڑا ہوا ہے تو میں نے اس پاؤں کو پہچان لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت وحشی ؓ نے عبیداللہ کے قدموں کو اس بچے کے قدموں سے تشبیہ دی جسے پچاس سال پہلے اٹھایا تھا۔ (فتح الباري:461/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3919
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4072
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4072
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4072
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری سے روایت ہے، اس نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب ہم حمص پہنچے تو مجھے عبیداللہ بن عدی نے کہا: کیا تمہیں وحشی بن حرب حبشی ؓ کو دیکھنے کی خواہش ہے، ہم اس سے حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں؟ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وحشی نے حمص میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ہم نے اس کے متعلق لوگوں سے پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ گویا وہ پانی سے بھری ہوئی سیاہ مشک ہے۔ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے ہاں ٹھہرے رہے۔ پھر ہم نے سلام کیا تو انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ عبیداللہ نے پگڑی کے ساتھ چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔ حضرت وحشی ؓ کو صرف اس کی آنکھیں اور پاؤں نظر آ رہے تھے۔ عبیداللہ نے پوچھا: اے وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وحشی نے عبیداللہ کی طرف دیکھ کر کہا: نہیں، اللہ کی قسم! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیات نےا یک عورت سے نکاح کیا تھا جسے ام قتال بنت ابو عیص کہا جاتا تھا۔ پھر مکہ میں اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو تو میں اس کے لیے کوئی دودھ پلانے والی تلاش کر رہا تھا۔ میں نے اس بچے کو اٹھایا جبکہ اس کی والدہ بھی ہمراہ تھی۔ پھر میں نے اس بچے کو دودھ پلانے والی کے حوالے کر دیا، گویا اب میں تیرے قدموں کو دیکھ رہا ہوں (جو اس بچے کے قدموں سے ملتے جلتے ہیں)۔ اس کے بعد عبیداللہ نے اپنا چہرہ کھولا اور اس سے کہا: کیا تم ہمیں حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے واقعات بیان کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ واقعہ یوں ہے کہ حضرت حمزہ ؓ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے مالک جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا: اگر تم میرے چچا کے بدلے حضرت حمزہ ؓ کو قتل کر دو تو میں تجھے آزاد کر دوں گا۔ جب قریش کے لوگ عینین کی لڑائی کے سال نکلے ۔۔ عینین، اُحد پہاڑ کے سامنے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ اس وقت میں بھی لڑنے والوں کے ہمراہ نکلا۔ جب لوگوں نے لڑائی کے لیے صف بندی کی تو سباع نے صف سے نکل کر آواز دی: کوئی ہے لڑنے والا؟ یہ سنتے ہی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور کہنے لگے: اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کا ختنہ کرتی تھی، کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے؟ اس کے بعد حضرت حمزہ ؓ نے اس پر حملہ کر کے اسے قصہ پارینہ بنا دیا اور اسے صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔ بہرحال میں حضرت حمزہ ؓ کو قتل کرنے کے لیے ایک پتھر کی آڑ میں گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ میرے قریب آئے تو میں نے اپنے نیزے سے ان پر وار کیا اور ان کے زیر ناف ایسا نیزہ پیوست کیا کہ وہ ان کی دونوں سرینوں کے پار ہو گیا۔ یہ ان کا آخری وقت تھا۔ پھر جب قریش مکہ واپس آئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آ کر مکہ میں مقیم ہو گیا، یہاں تک کہ مکہ میں بھی دین اسلام پھیل گیا۔ اس وقت میں طائف چلا گیا لیکن جب اہل طائف نے بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف قاصد روانہ کیے تو مجھ سے کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ قاصدوں کو کچھ نہیں کہتے، اس لیے میں بھی ان کے ہمراہ ہو گیا حتی کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا، پھر جب آپ ﷺ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے فرمایا: ’’وحشی تو ہی ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’حضرت حمزہ ؓ کو تو نے ہی شہید کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کی: آپ کو تو تمام رپورٹ پہنچ چکی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو مجھ سے خود کو چھپا سکتا ہے؟‘‘ بہرحال میں اٹھ کر باہر آ گیا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور مسیلمہ کذاب کا ظہور ہوا تو میں نے خیال کیا کہ مسیلمہ کے مقابلے کے لیے جانا چاہئے ممکن ہے کہ اسے قتل کر کے حضرت حمزہ ؓ کا بدلہ اتار سکوں۔ اس کے بعد میں مسلمانوں کے ہمراہ نکلا۔ پھر وہی کچھ ہوا جو ہوناتھا۔ وہاں میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو پراگندہ بالوں کے ساتھ ایک شکستہ دیوار کی اوٹ میں کھڑا تھا گویا وہ خاکستری اونٹ کی مانند ہے۔ میں نے اسے نیزہ یوں مارا کہ اس کی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اس کے دونوں شانوں کے پار کر دیا۔ پھر ایک انصاری نے دوڑ کر اس کی کھوپڑی پر تلوار کا وار کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ایک لڑکی نے چھت پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ امیر المومنین کو ایک سیاہ غلام نے قتل کر دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ وحشی نے حضرت حمزہ ؓ کو ایسی بے دردی سے قتل کیا کہ ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور آپ کی لاش کو بگاڑدیا۔ 2۔ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ وحشی کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو حضرت حمزہ ؓ کی المناک شہادت یاد آجاتی، اس لیے آپ نے اسے اپنے سے دوررہنے کی تلقین فرمائی، بلکہ آپ نے اسے فرمایا:’’اے وحشی!جاؤ اللہ کے راستے میں جہاد کرو جس طرح تم پہلے اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے تھے۔‘‘ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک آپ کے سامنے نہیں آئے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اُحد کے موقع پر ر سول اللہ ﷺ حضرت حمزہ ؓ کی لاش تلاش کرنے کے لیے نکلے تو انھیں ایک نشیبی علاقے میں پایا۔ ان کی شکل کو بگاڑدیا گیا تھا۔ انھیں دیکھ کر آپ کو بہت غم ہوا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر کس قدر صدمے سے نڈھال ہوگی، نیز میرے بعد لوگ شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں انھیں اس حالت میں چھوردیتا، اسے درندے اور پرندے کھاجاتے پھر قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے برآمد ہوکر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ (حسین سلیم) حدیث 3568 و فتح الباري:464/7) 4۔ اگرچہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، تاہم وحشی کے دل میں اللہ کا ڈر تھا انھوں نے سوچا کہ جس طرح میں نے زمانہ کفر میں ایک بڑے جلیل القدر آدمی کو شہید کیا، اسی طرح زمانہ اسلام میں کسی خبیث اور بدترین انسان کو مار کر اس کا بدلہ چکاؤں، چنانچہ انھوں نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دورخلافت میں مسیلمہ کذاب کو قتل کیا جس کی تفصیل کتاب الفتن میں آئے گی۔ 5۔ اس حدیث سے حضرت وحشی ؓ کی ذکاوت اور قیافہ شناسی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک روایت میں تفصیل ہے کہ وحشی نے عبیداللہ سے کہا:جب سے میں نے تجھے تیری رضاعی والدہ کے حوالے کیا، جس نے تجھے دودھ پلایا تھا، اس وقت سے آج تک نہیں دیکھا اور وہ بھی میں نے اس حالت میں اسے دیا تھا کہ وہ ذی طویٰ مقام میں اپنے اونٹ پر سوارتھی تو میں نے تجھے اٹھا کر اس کے حوالے کردیا تھا۔ اٹھاتے وقت مجھے تیراپاؤں نظر آیا تھا۔ اب تو میرے پاس آکر کھڑا ہوا ہے تو میں نے اس پاؤں کو پہچان لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت وحشی ؓ نے عبیداللہ کے قدموں کو اس بچے کے قدموں سے تشبیہ دی جسے پچاس سال پہلے اٹھایا تھا۔ (فتح الباري:461/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ابو جعفر محمد بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حجین بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد العزیز بن عبد اللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن فضل نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری ؓ نے بیان کیا کہ میں عبید اللہ بن عدی بن خیار ؓ کے سا تھ روانہ ہوا۔ جب حمص پہنچے تو مجھ سے عبید اللہ ؓ نے کہا، آپ کو وحشی (ابن حرب حبشی جس نے غزوئہ احد میں حمزہ ؓ کو قتل کیا اور ہندہ زوجہ ابو سفیان نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا) سے تعارف ہے۔ ہم چل کے ان سے حمزہ ؓ کی شہادت کے بارے میں معلوم کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ضرور چلو۔ وحشی حمص میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں، جیسے کوئی بڑا سا کپا ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے پاس کھڑے رہے، پھر سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ بیان کیا کہ عبید اللہ نے اپنے عمامہ کو جسم پر اس طرح لپیٹ رکھا تھا کہ وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں دیکھ سکتے تھے۔ عبید اللہ نے پوچھا، اے وحشی! کیا تم نے مجھے پہچانا ؟ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس نے عبید اللہ کو دیکھا اور کہا کہ نہیں، خدا کی قسم! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا، اسے ام قتال بنت ابی العیص کہا جا تا تھا، پھر مکہ میں اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور میں اس کے لیے کسی انا کی تلاش کے لیے گیا تھا۔ پھر میں اس بچے کو اس کی (رضاعی) ماں کے پاس لے گیا اور اس کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ غالباً میں نے تمہارے پاؤں دیکھے تھے۔ بیان کیا کہ اس پر عبید اللہ بن عدی ؓ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا اور کہا، ہمیں تم حمزہ ؓ کی شہادت کے واقعات بتا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حضرت حمزہ ؓ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ ؓ کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کردیا تو تم آزاد ہو جاؤ گے۔ انہوں نے بتایا کہ پھر جب قریش عینین کی جنگ کے لیے نکلے۔ عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اور اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے ہو لیا۔ جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے) لڑنے کے لیے صف آراء ہوگئیں تو (قریش کی صف میں سے) سباع بن عبدالعزیٰ نکلا اور اس نے آواز دی، ہے کوئی لڑنے والا؟ بیان کیا کہ (اس کی اس دعوت مبازرت پر) امیر حمزہ بن عبد المطلب ؓ نکل کر آئے اور فرمایا، اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی، تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے؟ بیان کیا کہ پھر حمزہ ؓ نے اس پر حملہ کیا (اور اسے قتل کردیا) اب وہ واقعہ گزرے ہوئے دن کی طرح ہوچکا تھا۔ وحشی نے بیان کیا کہ ادھر میں ایک چٹان کے نیچے حمزہ ؓ کی تاک میں تھا اور جوں ہی وہ مجھ سے قریب ہوئے ، میں نے ان پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا ، نیزہ ان کی ناف کے نیچے جاکر لگا اور ان کی سرین کے پار ہوگیا۔ بیان کیا کہ یہی ان کی شہادت کا سبب بنا، پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آگیا اور مکہ میں مقیم رہا۔ لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آگیا تو میں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا تو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاءکسی پر زیادتی نہیں کرتے (اس لیے تم مسلمان ہوجاؤ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد تمہاری پچھلی تمام غلطیاں معاف ہو جائیں گی) چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور آپ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا، کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، کیا تمہیں نے حمزہ ؓ کو قتل کیا تھا؟ میں نے عرض کیا، جو آنحضرت ﷺ کو اس معاملے میں معلوم ہے وہی صحیح ہے۔ حضور ﷺ نے اس پر فرمایا، کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ اپنی صورت مجھے کبھی نہ دکھاؤ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نکل گیا۔ پھر حضور ﷺ کی جب وفات ہوئی تو مسیلمہ کذاب نے خروج کیا۔ اب میں نے سوچا کہ مجھے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے میں اسے قتل کردوں اور ا س طرح حضرت حمزہ ؓ کے قتل کا بدل ہو سکے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی اس کے خلاف جنگ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلا۔ اس سے جنگ کے واقعات سب کو معلوم ہیں۔ بیان کیا کہ (میدان جنگ میں) میں نے دیکھا کہ ایک شخص (مسیلمہ) ایک دیوار کی دراز سے لگا کھڑا ہے۔ جیسے گندمی رنگ کا کوئی اونٹ ہو۔ سر کے بال پریشان تھے۔ بیان کیا کہ میں نے اس پر بھی اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ اس کے سینے پر لگا اور شانوں کو پار کرگیا۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک صحابی انصاری جھپٹے اور تلوار سے اس کی کھوپڑی پر مارا۔ (عبد العزیز بن عبد اللہ نے) بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن فضل نے بیان کیاکہ پھر مجھے سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہوں نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ (مسیلمہ کے قتل کے بعد) ایک لڑکی نے چھت پر کھڑی ہو کر اعلان کیا کہ امیرالمومنین کو ایک کالے غلام (یعنی حضرت وحشی) نے قتل کردیا۔
حدیث حاشیہ:
عرب میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی ختنہ ہوتا تھا اور جس طرح مردوں کے ختنے مرد کیا کرتے تھے عورتوں کے ختنے عورتیں کیا کرتی تھیں ۔ یہ طریقہ جاہلیت میں بھی رائج تھا اور اسلام نے اسے باقی رکھا کیونکہ ابراہیم ؑ کی جو بعض سنتیں عربوں باقی رہ گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی ۔ چونکہ سباع بن عبدالعزی کی ماں عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی اس لیے حمزہ ؓ نے اسے اس کی ماں کے پیشے کی عار دلائی۔ وحشی مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے بعد اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔ لیکن انہوں نے آپ ﷺ کے محترم چچا حضرت حمزہ ؓ کو قتل کیا تھا اتنی بے دردی سے کہ جب وہ شہید ہو گئے تو ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور لاش کو بگاڑدیا۔ اس لیے یہ ایک قدرتی بات تھی کہ انہیں دیکھ کر حمزہ ؓ کی غم انگیز شہادت آنحضرت ﷺ کو یاد آجاتی ۔ اس لیے آپ نے اس کو اپنے سے دور رہنے کے لیے فرمایا۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کو سید الشہداء قرار دیا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَمِسُ حَمْزَةَ فَوَجَدَهُ بِبَطْنِ الْوَادِي قَدْ مُثِّلَ بِهِ فَقَالَ لَوْلَا أَنْ تَحْزَنَ صَفِيَّةُ يَعْنِي بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَتَكُونُ سُنَّةً بَعْدِي لَتَرَكْتُهُ حَتَّى يُحْشَرَ مِنْ بُطُونِ السِّبَاعِ وحواصل الطير زَاد بن هِشَامٍ قَالَ وَقَالَ لَنْ أُصَابَ بِمِثْلِكَ أَبَدًا وَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَقَالَ إِنَّ حَمْزَةَ مَكْتُوبٌ فِي السَّمَاءِ أَسَدُ اللَّهِ وَأَسَدُ رَسُولِهِ وَرَوَى الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ فِيهِ ضَعْفٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى حَمْزَةَ قَدْ مُثِّلَ بِهِ قَالَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ لَقَدْ كُنْتَ وَصُولًا لِلرَّحِمِ فَعُولًا لِلْخَيْرِ وَلَوْلَا حُزْنُ مَنْ بَعْدِكَ لَسَرَّنِي أَنْ أَدَعَكَ حَتَّى تُحْشَرَ مِنْ أَجْوَافٍ شَتَّى ثُمَّ حَلَفَ وَهُوَ بِمَكَانِهِ لَأُمَثِّلَنَّ بِسَبْعِينَ مِنْهُمْ فَنَزَلَ الْقُرْآن وان عَاقَبْتُمْ الْآيَةَ الخ(فتح الباری)یعنی احد کے موقع پر رسول کریم ﷺ حضرت امیر حمزہ ؓ کی لاش تلاش کرنے نکلے تو اس کو ایک وادی میں پایا جس کا مثلہ کردیا گیا تھا ۔ آپ کو اسے دیکھ کر اتنا غم ہوا کہ آپ نے فرمایا اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبد المطلب کو اپنے بھائی کی لاش کا یہ حال دیکھ کر کس قدر صدمہ ہوگا اور یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ میرے بعد ہر شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں اس لاش کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا۔ اسے درندے اور پرندے کھا جاتے اور یہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔ ابن ہشام نے یہ زیادہ کیا کہ آپ نے فرمایا اے حمزہ! ایسا برتاؤ جیسا تمہارے ساتھ ان کافروں نے کیا ہے کسی کے ساتھ کبھی نہ ہوا ہوگا۔ اسی اثناءمیں حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا کہ حضرت ا میر حمزہ ؓ کا آسمانوں میں یہ نام لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں اور بزار اور طبرانی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب امیر حمزہ ؓ کی لاش کو دیکھا تو فرمایا اے حمزہ! اللہ پاک تم پر رحم کرے ۔ تم بہت ہی صلہ رحمی کرنے والے بہت ہی نیک کام کرنے والے تھے اور اگر تمہارے بعد یہ غم باقی رہنے کا ڈر نہ ہوتا تو میری خوشی تھی کہ تمہاری لاش اسی حال میں چھوڑدیتا اور تم کو مختلف جانورکھا جاتے اور تم ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضری دیتے۔ پھر آپ نے اسی جگہ قسم کھائی کہ میں کفار کے ستر آدمیوں کے ساتھ یہی معاملہ کروں گا۔ اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی اور اگر تم دشمنوں کو تکلیف دینا چاہو تو اسی قدر دے سکتے ہو جتنی تم کو ان کی طرف سے دی گئی ہے اور اگر صبر کرو اور کوئی بدلہ نہ لو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ یا اللہ ! میں اب بالکل بدلہ نہ لوں گا بلکہ صبر ہی کروں گا۔ صلی اللہ علیه وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jafar bin 'Amr bin Umaiya: I went out with 'Ubaidullah bin 'Adi Al-Khaiyar. When we reached Hims (i.e. a town in Syria), 'Ubaidullah bin 'Adi said (to me), "Would you like to see Wahshi so that we may ask him about the killing of Hamza?" I replied, "Yes." Wahshi used to live in Hims. We enquired about him and somebody said to us, "He is that in the shade of his palace, as if he were a full water skin." So we went up to him, and when we were at a short distance from him, we greeted him and he greeted us in return. 'Ubaidullah was wearing his turban and Wahshi could not see except his eyes and feet. 'Ubaidullah said, "O Wahshi! Do you know me?" Wahshi looked at him and then said, "No, by Allah! But I know that 'Adi bin Al-Khiyar married a woman called Um Qital, the daughter of Abu Al-Is, and she delivered a boy for him at Makkah, and I looked for a wet nurse for that child. (Once) I carried that child along with his mother and then I handed him over to her, and your feet resemble that child's feet." Then 'Ubaidullah uncovered his face and said (to Wahshi), "Will you tell us (the story of) the killing of Hamza?" Wahshi replied "Yes, Hamza killed Tuaima bin 'Adi bin Al-Khaiyar at Badr (battle) so my master, Jubair bin Mut'im said to me, 'If you kill Hamza in revenge for my uncle, then you will be set free." When the people set out (for the battle of Uhud) in the year of 'Ainain ..'Ainain is a mountain near the mountain of Uhud, and between it and Uhud there is a valley.. I went out with the people for the battle. When the army aligned for the fight, Siba' came out and said, 'Is there any (Muslim) to accept my challenge to a duel?' Hamza bin 'Abdul Muttalib came out and said, 'O Siba'. O Ibn Um Anmar, the one who circumcises other ladies! Do you challenge Allah and His Apostle?' Then Hamza attacked and killed him, causing him to be non-extant like the bygone yesterday. I hid myself under a rock, and when he (i.e. Hamza) came near me, I threw my spear at him, driving it into his umbilicus so that it came out through his buttocks, causing him to die. When all the people returned to Makkah, I too returned with them. I stayed in (Makkah) till Islam spread in it (i.e. Makkah). Then I left for Taif, and when the people (of Taif) sent their messengers to Allah's Apostle, I was told that the Prophet (ﷺ) did not harm the messengers; So I too went out with them till I reached Allah's Apostle. When he saw me, he said, 'Are you Wahshi?' I said, 'Yes.' He said, 'Was it you who killed Hamza?' I replied, 'What happened is what you have been told of.' He said, 'Can you hide your face from me?' So I went out when Allah's Apostle (ﷺ) died, and Musailamah Al-Kadhdhab appeared (claiming to be a prophet). I said, 'I will go out to Musailamah so that I may kill him, and make amends for killing Hamza. So I went out with the people (to fight Musailamah and his followers) and then famous events took place concerning that battle. Suddenly I saw a man (i.e. Musailamah) standing near a gap in a wall. He looked like an ash-colored camel and his hair was dishevelled. So I threw my spear at him, driving it into his chest in between his breasts till it passed out through his shoulders, and then an Ansari man attacked him and struck him on the head with a sword. 'Abdullah bin 'Umar said, 'A slave girl on the roof of a house said: Alas! The chief of the believers (i.e. Musailamah) has been killed by a black slave."