باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئر معونہ کے غزوہ کا بیان اور عضل اور قارہ کا قصہ اور عاصم بن ثابت اور خبیب اور ان کے ساتھیوں کا قصہ۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Ar-Raji’, Ri’l, Dhakwan and Bi’r Ma’una and the narration about Khubaib and his companions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن اسحاق نے بیان کیا کہ ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوئہ رجیع غزوہ احد کے بعد پیش آیا۔رجیع ایک مقام کا نام ہے ہذیل کی بستیوں میں سے یہ غزوہ صفر4ھ میں جنگ احدکے بعد ہوا تھا بیئرمعونہ اور عسفان کے درمیان ایک مقام ہے وہاں قاری صحابہ کو رعل اور ذکوان قبائل نے دھوکہ سے شہید کر دیا تھا عضل اور قارہ بھی عرب کے دو قبائل کے نام ہیں ان کا قصہ غزوۂ رجیع میں ہوا۔
4091.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے ماموں، حضرت ام سلیم ؓ کے بھائی کو بھی ستر (70) سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکین کے سردار عامر بن طفیل نے آپ ﷺ کے سامنے تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے آپ سے کہا کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی اور شہری آبادی پر میری حکومت ہو گی یا میں آپ کا جانشین ہوں گا یا پھر دو ہزار غطفانی لشکر سے آپ پر حملہ کروں گا، چنانچہ وہ ام فلاں کے گھر میں مرض طاعون میں مبتلا ہوا، کہنے لگا: فلاں قبیلے کی عورت کے گھر میں جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے، میرا گھوڑا لاؤ، چنانچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مر گیا۔ بہرحال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان، ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنو فلاں سے تھا آگے بڑھے۔ حضرت حرام ؓ نے ان سے کہا: تم میرے قریب رہو۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امن دے دیا تو تم لوگ قریب ہی ہو اور اگر مجھے انہوں نے قتل کر دیا تو آپ حضرات اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جائیں، چنانچہ حضرت حرام ؓ نے ان سے کہا: کیا تم مجھے امن دیتے تاکہ میں تمہیں اللہ کے رسول ﷺ کا پیغام پہنچاؤں؟ پھر وہ آپ ﷺ کا پیغام انہیں پہنچانے لگے تو قبیلے والوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا۔ اس نے پیچھے سے آ کر ان پر نیزے سے وار کیا۔ وہ نیزہ ان کے آر پار ہو گیا۔ حضرت حرام ؓ نے کہا: اللہ اکبر، اللہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ دوسرے شخص کو بھی پکڑ لیا گیا۔ الغرض لنگڑے شخص کے علاوہ سب صحابہ کو قتل کر دیا گیا۔ وہ لنگڑا پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا تھا۔ ان شہداء کی شان میں اللہ تعالٰی نے آیات نازل فرمائیں جو بعد میں منسوخ ہو گئیں: ’’ہم اپنے رب سے جا ملے، وہ ہم سے خوش ہوا اور اس نے ہمیں خوش کر دیا۔‘‘ نبی ﷺ نے ان مشرکین پر تیس (30) دن تک بددعا فرمائی، یعنی رعل و ذکوان اور بنو لحیان پر قنوت کی اور عصیہ کے لیے بھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی۔
تشریح:
اس حدیث میں عامر بن طفیل کی موت کا ذ کر ہے۔ حالانکہ اس کی موت کا سریہ قراء سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر عامر کی غداری کی وجہ سے قراء حضرات کی شہادت واقع ہوئی تھی، اس لیے اس کی موت کا ذکر بھی آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی غداری اور اپنے چچا ابوبراء کی امان کا لحاظ نہ کرنے پر اس کے خلاف بددعا فرمائی۔ بددعا کے الفاظ یہ ہیں: اے اللہ!عامر کے شرسے مجھے کفایت فرما۔ اس پر بددعا کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ طاعون کی گلٹی اس کے کان کے پیچھے نکل آئی جبکہ یہ ایک عورت کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ چونکہ بہادر آدمی بستر پر موت پسند نہیں کرتا، اس لیے وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہوا اور وہیں اسے موت نے آلیا۔ بہرحال اس کی موت کا واقعہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے۔ سریہ قراء سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بئر معونہ کے حادثے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور مذکورہ گفتگو کی۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3938
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4091
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4091
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4091
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ رجیع اور حادثہ بئر معونہ ایک ہی واقعہ ہے لیکن یہ دو الگ الگ واقعات ہیں اور یہ دونوں غزوہ اُحد کے بعد پیش آئے۔3ہجری کے آخرمیں غزوہ رجیع پیش آیا جسے حضرت عاصم اور حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر یہ کہاجاتا ہے۔رجیع قبیلہ ہذیل کے ایک چشمے کا نام ہے،وہاں ان حضرات کاعضل اور قارہ سے مقابلہ ہوا جبکہ بئر معونہ کا واقعہ 4ہجری کے شروع میں پیش آیا۔بئر معونہ بھی قبیلہ ہذیل کے علاقے میں ہے لیکن عسفان اور مکہ کے درمیان واقع ہے۔وہاں عامر بن طفل نے ذکوان اور رعل قبائل کو ساتھ لے کرصفہ کے ستر(70) قراء کو شہید کیا تھا،البتہ ان دونوں واقعات کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات پہنچی۔اگرچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایات میں عضل اور قارہ کے قبائل کی صراحت نہیں،تاہم ابن اسحاق نے ان کی تصریح کی ہے،چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزوہ اُحد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ کا ایک گروہ آیا اور کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم مسلمان ہیں،آپ ہمارے ساتھ چند علماء بھیجیں جو احکام دین کی تعلیم دیں تو آپ نے ان کے ساتھ چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھیجے اور یہ واقعہ رجیع سے متعلق ہے جو حضرت عاصم اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا۔( فتح الباری 474/7۔) بہرحال غزوہ رجیع حضرت عاصم اور حضرت خبیب کا سریہ ہے،جو عضل اور قارہ کے ساتھ 3 ہجری کے آخر میں پیش آیا اور بئر معونہ کا حادثہ سریہ قراء کہلاتا ہے۔یہ تعداد میں ستر(70) تھے اور یہ واقعہ رعل اور ذکوان سے متعلق ہے ۔یہ 4ہجری کے شروع میں پیش آیا۔چونکہ یہ دونوں قریب قریب تھے،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کو اکٹھا ہی بیان کردیا ہے۔واللہ اعلم۔
ابن اسحاق نے بیان کیا کہ ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوئہ رجیع غزوہ احد کے بعد پیش آیا۔رجیع ایک مقام کا نام ہے ہذیل کی بستیوں میں سے یہ غزوہ صفر4ھ میں جنگ احدکے بعد ہوا تھا بیئرمعونہ اور عسفان کے درمیان ایک مقام ہے وہاں قاری صحابہ کو رعل اور ذکوان قبائل نے دھوکہ سے شہید کر دیا تھا عضل اور قارہ بھی عرب کے دو قبائل کے نام ہیں ان کا قصہ غزوۂ رجیع میں ہوا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے ماموں، حضرت ام سلیم ؓ کے بھائی کو بھی ستر (70) سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکین کے سردار عامر بن طفیل نے آپ ﷺ کے سامنے تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے آپ سے کہا کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی اور شہری آبادی پر میری حکومت ہو گی یا میں آپ کا جانشین ہوں گا یا پھر دو ہزار غطفانی لشکر سے آپ پر حملہ کروں گا، چنانچہ وہ ام فلاں کے گھر میں مرض طاعون میں مبتلا ہوا، کہنے لگا: فلاں قبیلے کی عورت کے گھر میں جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے، میرا گھوڑا لاؤ، چنانچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مر گیا۔ بہرحال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان، ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنو فلاں سے تھا آگے بڑھے۔ حضرت حرام ؓ نے ان سے کہا: تم میرے قریب رہو۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امن دے دیا تو تم لوگ قریب ہی ہو اور اگر مجھے انہوں نے قتل کر دیا تو آپ حضرات اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جائیں، چنانچہ حضرت حرام ؓ نے ان سے کہا: کیا تم مجھے امن دیتے تاکہ میں تمہیں اللہ کے رسول ﷺ کا پیغام پہنچاؤں؟ پھر وہ آپ ﷺ کا پیغام انہیں پہنچانے لگے تو قبیلے والوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا۔ اس نے پیچھے سے آ کر ان پر نیزے سے وار کیا۔ وہ نیزہ ان کے آر پار ہو گیا۔ حضرت حرام ؓ نے کہا: اللہ اکبر، اللہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ دوسرے شخص کو بھی پکڑ لیا گیا۔ الغرض لنگڑے شخص کے علاوہ سب صحابہ کو قتل کر دیا گیا۔ وہ لنگڑا پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا تھا۔ ان شہداء کی شان میں اللہ تعالٰی نے آیات نازل فرمائیں جو بعد میں منسوخ ہو گئیں: ’’ہم اپنے رب سے جا ملے، وہ ہم سے خوش ہوا اور اس نے ہمیں خوش کر دیا۔‘‘ نبی ﷺ نے ان مشرکین پر تیس (30) دن تک بددعا فرمائی، یعنی رعل و ذکوان اور بنو لحیان پر قنوت کی اور عصیہ کے لیے بھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں عامر بن طفیل کی موت کا ذ کر ہے۔ حالانکہ اس کی موت کا سریہ قراء سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر عامر کی غداری کی وجہ سے قراء حضرات کی شہادت واقع ہوئی تھی، اس لیے اس کی موت کا ذکر بھی آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی غداری اور اپنے چچا ابوبراء کی امان کا لحاظ نہ کرنے پر اس کے خلاف بددعا فرمائی۔ بددعا کے الفاظ یہ ہیں: اے اللہ!عامر کے شرسے مجھے کفایت فرما۔ اس پر بددعا کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ طاعون کی گلٹی اس کے کان کے پیچھے نکل آئی جبکہ یہ ایک عورت کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ چونکہ بہادر آدمی بستر پر موت پسند نہیں کرتا، اس لیے وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہوا اور وہیں اسے موت نے آلیا۔ بہرحال اس کی موت کا واقعہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے۔ سریہ قراء سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بئر معونہ کے حادثے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور مذکورہ گفتگو کی۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
ابن اسحاق نے کہا: ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوہ رجیع اُحد کے بعد پیش آیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ماموں، ام سلیم (انس کی والدہ) کے بھائی کو بھی ان ستر سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکوں کے سردار عامر بن طفیل نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے (شرارت اور تکبر کی راہ سے) تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے کہا کہ یا تو یہ کیجئے کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی حکومت ہو اور شہری آبادی پر میری ہو یا پھر مجھے آپ کا جانشیں مقرر کیا جائے ورنہ پھر میں ہرازوں غطفانیوں کو لے کر آپ پر چڑھائی کردوںگا۔ (اس پر حضور ﷺ نے اس کے لیے بد دعا کی) اور ام فلاں کے گھر میں وہ مرض طاعون میں گرفتار ہوا۔ کہنے لگا کہ اس فلاں کی عورت کے گھر کے جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے۔ میرا گھوڑا لاؤ۔ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مرگیا۔ بہر حال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنی فلاں سے تھا، آگے بڑھے۔ حرام نے (اپنے دونوں ساتھیوں سے بنو عامر تک پہنچ کر پہلے ہى) کہہ دیا کہ تم دونوں میرے قریب ہی کہیں رہنا۔ میں ان کے پاس پہلے جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امن دے دیا تو تم لوگ قریب ہی ہو اور اگر انہوں نے قتل کردیاتوآپ حضرات اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جائیں۔ چنانچہ قبیلہ میں پہنچ کر انہوں نے ان سے کہا، کیا تم مجھے امان دیتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا پیغام تمہیں پہنچادوں؟ پھر وہ حضور ﷺ کا پیغام انہیں پہنچانے لگے تو قبیلہ والوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے آکر ان پر تیشہ سے وار کیا۔ ہمام نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ نیزہ آر پار ہوگیا تھا۔ حرام کی زبان سے اس وقت نکلا ”اللہ اکبر، کعبہ کے رب کی قسم ! میں نے تو اپنی مراد حاصل کرلی۔“ اس کے بعد ان میں سے ایک صحابی کو بھی مشرکین نے پکڑ لیا (جو حرام ؓ کے ساتھ تھے اور انہیں بھی شہید کردیا) پھر اس مہم کے تمام صحابہ کو شہید کردیا۔ صرف لنگڑے صحابی بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے۔ ان شہداء کی شان میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی، بعد میں وہ آیت منسوخ ہوگئی (آیت یہ تھی) ﴿إِنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا﴾ آنحضرت ﷺ نے ان قبائل رعل، ذکوان، بنو لحیان اور عصیہ کے لیے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی تیس دن تک صبح کی نماز میں بد دعا کی۔
حدیث حاشیہ:
ان قبائل کا جرم اتنا سنگین تھا کہ ان کے لیے بد دعا کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول کی بد دعا قبول کی اور یہ قبائل تباہ ہو گئے۔ الاما شاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): That the Prophet (ﷺ) sent his uncle, the brother of Um Sulaim at the head of seventy riders. The chief of the pagans, 'Amir bin At-Tufail proposed three suggestions (to the Prophet) saying, "Choose one of three alternatives: (1) that the bedouins will be under your command and the townspeople will be under my command; (2) or that I will be your successor, (3) or otherwise I will attack you with two thousand from Bani Ghatafan." But 'Amir was infected with plague in the House of Um so-and-so. He said, "Shall I stay in the house of a lady from the family of so-and-so after having a (swelled) gland like that she-camel? Get me my horse." So he died on the back of his horse. Then Haram, the brother of Um Sulaim and a lame man along with another man from so-and-so (tribe) went towards the pagans (i.e. the tribe of 'Amir). Haram said (to his companions), "Stay near to me, for I will go to them. If they (i.e. infidels) should give me protection, you will be near to me, and if they should kill me, then you should go back to your companions. Then Haram went to them and said, "Will you give me protection so as to convey the message of Allah's Apostle (ﷺ) ?" So, he started talking to them' but they signalled to a man (to kill him) and he went behind him and stabbed him (with a spear). He (i.e. Haram) said, "Allahu Akbar! I have succeeded, by the Lord of the Ka’bah!" The companion of Haram was pursued by the infidels, and then they (i.e. Haram's companions) were all killed except the lame man who was at the top of a mountain. Then Allah revealed to us a verse that was among the cancelled ones later on. It was: 'We have met our Lord and He is pleased with us and has made us pleased.' (After this event) the Prophet (ﷺ) invoked evil on the infidels every morning for 3O days. He invoked evil upon the (tribes of) Ril, Dhakwan, Bani Lihyan and Usaiya who disobeyed Allah and His Apostle