Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Al-Hudaibiya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) ارشاد ”بیشک اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہو گیا جب انہوں نے آپ سے درخت کے نیچے بیعت کی۔“
4160.
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عمر ؓ کے ہمراہ بازار گیا تو وہاں آپ سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی۔ اس نے عرض کی: امیر المومنین! میرا شوہر فوت ہو گیا ہے اور اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے۔ اللہ کی قسم! ان کے پاس نہ تو بکری کے پائے ہیں جنہیں پکا کر کھائیں، نہ کھیتی ہے اور نہ دودھ کے جانور ہی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ فقر و فاقہ کی وجہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔ اور میں خفاف بن ایماء غفاری کی بیٹی ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حدیبیہ میں موجود تھے۔ حضرت عمر ؓ یہ سن کر آگے بڑھنے کے بجائے اس کے پاس ٹھہر گئے، پھر فرمایا: مرحبا! تمہارا خاندانی تعلق تو بہت ہی قریبی ہے۔ اس کے بعد آپ ایک طاقتور اونٹ کی طرف گئے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بوریاں گندم سے بھر کر رکھ دیں۔ ان دونوں بوریوں کے درمیان کچھ خرچہ اور کپڑے وغیرہ بھی رکھ دیے۔ پھر آپ نے اس کی مہار عورت کے ہاتھ میں دے کر فرمایا: اسے لے جاؤ اس کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی کوئی اور بہتر بندوبست کر دے گا۔ ایک آدمی نے کہا: امیر المومنین! آپ نے اس عورت کو بہت سا مال دے دیا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تیری ماں تجھے روئے، اللہ کی قسم! اس عورت کے والد اور بھائی کو میں نے دیکھا انہوں نے ایک مدت تک قلعے کا محاصرہ کیا، آخر کار اسے فتح کر لیا، پھر ہم صبح کے وقت مال غنیت سے حصہ وصول کر رہے تھے۔
تشریح:
1۔ حضرت عمر ؓ ملکی انتظامات کے لیے دن رات چکر لگایا کرتے تھے، اس دوران میں مذکورہ نوجوان عورت ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بے کسی کا ذکر کیا تو حضرت عمر نے اس سے حسن سلوک کامعاملہ کیا۔ 2۔ آپ نے جس قلعے کے محاصرے کا ذکر کیا ہے وہ خیبر کا قلعہ تھا۔ 3۔ واقدی نے ذکر کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مقام ابواء میں قیام فرمایا تو ایماء بن رحضہ غفاری ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سوبکریاں اور دواونٹ پیش کیے جن پر دودھ لادا ہوا تھا۔ یہ تمام اشیاء اپنے بیٹے خفاف کے ہمراہ بطور نذرانہ بھیجیں تورسول اللہ ﷺ نے انھیں قبول فرمایا۔ بکریاں تو مجاہدین میں تقسیم کر دیں اور ان حضرات کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ 4۔ واضح رہے کہ خفاف، ان کا باپ اوردادا سب صحابی ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ ان کا بیٹا اور باپ صحابی ہیں۔ (فتح الباري:556/7، 557)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4000
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4160
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4160
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4160
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حدیبیہ،مکہ مکرمہ کے قریب ایک چشمے کانام ہے۔غزوہ خندق کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سمیت اس مقام پر پڑاؤ کیا تھا۔آ پ عمرے کی نیت سے آئے تھے لیکن کفار قریش نے آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا۔مقام حدیبیہ میں درخت کے نیچے آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت لی تھی،جوبیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔مذکورہ آیت کریمہ اسی موقع پر نازل ہوئی۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) ارشاد ”بیشک اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہو گیا جب انہوں نے آپ سے درخت کے نیچے بیعت کی۔“
حدیث ترجمہ:
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عمر ؓ کے ہمراہ بازار گیا تو وہاں آپ سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی۔ اس نے عرض کی: امیر المومنین! میرا شوہر فوت ہو گیا ہے اور اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے۔ اللہ کی قسم! ان کے پاس نہ تو بکری کے پائے ہیں جنہیں پکا کر کھائیں، نہ کھیتی ہے اور نہ دودھ کے جانور ہی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ فقر و فاقہ کی وجہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔ اور میں خفاف بن ایماء غفاری کی بیٹی ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حدیبیہ میں موجود تھے۔ حضرت عمر ؓ یہ سن کر آگے بڑھنے کے بجائے اس کے پاس ٹھہر گئے، پھر فرمایا: مرحبا! تمہارا خاندانی تعلق تو بہت ہی قریبی ہے۔ اس کے بعد آپ ایک طاقتور اونٹ کی طرف گئے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بوریاں گندم سے بھر کر رکھ دیں۔ ان دونوں بوریوں کے درمیان کچھ خرچہ اور کپڑے وغیرہ بھی رکھ دیے۔ پھر آپ نے اس کی مہار عورت کے ہاتھ میں دے کر فرمایا: اسے لے جاؤ اس کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی کوئی اور بہتر بندوبست کر دے گا۔ ایک آدمی نے کہا: امیر المومنین! آپ نے اس عورت کو بہت سا مال دے دیا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تیری ماں تجھے روئے، اللہ کی قسم! اس عورت کے والد اور بھائی کو میں نے دیکھا انہوں نے ایک مدت تک قلعے کا محاصرہ کیا، آخر کار اسے فتح کر لیا، پھر ہم صبح کے وقت مال غنیت سے حصہ وصول کر رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عمر ؓ ملکی انتظامات کے لیے دن رات چکر لگایا کرتے تھے، اس دوران میں مذکورہ نوجوان عورت ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بے کسی کا ذکر کیا تو حضرت عمر نے اس سے حسن سلوک کامعاملہ کیا۔ 2۔ آپ نے جس قلعے کے محاصرے کا ذکر کیا ہے وہ خیبر کا قلعہ تھا۔ 3۔ واقدی نے ذکر کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مقام ابواء میں قیام فرمایا تو ایماء بن رحضہ غفاری ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سوبکریاں اور دواونٹ پیش کیے جن پر دودھ لادا ہوا تھا۔ یہ تمام اشیاء اپنے بیٹے خفاف کے ہمراہ بطور نذرانہ بھیجیں تورسول اللہ ﷺ نے انھیں قبول فرمایا۔ بکریاں تو مجاہدین میں تقسیم کر دیں اور ان حضرات کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ 4۔ واضح رہے کہ خفاف، ان کا باپ اوردادا سب صحابی ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ ان کا بیٹا اور باپ صحابی ہیں۔ (فتح الباري:556/7، 557)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی: "بلاشبہ یقینا اللہ تعالٰی اہل ایمان سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ۔۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے زید بن اسلم نے‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ بازار گیا۔ حضرت عمر ؓ سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی اور عرض کیا کہا اے امیر المومنین! میرے شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور چند چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑگئے ہیں۔ خداکی قسم کہ اب نہ ان کے پاس بکری کے پائے ہیں کہ انکو پکالیں‘ نہ کھیتی ہے‘ نہ دودھ کے جانور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ فقر وفاقہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔ میں خفاف بن ایماء غفاری ؓ کی بیٹی ہوں۔ میرے والد آنحضرت ﷺ کے ساتھ غزوئہ حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ ان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہوگئے‘ آگے نہیں بڑھے۔ پھر فرمایا‘ مرحبا‘ تمہارا خاندانی تعلق تو بہت قریبی ہے۔ پھر آپ ایک بہت قوی اونٹ کی طرف مڑے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بورے غلے سے بھرے ہوئے رکھ دیئے۔ ان دونوں بوروں کے درمیان روپیہ اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور کپڑے رکھ دیئے اور اس کی نکیل ان کے ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ اسے لے جا‘ یہ ختم نہ ہوگا اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ تجھے اس سے بہتر دے گا۔ ایک صاحب نے اس پر کہا‘ اے امیر المومنین! آپ نے اسے بہت دے دیا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا‘ تیری ماں تجھے روئے‘ خدا کی قسم! اس عورت کے والد اور اس کے بھائی جیسے اب بھی میری نظروں کے سامنے ہیں کہ ایک مدت تک ایک قلعہ کے محاصرے میں وہ شریک رہے‘ آخر اسے فتح کرلیا۔ پھر ہم صبح کو ان دونوں کا حصہ مال غنیمت سے وصول کررہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aslam (RA) : Once I went with 'Umar bin Al-Khattab (RA) to the market. A young woman followed 'Umar and said, "O chief of the believers! My husband has died, leaving little children. By Allah, they have not even a sheep's trotter to cook; they have no farms or animals. I am afraid that they may die because of hunger, and I am the daughter of Khufaf bin Ima Al-Ghafari, and my father witnessed the Pledge of allegiance) of Al-Hudaibiya with the Prophet.' Umar stopped and did not proceed, and said, "I welcome my near relative." Then he went towards a strong camel which was tied in the house, and carried on to it, two sacks he had loaded with food grains and put between them money and clothes and gave her its rope to hold and said, "Lead it, and this provision will not finish till Allah gives you a good supply." A man said, "O chief of the believers! You have given her too much." "Umar said disapprovingly. "May your mother be bereaved of you! By Allah, I have seen her father and brother besieging a fort for a long time and conquering it, and then we were discussing what their shares they would have from that war booty."