باب: مسجد میں داخل ہونے اور دوسرے کاموں میں بھی دائیں طرف سے ابتداء کرنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: While entering the mosques etc. one should start with the right foot)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عبداللہ بن عمر ؓمسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے دایاں پاؤں رکھتے اور نکلنے کے لیے بایاں پاؤں پہلے نکالتے۔
426.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے تمام اچھے کاموں، مثلا: طہارت حاصل کرنے، کنگھی کرنے اور جوتا پہننے میں دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔
تشریح:
1۔ حتی المقدور دائیں جانب سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بامر مجبوری بائیں جانب اختیار کرنے میں چنداں حرج نہیں، نیز ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر ذی شان کا م کا دائیں جانب سے آغاز کرنا اچھا لگتا تھا۔ (فتح الباري:678/1) دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم وتعظیم یا تزئین وتحسین سے ہے، وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح پہلے ہوچکی ہے۔ اس لیے یہاں ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:168) 2۔ احناف کے نزدیک دائیں جانب سے آغاز کرنابطور عادت کے تھا بطور عبادت کے نہیں تھا، اگربطور عبادت کے ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی ہمیشگی سے یہ افعال مسنون ہوجاتے، کیونکہ ان کے نزدیک تعبد اور تعود میں فرق ہے، لہذا ان افعال کو ان کے ہاں مستحب کہا گیا ہے۔ ہمارے ہاں رسول اللہ ﷺ کےافعال کی یہ تفریق اسوہ حسنہ کے منافی ہے۔ آپ کے جملہ افعال ہمارے لیے مسنون ہیں۔ اگرچہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ ہی کیوں نہ ادا ہو۔ سنت کے ثبوت کے لیے عبادت اور مواظبت (ہمیشگی) کی شرط صحیح نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
423
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
426
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
426
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
426
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل باسند کسی کتاب میں ہماری نظر سے نہیں گزرا۔البتہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث مستدرک حاکم (218/1) میں ہے کہ مسجد میں دائیں پاؤں سے داخل ہونا اور بائیں پاؤں سے نکلنا مسنون ہے۔اورصحابی کا کسی عمل کو مسنون کہنا مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے۔( فتح الباری 678/1۔)
عبداللہ بن عمر ؓمسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے دایاں پاؤں رکھتے اور نکلنے کے لیے بایاں پاؤں پہلے نکالتے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے تمام اچھے کاموں، مثلا: طہارت حاصل کرنے، کنگھی کرنے اور جوتا پہننے میں دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حتی المقدور دائیں جانب سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بامر مجبوری بائیں جانب اختیار کرنے میں چنداں حرج نہیں، نیز ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر ذی شان کا م کا دائیں جانب سے آغاز کرنا اچھا لگتا تھا۔ (فتح الباري:678/1) دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم وتعظیم یا تزئین وتحسین سے ہے، وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح پہلے ہوچکی ہے۔ اس لیے یہاں ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:168) 2۔ احناف کے نزدیک دائیں جانب سے آغاز کرنابطور عادت کے تھا بطور عبادت کے نہیں تھا، اگربطور عبادت کے ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی ہمیشگی سے یہ افعال مسنون ہوجاتے، کیونکہ ان کے نزدیک تعبد اور تعود میں فرق ہے، لہذا ان افعال کو ان کے ہاں مستحب کہا گیا ہے۔ ہمارے ہاں رسول اللہ ﷺ کےافعال کی یہ تفریق اسوہ حسنہ کے منافی ہے۔ آپ کے جملہ افعال ہمارے لیے مسنون ہیں۔ اگرچہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ ہی کیوں نہ ادا ہو۔ سنت کے ثبوت کے لیے عبادت اور مواظبت (ہمیشگی) کی شرط صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ مسجد میں داخل ہونے کے لیے دائیں پاؤں اور نکلتے وقت بائیں پاؤں سے ابتدا کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی اشعث بن سلیم کے واسطہ سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے تمام کاموں میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ طہارت کے وقت بھی، کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں بھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) used to start everything from the right (for good things) whenever it was possible in all his affairs; for example: in washing, combing or wearing shoes.