باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of At-Taif)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4331.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ ﷺ کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟‘‘ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو خیز لڑکوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالٰی رسول ﷺ کی مغفرت کرے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ، میں ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جو ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، اس طرح ان کی دل جوئی کرنا میرا مقصد ہے۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو مال و دولت لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے نبی ﷺ کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟ اللہ کی قسم! جو چیز تم اپنے ساتھ لے جاؤ گے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو وہ لے جا رہے ہیں۔‘‘ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اس پر خوش ہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی، اس وقت صبر سے کام لینا حتی کہ قیامت کے دن اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ملاقات کرو۔ یقینا میں حوض کوثر پر ہوں گا۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: لیکن انصار نے صبر سے کام نہ لیا۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہوازن کے مال میں سے ابوسفیان بن حرب کو سواونٹ دیے، اسی طرح صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، مالک بن عوف، اقرع بن حابس، علقمہ بن علاثہ اور عباس بن مرداس کو سو، سواونٹ دیے، اس پر انصار کے کچھ لوگ غمزدہ ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق قریش نوازی کی باتیں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ کوپہنچائیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے متعلق تیرے جذبات کیاہیں؟‘‘ عرض کی:میں بھی تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا: ’’تمام انصار کو اس چمڑے کے خیمے میں جمع کرو۔‘‘ آپ نے انھیں وعظ فرمایا اور کہا: ’’تم میرے لیے اس کپڑے کی طرح ہوجو ہروقت جسم سے لگارہتا ہے۔‘‘ واقعی یہ شرف قیامت تک کے لیے انصار کو حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کےشہر میں آرام فرما رہے ہیں۔ (فتح الباري:69/8) 2۔ حدیث کے آخر میں حضرت انس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی تلقین کے باوجود انصار نے صبر نہیں کیا۔ شاید ان کا اشارہ کچھ انصار کے اس موقف کی طرف ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت کہا گیا تھا کہ ایک امیر تمہارا اور ایک امیر ہماراہوگا۔ مگر جمہور نے انصار نے اس موقف کو مسترد کردیا اور اس کی موافقت کےبجائے قریش کو تسلیم کرلیا۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4150
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4331
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4331
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4331
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
طائف ملے سے ننانوے (99) کلو میٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت شہر ہے۔ قرآن قرآن کریم نے اس کازکر ان الفاظ میں کیا ہے:"یہ قرآن دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا۔"( الزخرف 43۔31۔)دوشہروں سے مراد مکہ مکرمہ اور طائف ہیں۔ اس کی سطح مرتفع اور جگہ بڑی زرخیر ہے۔ اس کا پانی ٹھنڈا زدو ہضم اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔ موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار رہتا ہے۔ موسم گرما میں سعودیہ کے اکثر سرکاری محکمے وہاں منتقل ہو جاتے ہیں اور بیشتر رؤسائے مکہ بھی طائف چلے جاتے ہیں قبیلہ ہوازن کے بچے کھچے لوگ طائف میں پناہ گزیں ہوئے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سرکوبی کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ ﷺ کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟‘‘ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو خیز لڑکوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالٰی رسول ﷺ کی مغفرت کرے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ، میں ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جو ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، اس طرح ان کی دل جوئی کرنا میرا مقصد ہے۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو مال و دولت لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے نبی ﷺ کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟ اللہ کی قسم! جو چیز تم اپنے ساتھ لے جاؤ گے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو وہ لے جا رہے ہیں۔‘‘ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اس پر خوش ہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی، اس وقت صبر سے کام لینا حتی کہ قیامت کے دن اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ملاقات کرو۔ یقینا میں حوض کوثر پر ہوں گا۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: لیکن انصار نے صبر سے کام نہ لیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہوازن کے مال میں سے ابوسفیان بن حرب کو سواونٹ دیے، اسی طرح صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، مالک بن عوف، اقرع بن حابس، علقمہ بن علاثہ اور عباس بن مرداس کو سو، سواونٹ دیے، اس پر انصار کے کچھ لوگ غمزدہ ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق قریش نوازی کی باتیں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ کوپہنچائیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے متعلق تیرے جذبات کیاہیں؟‘‘ عرض کی:میں بھی تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا: ’’تمام انصار کو اس چمڑے کے خیمے میں جمع کرو۔‘‘ آپ نے انھیں وعظ فرمایا اور کہا: ’’تم میرے لیے اس کپڑے کی طرح ہوجو ہروقت جسم سے لگارہتا ہے۔‘‘ واقعی یہ شرف قیامت تک کے لیے انصار کو حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کےشہر میں آرام فرما رہے ہیں۔ (فتح الباري:69/8) 2۔ حدیث کے آخر میں حضرت انس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی تلقین کے باوجود انصار نے صبر نہیں کیا۔ شاید ان کا اشارہ کچھ انصار کے اس موقف کی طرف ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت کہا گیا تھا کہ ایک امیر تمہارا اور ایک امیر ہماراہوگا۔ مگر جمہور نے انصار نے اس موقف کو مسترد کردیا اور اس کی موافقت کےبجائے قریش کو تسلیم کرلیا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبد اللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک ؓ نے خبر دی، بیان کیا کہ جب قبیلہ ہوازن کے مال میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دینا تھا وہ دیا تو انصار کے کچھ لوگو ں کو رنج ہوا کیونکہ آن حضور ﷺ نے کچھ لوگوں کو سو سو اونٹ دے دئے تھے کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ اپنے رسول ﷺ کی مغفرت کرے، قریش کو تو آپ عنایت فرما رہے ہیں اور ہم کوآپ نے چھوڑ دیا ہے حالا نکہ ہ ری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ انصار کی یہ بات حضور اکرم ﷺ کے کانوں میں آئی تو آپ نے انہیں بلا بھیجا اور چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا، ان کے ساتھ ان کے علاوہ کسی کو بھی آپ نے نہیں بلایا تھا، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اورآپ نے فرمایا تمہا ری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! جو لوگ ہمارے معزز اور سردا رہیں، انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ البتہ ہمارے کچھ لوگ جو ابھی نوعمر ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اللہ رسول اللہ ﷺ کی مغفرت کرے، قریش کو آپ دے رہے ہیں اور ہمیں آپ نے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا میں ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جوابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوے ہیں، اس طرح میں ان کی دل جوئی کر تا ہوں۔ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ تو مال ودولت لے جا ئیں اور تم نبی ﷺ کواپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ۔ خدا کی قسم کہ جو چیز تم اپنے ساتھ لے جاؤگے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے جارہے ہیں۔ انصار نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم اس پر راضی ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرے بعد تم دیکھوگے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آملو۔ میں حوض کوثر پر ملوں گا۔ انس ؓ نے کہا لیکن انصار نے صبر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت انس ؓ کا اشارہ غالباً سردار انصار حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی طرف ہے، جنہوں نے وفات نبوی کے بعد منا أمیر ومنکم أمیر کی آواز اٹھائی تھی مگر جمہور انصار نے اس سے موافقت نہیں کی اور خلفائے قریش کو تسلیم کر لیا۔ رضي اللہ عنهم ورضو اعنه۔ سند میں حضرت ہشام بن عروہ کا نام آیا ہے۔ یہ مدینہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں جن کا شمار اکابر علماء میں ہوتا ہے۔ سنہ61ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال ہوا۔ امام زہری بھی مدینہ کے مشہور جلیل القدر تابعی ہیں۔ زہری بن کلاب کی طرف منسوب ہیں کنیت ابو بکر نام محمد بن عبد اللہ بن شہاب ہے، وقت کے بہت بڑے عالم باللہ تھے۔ ماہ رمضان سنہ124ھ میں وفات پائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : When it was the day of (the battle of) Hunain, the Prophet (ﷺ) confronted the tribe of Hawazin while there were ten-thousand (men) besides the Tulaqa' (i.e. those who had embraced Islam on the day of the Conquest of Makkah) with the Prophet. When they (i.e. Muslims) fled, the Prophet (ﷺ) said, "O the group of Ansari" They replied, "Labbaik, O Allah's Apostle (ﷺ) and Sadaik! We are under your command." Then the Prophet (ﷺ) got down (from his mule) and said, "I am Allah's Slave and His Apostle." Then the pagans were defeated. The Prophet (ﷺ) distributed the war booty amongst the Tulaqa and Muhajirin (i.e. Emigrants) and did not give anything to the Ansar. So the Ansar spoke (i.e. were dissatisfied) and he called them and made them enter a leather tent and said, Won't you be pleased that the people take the sheep and camels, and you take Allah's Apostle (ﷺ) along with you?" The Prophet (ﷺ) added, "If the people took their way through a valley and the Ansar took their way through a mountain pass, then I would choose a mountain pass of the Ansar"