باب: حجۃ الوداع سے پہلے آنحضرت ﷺ کا ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجنا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Sending Abu Musa and Mu'adh to Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4342.
حضرت ابو بردہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو موسٰی اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ہر ایک یمن کی الگ الگ ولایت میں تعینات فرمایا۔ اس وقت یمن دو ولایات پر مشتمل تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’لوگوں پر آسانی کرنا، سختی سے کام نہ لینا، انہیں خوش رکھنا، نفرت نہ دلانا۔‘‘ بہرحال ان میں سے ہر ایک اپنے کام پر روانہ ہوا۔ ان میں سے جو کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے اپنے ساتھی کے قریب آ جاتا تو اس سے ضرور ملاقات کرتا اور اسے سلام کر کے مزاج پرسی کرتا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کے قریب پہنچ گئے تو وہ اپنے خچر پر سور ہو کر حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہاں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے پوچھا: عبداللہ بن قیس! یہ کون ہے؟ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے جواب دیا کہ یہ شخص مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو گیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے کہا: جب تک اسے قتل نہیں کیا جاتا میں اپنے خچر سے نہیں اتروں گا۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے فرمایا: آپ نیچے اتریں، اسے اسی لیے (قتل کرنے کے لیے) یہاں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: میں تو اس کے مارے جانے سے پہلے ہرگز نہیں اتروں گا، چنانچہ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کے حکم سے وہ قتل کر دیا گیا۔ تب حضرت معاذ ؓ اپنی سواری سے نیچے اترے اور پوچھا کہ اے عبداللہ! تم قرآن کیسے پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو تھوڑا تھوڑا ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے پوچھا: اے معاذ! تم کیسے تلاوت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: میں اول شب میں سو جاتا ہوں، پھر اٹھ بیٹھتا ہوں، اس کے بعد اللہ کو منظور ہوتا ہے پڑھ لیتا ہوں۔ میں تو سوتا بھی ثواب کی نیت سے ہوں جیسے اٹھتا بھی ثواب کی نیت سے ہوں۔
تشریح:
1۔(مِخلَاف)، خلیفہ کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد یمن کے دوحصے ہیں۔ ایک عدن کی جانب پہاڑی کے اوپر والا حصہ اسے مخلافِ اعلیٰ کہا جاتا تھا۔ اس کے حاکم معاذ بن جبل ؓ تھے۔ دوسراحصہ پہاڑ کے نشیب میں اسے مخلافِ اسفل کہا جاتا۔ اس علاقے کاانتظام حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ذمے تھا۔ 2۔ یمن میں یہودیوں نے یہ طریقہ اختیار کیاتھاکہ اسلام میں داخل ہوکر پھر مرتد ہوجاتے تھے جس سے ان کا مقصد اسلام سے لوگوں کو متنفر کرناتھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ مرتد ہونے والا یہودی تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4344۔4345) اگرچہ دین میں داخل ہونے کے لیے کوئی جبر نہیں، تاہم داخل ہونے کے بعد جو اس کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزادی جاتی ہے، چنانچہ اسلام میں مرتد ہونے کی سزا قتل ہے۔ 3۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ کا یہ کمال ایمان تھا کہ مرتد کو دیکھتے ہی انھیں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد آگئی کہ جو اسلام سے مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔ جب تک شریعت کی حد جاری نہ ہوئی اس وقت تک انھوں نےاپنی سواری سے اترنا گوارا نہ کیا۔ 4۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادات میں طاقت اور ہمت حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جائےگا وہ باعث ثواب ہے، ایسے حالات میں سونے، کھانے اور آرام کرنے میں بھی ثواب کی امید کی جاسکتی ہے۔ (فتح الباري:77/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4160.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4342
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4342
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4342
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت ابو بردہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو موسٰی اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ہر ایک یمن کی الگ الگ ولایت میں تعینات فرمایا۔ اس وقت یمن دو ولایات پر مشتمل تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’لوگوں پر آسانی کرنا، سختی سے کام نہ لینا، انہیں خوش رکھنا، نفرت نہ دلانا۔‘‘ بہرحال ان میں سے ہر ایک اپنے کام پر روانہ ہوا۔ ان میں سے جو کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے اپنے ساتھی کے قریب آ جاتا تو اس سے ضرور ملاقات کرتا اور اسے سلام کر کے مزاج پرسی کرتا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کے قریب پہنچ گئے تو وہ اپنے خچر پر سور ہو کر حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہاں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے پوچھا: عبداللہ بن قیس! یہ کون ہے؟ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے جواب دیا کہ یہ شخص مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو گیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے کہا: جب تک اسے قتل نہیں کیا جاتا میں اپنے خچر سے نہیں اتروں گا۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے فرمایا: آپ نیچے اتریں، اسے اسی لیے (قتل کرنے کے لیے) یہاں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: میں تو اس کے مارے جانے سے پہلے ہرگز نہیں اتروں گا، چنانچہ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کے حکم سے وہ قتل کر دیا گیا۔ تب حضرت معاذ ؓ اپنی سواری سے نیچے اترے اور پوچھا کہ اے عبداللہ! تم قرآن کیسے پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو تھوڑا تھوڑا ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے پوچھا: اے معاذ! تم کیسے تلاوت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: میں اول شب میں سو جاتا ہوں، پھر اٹھ بیٹھتا ہوں، اس کے بعد اللہ کو منظور ہوتا ہے پڑھ لیتا ہوں۔ میں تو سوتا بھی ثواب کی نیت سے ہوں جیسے اٹھتا بھی ثواب کی نیت سے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
1۔(مِخلَاف)، خلیفہ کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد یمن کے دوحصے ہیں۔ ایک عدن کی جانب پہاڑی کے اوپر والا حصہ اسے مخلافِ اعلیٰ کہا جاتا تھا۔ اس کے حاکم معاذ بن جبل ؓ تھے۔ دوسراحصہ پہاڑ کے نشیب میں اسے مخلافِ اسفل کہا جاتا۔ اس علاقے کاانتظام حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ذمے تھا۔ 2۔ یمن میں یہودیوں نے یہ طریقہ اختیار کیاتھاکہ اسلام میں داخل ہوکر پھر مرتد ہوجاتے تھے جس سے ان کا مقصد اسلام سے لوگوں کو متنفر کرناتھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ مرتد ہونے والا یہودی تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4344۔4345) اگرچہ دین میں داخل ہونے کے لیے کوئی جبر نہیں، تاہم داخل ہونے کے بعد جو اس کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزادی جاتی ہے، چنانچہ اسلام میں مرتد ہونے کی سزا قتل ہے۔ 3۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ کا یہ کمال ایمان تھا کہ مرتد کو دیکھتے ہی انھیں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد آگئی کہ جو اسلام سے مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔ جب تک شریعت کی حد جاری نہ ہوئی اس وقت تک انھوں نےاپنی سواری سے اترنا گوارا نہ کیا۔ 4۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادات میں طاقت اور ہمت حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جائےگا وہ باعث ثواب ہے، ایسے حالات میں سونے، کھانے اور آرام کرنے میں بھی ثواب کی امید کی جاسکتی ہے۔ (فتح الباري:77/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے ابو بردہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا۔ راوی نے بیان کیا کہ دونوں صحابیوں کو اس کے ایک ایک صوبے میں بھیجا۔ راوی نے بیان کیا کہ یمن کے دوصوبے تھے پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایادیکھولوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، دشواریاں نہ پیدا کرنا، انہیں خوش کرنے کی کوشش کرنا، دین سے نفرت نہ دلانا۔ یہ دونوں بزرگ اپنے اپنے کا موں پر روانہ ہوگئے۔ دونوں میں سے جب کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے اپنے دوسرے ساتھی کے پاس پہنچ جاتا تو ان سے تازی (ملاقات) کے لیے آتا اور سلام کرتا۔ ایک مرتبہ حضرت معاذ ؓ اپنے علاقہ میں اپنے صاحب ابو موسیٰ ؓ کے قریب پہنچ گئے اور اپنے خچر پر ان سے ملاقات کے لیے چلے۔ جب ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کچھ لوگ جمع ہیں اور ایک شخص ان کے سامنے ہے جس کی مشکیں کسی ہوئی ہیں۔ معاذ ؓ نے ان سے پوچھا اے عبد اللہ بن قیس ! یہ کیا واقعہ ہے؟ ابو موسیٰ ؓ نے بتلا یا کہ یہ شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر جب تک اسے قتل نہ کردیا جائے میں اپنی سواری سے نہیں اتروں گا۔ موسٰی ؓ نے کہا کہ قتل کرنے ہی کے لیے اسے یہاں لایا گیا ہے۔ آ پ اتر جائیں لیکن انہوں نے اب بھی یہی کہاکہ جب تک اسے قتل نہ کیا جائے گا میں نہ اتروں گا۔ آخر حضرت موسیٰ ؓ نے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا۔ تب وہ اپنی سواری سے اترے اور پوچھا، عبد اللہ ! آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں تو تھوڑا تھوڑا ہر وقت پڑھتا رہتاہوں پھر انہوں نے معاذ ؓ سے پوچھا کہ معاذ ! آپ قرآ ن مجید کس طرح پڑھتے ہیں؟ معاذ ؓ نے کہا کہ میں تورات کے شروع میں سوتا ہوں پھر اپنی نیند کا ایک حصہ پورا کرکے میں اٹھ بیٹھتا ہوں اورجو کچھ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے مقدر کر رکھا ہے اس میں قرآن مجید پڑھتا ہوں۔ اس طرح بیداری میں جس ثواب کی امید اللہ تعا لیٰ سے رکھتا ہوں سونے کی حالت کے ثواب کا بھی اس سے اسی طرح امید وار رہتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت معاذ ؓ کا یہ کما ل جوش ایمان تھا کہ مرتد کو دیکھ کر فوراً ان کو وہ حدیث یاد آگئی جس میں آ نحضرت نے فرمایا کہ جو کوئی اسلام سے پھر جائے اسے قتل کر دو۔ حضرت معاذ ؓ نے جب تک شریعت کی حد جاری نہیں ہوئی، اس وقت تک ابوموسی ؓ کے پاس اتر نا اور ٹھہرنا بھی منا سب نہ سمجھا۔ یمن کے بلند حصے پر معاذ ؓ کو حاکم بنا یا گیاتھا اور نشیبی علاقہ ابو موسی ؓ کو دیا گیا تھا۔ رسول کریم ﷺ نے ملک یمن کی بہت تعریف فرمائی۔ جس کی بر کت ہے کہ وہاں بڑے بڑے عالم فاضل محدث پیدا ہوئے۔ حضرت علامہ شوکا نی یمنی مشہور اہلحدیث عالم یمنی ہیں جن کی حدیث کی شرح کی کتاب نیل الاوطار مشہور ہے۔ یا اللہ ! میں ان بزرگوں سے خاص عقیدت ومحبت رکھتا ہوں، ان کے ساتھ مجھ کو جمع فرمائیو، آمین۔ یارب العالمین۔ (راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Burda (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) sent Abu Musa (RA) and Muadh bin Jabal to Yemen. He sent each of them to administer a province as Yemen consisted of two provinces. The Prophet (ﷺ) said (to them), "Facilitate things for the people and do not make things difficult for them (Be kind and lenient (both of you) with the people, and do not be hard on them) and give the people good tidings and do not repulse them. So each of them went to carry on his job. So when any one of them toured his province and happened to come near (the border of the province of) his companion, he would visit him and greet him. Once Mu'adh toured that part of his state which was near (the border of the province of) his companion Abu Musa (RA). Mu'adh came riding his mule till he reached Abu Musa (RA) and saw him sitting, and the people had gathered around him. Behold! There was a man tied with his hands behind his neck. Mu'adh said to Abu Musa (RA), "O ' Abdullah bin Qais (RA) ! What is this?" Abu Musa (RA) replied. "This man has reverted to Heathenism after embracing Islam." Mu'adh said, "I will not dismount till he is killed." Abu Musa (RA) replied, "He has been brought for this purpose, so come down." Mu'adh said, "I will not dismount till he is killed." So Abu Musa (RA) ordered that he be killed, and he was killed. Then Mu'adh dismounted and said, "O Abdullah (bin Qais)! How do you recite the Qur'an ?" Abu Musa (RA) said, "I recite the Qur'an regularly at intervals and piecemeal. How do you recite it O Mu'adh?" Mu'adh said, "I sleep in the first part of the night and then get up after having slept for the time devoted for my sleep and then recite as much as Allah has written for me. So I seek Allah's Reward for both my sleep as well as my prayer (at night)."