باب: حجۃ الوداع سے پہلے آنحضرت ﷺ کا ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجنا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Sending Abu Musa and Mu'adh to Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4347.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: ’’تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، وہاں جا کر انہیں پہلے کلمہ شہادت کی دعوت دینا کہ اللہ تعالٰی کے سوا وئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ تعالٰی کے رسول برحق ہیں۔ اگر وہ اس کا اقرار کرنے میں تمہاری اطاعت کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر روزانہ پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب یہ بھی مان لیں تو انہیں خبردار کرنا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کر کے ان کے غرباء پر تقسیم کر دی جائے گی۔ پھر اگر وہ اسے تسلیم کر لیں تو زکاۃ وصول کرتے وقت ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ و بکا سے بھی ڈرتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا ہے کہ طوعت کے وہی معنی ہیں جو طاعت اور أطاعت کے ہیں، طِعت، طُعت اور أطعت کے بھی ایک ہی معنی ہیں۔
تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع سے پہلے 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا اور انھیں تلقین فرمائی کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تدریج کے اصول کوپیش نظر رکھیں تاکہ لوگ متنفر نہ ہوں۔ وہاں کے باشندوں کو اسلام کے احکام سے خبردار کریں۔ اسلامی ضابطے کے مطابق فیصلے کریں۔ خاص طور پر ان سے زکاۃ وصول کرتے وقت ان کا عمدہ مال لینے سے پرہیز کریں کیونکہ ایسا کرناظلم ہے اور مظلوم کی فریاد اللہ تعالیٰ ضرورسنتاہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے حسب عادت حدیث کے آخرمیں ایک قرآنی لفظ کی لغوی تشریح کی ہے جو حدیث کے ایک لفظ کے موافق تھا۔ یعنی﴿فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ﴾(المائدة:30:5) کے معنی بتائے ہیں کہ اس کا نفس اس کے تابع ہوگیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4164
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4347
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4347
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4347
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: ’’تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، وہاں جا کر انہیں پہلے کلمہ شہادت کی دعوت دینا کہ اللہ تعالٰی کے سوا وئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ تعالٰی کے رسول برحق ہیں۔ اگر وہ اس کا اقرار کرنے میں تمہاری اطاعت کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر روزانہ پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب یہ بھی مان لیں تو انہیں خبردار کرنا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کر کے ان کے غرباء پر تقسیم کر دی جائے گی۔ پھر اگر وہ اسے تسلیم کر لیں تو زکاۃ وصول کرتے وقت ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ و بکا سے بھی ڈرتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا ہے کہ طوعت کے وہی معنی ہیں جو طاعت اور أطاعت کے ہیں، طِعت، طُعت اور أطعت کے بھی ایک ہی معنی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع سے پہلے 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا اور انھیں تلقین فرمائی کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تدریج کے اصول کوپیش نظر رکھیں تاکہ لوگ متنفر نہ ہوں۔ وہاں کے باشندوں کو اسلام کے احکام سے خبردار کریں۔ اسلامی ضابطے کے مطابق فیصلے کریں۔ خاص طور پر ان سے زکاۃ وصول کرتے وقت ان کا عمدہ مال لینے سے پرہیز کریں کیونکہ ایسا کرناظلم ہے اور مظلوم کی فریاد اللہ تعالیٰ ضرورسنتاہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے حسب عادت حدیث کے آخرمیں ایک قرآنی لفظ کی لغوی تشریح کی ہے جو حدیث کے ایک لفظ کے موافق تھا۔ یعنی﴿فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ﴾(المائدة:30:5) کے معنی بتائے ہیں کہ اس کا نفس اس کے تابع ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں زکریابن اسحاق نے، انہیں یحییٰ بن عبد اللہ بن صیفی نے، انہیں ابن عباس ؓ کے غلام ابو معبد نافذنے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذبن جبل ؓ کو یمن کا (حاکم بناکر بھیجتے وقت انہیں) ہدایت فرمائی تھی کہ تم ایک ایسی قوم کی طرف جارہے ہوجو اہل کتاب یہودی اورنصرانی وغیرہ میں سے ہیں، اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں اس کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر اس میں وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ ان پر پانچ وقت کی نماز یں فرض کی ہیں، جب یہ بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو بھی فرض کیا ہے، جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور انہیں کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی۔ جب یہ بھی مان جائیں تو (پھر زکوٰۃ وصول کرتے وقت) ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ سے ہر وقت ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری نے کہا کہ سورۃ مائدہ میں جو طوعت کا لفظ آیا ہے اس کا وہی معنی ہے جو طَاعَت اور اطَاعَت کا ہے جیسے کہتے ہیں طِعتُ وطُعتُ و أطَعتُ سب کا معنی ایک ہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں أطاعوا کا لفظ آیا تھا۔ حضرت امام بخاری نے اپنے عادت کے مطابق قرآن کے لفظ طَوَّعَت کی تفسیر کردی کیونکہ دونوں کا مادہ ایک ہی ہے اورغرض یہ ہے کہ اس میں تین لغت آئے ہیں طوع طاع أطاع معنی ایک ہی ہیں یعنی راضی ہوا، مان لیا۔ مظلوم کی بد دعا سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو نہ ستاؤ کہ وہ مظلوم بن کر بد دعاکر بیٹھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said to Muadh bin Jabal when he sent him to Yemen. "You will come to the people of Scripture, and when you reach them, invite them to testify that none has the right to be worshipped except Allah and that Muhammad is His Apostle. And if they obey you in that, then tell them that Allah has enjoined on them five prayers to be performed every day and night. And if they obey you in that, then tell them that Allah has enjoined on them Sadaqa (i.e. Rakat) to be taken from the rich amongst them and given to the poor amongst them. And if they obey you in that, then be cautious! Don't take their best properties (as Zakat) and be afraid of the curse of an oppressed person as there is no screen between his invocation and Allah.