باب: حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی ؓ کا یمن کی طرف جانا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The departure of Jarir to Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4359.
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں یمن میں تھا کہ وہاں دو اشخاص ذو کلاع اور ذو عمرو سے ملا۔ میں انہیں رسول اللہ ﷺ کے حالات سنانے لگا تو ذو عمرو نے مجھ سے کہا: تم نے اپنے صاحب کے حالات جو کچھ مجھ سے بیان کیے ہیں، اگر وہ درست ہیں تو ان کو فوت ہوئے آج تین دن گزر گئے ہیں۔ پھر وہ دونوں میرے ساتھ آئے۔ ابھی تھوڑا سا سفر ہی کیا تھا کہ ہمیں کچھ آدمی مدینہ طیبہ کی طرف سے آتے ہوئے دکھائی دیے۔ ہم نے ان سے حالات دریافت کیے تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی ہے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا ہے، باقی سب خیریت اور لوگوں میں امن و امان قائم ہے۔ یہ سن کر ذو کلاع اور ذو عمرو نے کہا: اپنے صاحب سے کہنا کہ ہم یہاں تک آئے تھے اور اگر اللہ نے چاہا تو پھر آئیں گے۔ اس کے بعد وہ دونوں یمن کی طرف واپس چلے گئے۔ میں نے حضرت ابوبکر ؓ کو ان کی خبر سنائی تو انہوں نے فرمایا: تم انہیں ساتھ کیوں نہیں لائے؟ پھر اس کے بعد مجھ سے ذو عمرو نے کہا: اے جریر! مجھ پر تجھے بزرگی حاصل ہے۔ میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں کہ تم عرب لوگ ہمیشہ خیروبرکت سے رہو گے جب تک تم میں سے ایک امیر ہلاک ہو جائے تو دوسرا امیر بنانے میں مشورہ کرتے رہو گے۔ پھر جب یہ خلافت بزور تلوار ہو گی تو وہ بادشاہ ہوں گے اور بادشاہوں کی طرح ایک دوسرے پر غصہ کریں گے اور بادشاہوں کی طرح ایک دوسرے پر ناراض ہوں گے۔
تشریح:
1۔ حضرت جریر ؓ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، چنانچہ ان کا اپنا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مجھے فرمایا تھا: ’’لوگوں کو خاموش کراؤتاکہ میں کچھ ان سے کہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:121) شاید اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے انھیں یمن بھیجا ہے، پہلے ذوالخلصہ کا بت پاش پاش کرنے کے لیے، پھر لوگوں کو دعوت اسلام دینے کے لیے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جریر ؓ کویمن روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں سے جنگ کریں اور انھیں اسلام کی دعوت دیں۔ (المعجم الکبیر للطبراني:334/2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالخلصہ کوتباہ وبرباد کرنے اور لوگوں کو دعوت توحید دینے کے الگ الگ واقعات ہیں، بہرحال جب یہ اپنے مشن سے فارغ ہوگئے تو مدینہ طیبہ واپس آنے کا پروگرام بنایا۔ اس دوران میں ان کے ہمراہ ذوکلاع اور ذوعمروبھی تھے۔ ذوعمرو نے حضرت جریر ؓ سے جوباتیں کی ہیں وہ یقیناً انھیں پہلی کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوئی تھیں کیونکہ یہ اہل کتاب کا عالم تھا اور کتب سابقہ کے متعلق پوری پوری معلومات رکھتاتھا۔ ذوعمرونے جو آخری بات کی تھی وہ بھی درست ثابت ہوئی۔ 2۔ خلفائے راشدین ؓ کے زمانے تک خلافت مسلمانوں میں آپس کے مشورے سے ہوتی رہی، اس کے بعد طاقت کے بل بوتے پر حکومت کا آغاز ہوا، پھر مسلمانوں کا شیرازہ بکھرگیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد تیس سال تک خلافت رہے گی، اس کے بعد بادشاہت کا دورشروع ہوگا۔‘‘ (مسند أحمد:221/5) بہرحال یہ دونوں حضرات مسلمان تھے اور رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے شوق سے مدینہ طیبہ آرہے تھے لیکن راستے میں جب انھیں آپ ﷺ کی وفات کا علم ہواتو کہنے لگے کہ ہم اپنی ضروریات کے لیے واپس یمن جارہے ہیں، امید ہے کہ جلدہی خلیفہ کی زیارت کے لیے حاضرہوں گے، یعنی ان کا واپس جانا مرتد ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔ (فتح الباري:96/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4175
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4359
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4359
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4359
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں یمن میں تھا کہ وہاں دو اشخاص ذو کلاع اور ذو عمرو سے ملا۔ میں انہیں رسول اللہ ﷺ کے حالات سنانے لگا تو ذو عمرو نے مجھ سے کہا: تم نے اپنے صاحب کے حالات جو کچھ مجھ سے بیان کیے ہیں، اگر وہ درست ہیں تو ان کو فوت ہوئے آج تین دن گزر گئے ہیں۔ پھر وہ دونوں میرے ساتھ آئے۔ ابھی تھوڑا سا سفر ہی کیا تھا کہ ہمیں کچھ آدمی مدینہ طیبہ کی طرف سے آتے ہوئے دکھائی دیے۔ ہم نے ان سے حالات دریافت کیے تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی ہے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا ہے، باقی سب خیریت اور لوگوں میں امن و امان قائم ہے۔ یہ سن کر ذو کلاع اور ذو عمرو نے کہا: اپنے صاحب سے کہنا کہ ہم یہاں تک آئے تھے اور اگر اللہ نے چاہا تو پھر آئیں گے۔ اس کے بعد وہ دونوں یمن کی طرف واپس چلے گئے۔ میں نے حضرت ابوبکر ؓ کو ان کی خبر سنائی تو انہوں نے فرمایا: تم انہیں ساتھ کیوں نہیں لائے؟ پھر اس کے بعد مجھ سے ذو عمرو نے کہا: اے جریر! مجھ پر تجھے بزرگی حاصل ہے۔ میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں کہ تم عرب لوگ ہمیشہ خیروبرکت سے رہو گے جب تک تم میں سے ایک امیر ہلاک ہو جائے تو دوسرا امیر بنانے میں مشورہ کرتے رہو گے۔ پھر جب یہ خلافت بزور تلوار ہو گی تو وہ بادشاہ ہوں گے اور بادشاہوں کی طرح ایک دوسرے پر غصہ کریں گے اور بادشاہوں کی طرح ایک دوسرے پر ناراض ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت جریر ؓ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، چنانچہ ان کا اپنا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مجھے فرمایا تھا: ’’لوگوں کو خاموش کراؤتاکہ میں کچھ ان سے کہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:121) شاید اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے انھیں یمن بھیجا ہے، پہلے ذوالخلصہ کا بت پاش پاش کرنے کے لیے، پھر لوگوں کو دعوت اسلام دینے کے لیے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جریر ؓ کویمن روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں سے جنگ کریں اور انھیں اسلام کی دعوت دیں۔ (المعجم الکبیر للطبراني:334/2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالخلصہ کوتباہ وبرباد کرنے اور لوگوں کو دعوت توحید دینے کے الگ الگ واقعات ہیں، بہرحال جب یہ اپنے مشن سے فارغ ہوگئے تو مدینہ طیبہ واپس آنے کا پروگرام بنایا۔ اس دوران میں ان کے ہمراہ ذوکلاع اور ذوعمروبھی تھے۔ ذوعمرو نے حضرت جریر ؓ سے جوباتیں کی ہیں وہ یقیناً انھیں پہلی کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوئی تھیں کیونکہ یہ اہل کتاب کا عالم تھا اور کتب سابقہ کے متعلق پوری پوری معلومات رکھتاتھا۔ ذوعمرونے جو آخری بات کی تھی وہ بھی درست ثابت ہوئی۔ 2۔ خلفائے راشدین ؓ کے زمانے تک خلافت مسلمانوں میں آپس کے مشورے سے ہوتی رہی، اس کے بعد طاقت کے بل بوتے پر حکومت کا آغاز ہوا، پھر مسلمانوں کا شیرازہ بکھرگیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد تیس سال تک خلافت رہے گی، اس کے بعد بادشاہت کا دورشروع ہوگا۔‘‘ (مسند أحمد:221/5) بہرحال یہ دونوں حضرات مسلمان تھے اور رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے شوق سے مدینہ طیبہ آرہے تھے لیکن راستے میں جب انھیں آپ ﷺ کی وفات کا علم ہواتو کہنے لگے کہ ہم اپنی ضروریات کے لیے واپس یمن جارہے ہیں، امید ہے کہ جلدہی خلیفہ کی زیارت کے لیے حاضرہوں گے، یعنی ان کا واپس جانا مرتد ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔ (فتح الباري:96/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبد اللہ بن ابی شیبہ عبسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن ادریس نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبد اللہ بجلی ؓ نے بیان کیا کہ (یمن سے واپسی پر مدینہ آنے کے لیے) میں دریا کے راستے سے سفر کر رہاتھا۔ اس وقت یمن کے دوآدمیوں ذوکلاع اور ذوعمرو سے میری ملاقات ہوئی میں ان سے حضور اکرم ﷺ کی باتیں کرنے لگا اس پر ذوعمرو نے کہا اگر تمہارے صاحب (یعنی حضور اکرم ﷺ) وہی ہیں جن کا ذکر تم کررہے ہو تو ان کی وفات کو بھی تین دن گزرچکے۔ یہ دونوں میرے ساتھ ہی (مدینہ) کی طرف چل رہے تھے۔ راستے میں ہمیں مدینہ کی طرف سے آتے ہوئے کچھ سوار دکھائی دیے، ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی کہ آنحضرت ﷺ وفات پاگئے ہیں۔ آپ کے خلیفہ ابوبکر ؓ منتخب ہوئے ہیں اور لوگ اب بھی سب خیریت سے ہیں۔ ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ اپنے صاحب (ابو بکر ؓ ) سے کہنا کہ ہم آئے تھے اور ان شاءاللہ پھر مدینہ آئیں گے یہ کہہ کر دونوں یمن کی طرف واپس چلے گئے۔ پھرمیں نے ابوبکر ؓ کو ان کی باتوں کی اطلاع دی توآپ نے فرمایا کہ پھر انہیں اپنے ساتھ لائے کیوں نہیں؟ بہت دنوں بعد خلافت عمری میں ذوعمرو نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ جریر ! تمہارا مجھ پر احسان ہے اور تمہیں میں ایک بات بتاؤ ں گا کہ تم اہل عرب اس وقت تک خیروبھلا ئی کے ساتھ رہوگے جب تک تمہارا طرز عمل یہ ہوگا کہ جب تمہارا کوئی امیر وفات پاجائے گا تو تم اپنا کوئی دوسرا امیر منتخب کر لیا کروگے۔ لیکن جب (امارت کے لیے) تلوار تک بات پہنچ جائے تو تمہارے امیر بادشاہ بن جائیں گے۔ بادشاہوں کی طرح غصہ ہوا کریں گے اور انہیں کی طرح خوش ہوا کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی ؓ کا یہ سفر یمن میں دعوت اسلام کے لیے تھا۔ ذو الخلصہ کے ڈھانے کا سفر دوسرا ہے۔ راستہ میں ذوعمروآپ کو ملا اور اس نے وفات نبو ی کی خبر سنائی جس پر تین دن گزرچکے تھے۔ ذوعمرو کو یہ خبر کسی ذریعہ سے مل چکی ہو گی۔ دیوبندی تر جمہ بخاری میں یہاں وفات نبوی پر تین سال گزرنے کا ذکر لکھا گیا ہے۔ جو عقلاً بھی بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ تین سال تو خلافت صدیقی کی مدت بھی نہیں ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے تین دن کا ترجمہ کیا ہے، وہی ہم نے نقل کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ ذوعمرو کی آخری نصیحت جو یہاں مذکور ہے وہ با لکل ٹھیک ثابت ہوئی ۔ خلفائے راشدین کے زمانے تک خلافت مسلمانوں کے مشورے اور صلاح سے ہوتی رہی۔ اس دور کے بعد کسری اور قیصر کی طرح لوگ طاقت کے بل پر بادشاہ بننے لگے اور مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے جب خلافت یزید کا اعلان کیاتو کئی بابصیرت مسلمانوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ آپ سنت رسول ﷺ کو چھوڑ کر اب کسری اور قیصر کی سنت کو زندہ کر رہے ہیں۔ بہر حال اسلامی خلافت کی بنیاد ﴿وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ﴾ پر ہے جس کو ترقی دے کر آج کی جمہوریت لائی گئی ہے۔ اگرچہ اس میں بہت سی خرابیاں ہیں، تاہم شوری کی ایک ادنی جھلک ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jarir (RA) : While I was at Yemen, I met two men from Yemen called Dhu Kala and Dhu Amr, and I started telling them about Allah's Apostle. Dhu Amr said to me, "If what you are saying about your friend (i.e. the Prophet) is true, then he has died three days ago." Then both of them accompanied me to Medina, and when we had covered some distance on the way to Medina, we saw some riders coming from Medina. We asked them and they said, "Allah's Apostle (ﷺ) has died and Abu Bakr (RA) has been appointed as the Caliph and the people are in a good state.' Then they said, "Tell your friend (Abu Bakr) that we have come (to visit him), and if Allah will, we will come again." So they both returned to Yemen. When I told Abu Bakr (RA) their statement, he said to me, "I wish you had brought them (to me)." Afterwards I met Dhu Amr, and he said to me, "O Jarir! You have done a favor to me and I am going to tell you something, i.e. you, the nation of 'Arabs, will remain prosperous as long as you choose and appoint another chief whenever a former one is dead. But if authority is obtained by the power of the sword, then the rulers will become kings who will get angry, as kings get angry, and will be delighted as kings get delighted."