Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Faith increases and decreases)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی ( تفسیر ) کا بیان ’’اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادتی د۔‘‘ اور دوسری آیت کی تفسیر میں کہ ’’اور اہل ایمان کا ایمان زیادہ ہو جائے۔‘‘ پھر یہ بھی فرمایا: ’’ آج کے دن میں تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘کیونکہ جب کمال میں سے کچھ باقی رہ جائے تو اسی کو کمی کہتے ہیں۔
44.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جس نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ» کہا اور اس کے دل میں ایک جَو کے برابر نیکی (ایمان) ہو، وہ دوزخ سے (ضرور) نکلے گا۔ اور جس نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ» کہا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانے کے برابر بھلائی (ایمان) ہو، وہ دوزخ سے ضرور نکلے گا۔ اور جس نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ» کہا اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو، وہ بھی دوزخ سے (ضرور) نکلے گا۔‘‘ حضرت امام ابو عبداللہ بخاری ؓ فرماتے ہیں: ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ حضرت انس ؓ نبی ﷺ سے لفظ خير کی جگہ ايمان کا لفظ نقل کیا ہے۔
تشریح:
1۔ عنوان، ایمان کی کمی بیشی کے متعلق تھا لیکن حدیث میں خیر کی کمی بیشی کا ثبوت ہے اور یہ ایک عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کمی بیشی نفس ایمان کی نہیں بلکہ شرائع واحکام کی ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک متابعت سے ثابت فرمایا کہ خیر سے مراد ایمان ہے، گویا متابعت کا ایک فائدہ تعیین مراد ہے۔ اس کے دو فائدے اور بھی ہیں: ایک یہ کہ قتادہ مدلس ہیں۔ اگرسماع کی تصریح نہ ہو تو اس کی روایت قبول نہیں ہوتی۔ امام صاحب نے متابعت سے تحدیث (حَدَّثَنَا) کی تصریح کردی۔ گویا دوسرا فائدہ تصریح سماع کا ہوا۔ اورایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ابان اورہشام اگرچہ دونوں ثقہ ہیں لیکن ہشام کا درجہ، ثقاہت کے لحاظ سے ابان سے بہت اونچا ہے اس لیے امام صاحب نے ہشام کی روایت کو اصل قراردیا اور اس کی خامی کو متابعت ذکر کر کے دور کر دیا، یعنی تیسرا فائدہ تقویت روایت ہے۔ 2۔ سورج کی شعاعوں میں سوئی کی نوک کے برابر بے شمار ذرے اڑتے نظر آتے ہیں، چارذرے ایک رائی کے دانے کے برابر ہوتے ہیں اور سو ذرات ایک جو کے دانے کے برابر وزن رکھتے ہیں۔ حدیث کا یہ اسلوب ایمان کی کمی بیشی پر روز روشن کی طرح واضح ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض بدعمل موحدین جہنم میں داخل ہوں گے، پھر اپنی سزا پانے کے بعد انھیں وہاں سے نکال لیا جائے گا۔ اس میں خوارج کے مسلک کے برعکس اس بات کا اثبات ہے کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب کافر نہیں ہوتا اور نہ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہی میں رہے گا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ایمان کے لیے صرف معرفت ناکافی ہے بلکہ زبان سے اقرار اوروہ بھی دلی یقین کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ (شرح الکرماني: 176/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
44
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
44
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
44
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
44
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
ایمان کی کمی بیشی کئی اعتبار سے ہے ایک کمی بیشی تصدیق کے لحاظ سے ہے ایک کمی بیشی عمل سے متعلق ہے۔اور تیسری کمی بیشی مُومَن بہ(جس پرایمان لایا جائے) کے اعتبار سے ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ایمان ہرلحاظ سے کمی بیشی کو قبول کرتاہے ۔اس باب میں مُومَن بہ کے لحاظ سے کمی بیشی کا اثبات مقصود ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےتین آیات کا حوالہ دیا ہے:(الف)۔ (وَزِدْنَاهُمْ هُدًى) "(یہ چند نوجوان (اصحاب کہف) اپنے رب پر ایمان لائے تھے) اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی دی تھی"اس آیت میں ہدایت،ایمان کے معنی میں ہے کیونکہ اس سے پہلے ایمان کا ذکر ہے،یا پھر ہدایت اپنے اصطلاحی معنی میں ہے،یعنی ایسی رہنمائی جو منزل مقصود تک پہنچادے۔یہ ایسی ہدایت ہے جو ایمان کو لازم ہے۔ایمان کے بغیر رہنمائی نہیں ہوسکتی۔( عمدۃ القاری 381/1) (ب)۔ (وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا)"اور تاکہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوجائے۔"یہ آیت اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔اس کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے۔(ج)۔ ( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ )"آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی مذید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب کمال میں سے کوئی چیز باقی رہ جائے تو اس کو کمی کہا جاتاہے۔یہ آیت ایمان کی کمی بیشی کے متعلق ایک زبردست دلیل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ اس دن نازل ہوئی جب دین اسلام کے فرائض اور سنن مکمل ہوچکے تھے۔اب دین کا کمال اسی صورت میں حاصل ہوگا کہ پوری شریعت پرعمل کیاجائے۔اگرشرائع اسلام پر عمل کرنے میں کوتاہی ہوگی تو ایمان ناقص رہے گا۔اور جوان کی حفاظت کرے گا،اس کا ایمان مکمل ہوگا۔( عمدۃالقاری 381/1)
اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی ( تفسیر ) کا بیان ’’اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادتی د۔‘‘ اور دوسری آیت کی تفسیر میں کہ ’’اور اہل ایمان کا ایمان زیادہ ہو جائے۔‘‘ پھر یہ بھی فرمایا: ’’ آج کے دن میں تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘کیونکہ جب کمال میں سے کچھ باقی رہ جائے تو اسی کو کمی کہتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جس نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ» کہا اور اس کے دل میں ایک جَو کے برابر نیکی (ایمان) ہو، وہ دوزخ سے (ضرور) نکلے گا۔ اور جس نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ» کہا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانے کے برابر بھلائی (ایمان) ہو، وہ دوزخ سے ضرور نکلے گا۔ اور جس نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ» کہا اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو، وہ بھی دوزخ سے (ضرور) نکلے گا۔‘‘ حضرت امام ابو عبداللہ بخاری ؓ فرماتے ہیں: ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ حضرت انس ؓ نبی ﷺ سے لفظ خير کی جگہ ايمان کا لفظ نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عنوان، ایمان کی کمی بیشی کے متعلق تھا لیکن حدیث میں خیر کی کمی بیشی کا ثبوت ہے اور یہ ایک عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کمی بیشی نفس ایمان کی نہیں بلکہ شرائع واحکام کی ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک متابعت سے ثابت فرمایا کہ خیر سے مراد ایمان ہے، گویا متابعت کا ایک فائدہ تعیین مراد ہے۔ اس کے دو فائدے اور بھی ہیں: ایک یہ کہ قتادہ مدلس ہیں۔ اگرسماع کی تصریح نہ ہو تو اس کی روایت قبول نہیں ہوتی۔ امام صاحب نے متابعت سے تحدیث (حَدَّثَنَا) کی تصریح کردی۔ گویا دوسرا فائدہ تصریح سماع کا ہوا۔ اورایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ابان اورہشام اگرچہ دونوں ثقہ ہیں لیکن ہشام کا درجہ، ثقاہت کے لحاظ سے ابان سے بہت اونچا ہے اس لیے امام صاحب نے ہشام کی روایت کو اصل قراردیا اور اس کی خامی کو متابعت ذکر کر کے دور کر دیا، یعنی تیسرا فائدہ تقویت روایت ہے۔ 2۔ سورج کی شعاعوں میں سوئی کی نوک کے برابر بے شمار ذرے اڑتے نظر آتے ہیں، چارذرے ایک رائی کے دانے کے برابر ہوتے ہیں اور سو ذرات ایک جو کے دانے کے برابر وزن رکھتے ہیں۔ حدیث کا یہ اسلوب ایمان کی کمی بیشی پر روز روشن کی طرح واضح ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض بدعمل موحدین جہنم میں داخل ہوں گے، پھر اپنی سزا پانے کے بعد انھیں وہاں سے نکال لیا جائے گا۔ اس میں خوارج کے مسلک کے برعکس اس بات کا اثبات ہے کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب کافر نہیں ہوتا اور نہ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہی میں رہے گا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ایمان کے لیے صرف معرفت ناکافی ہے بلکہ زبان سے اقرار اوروہ بھی دلی یقین کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ (شرح الکرماني: 176/1)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(یہ چند نوجوان (اصحاب کہف) اپنے رب پر ایمان لائے تھے) اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی دی تھی۔" "اور تاکہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے۔" نیز فرمایا:"آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔" اور جب کمال میں سے کوئی چیز باقی رہ جائے تو اس کو کمی کہا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے قتادہ نے حضرت انس کے واسطے سے نقل کیا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ» کہہ لیا اور اس کے دل میں جَو برابر بھی (ایمان) ہے تو وہ (ایک نہ ایک دن) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص (بھی) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ (بھی) نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے۔ حضرت امام ابوعبداللہ بخاری فرماتے ہیں کہ ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ حضرت انس ؓ رسول ﷺ سے خیر کی جگہ ایمان کا لفظ نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
پہلی روایت میں لفظ خیر سے بھی ایمان ہی مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever said "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a barley grain will be taken out of Hell. And whoever said: "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a wheat grain will be taken out of Hell. And whoever said, "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of an atom will be taken out of Hell."