Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Hajjat-ul-Wada)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4409.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ بیماری نے مجھے موت کے منہ میں لا ڈالا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری بیماری کس حد کو پہنچ چکی ہے۔ میرے پاس مال ہے جس کی وارث صرف ایک بیٹی ہے، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: آدھا کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: پھر ایک تہائی اللہ کی راہ میں دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود ہو تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا حتی کہ اس لقمے پر بھی تمہیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں (مکہ ہی میں رہ جاؤں گا) اپنے ساتھیوں کے ساتھ (مدینے) نہیں جا سکوں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے ہرگز پیچھے (مکہ میں) نہیں چھوڑا جائے گا مگر تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو عمل بھی کرو گے تو تمہارا مقام و مرتبہ اللہ کے ہاں بلند ہو گا۔ امید ہے کہ تم ابھی زندہ رہو گے اور تم سے کچھ لوگوں کو نفع پہنچے گا اور کچھ لوگ تیری وجہ سے نقصان اٹھائیں گے۔ اے اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کر دے اور انہیں ایڑیوں کے بل مت پھیر، لیکن نقصان میں تو سعد بن خولہ رہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ اظہار افسوس کرتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں فوت ہو گئے تھے۔
تشریح:
1۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ غزوات میں شمولیت کی وجہ سے اموال غنیمت کے باعث بہت مال دار ہوگئے تھے، اس لیے ان کی تقسیم کے متعلق سوال کیا۔ 2۔ چونکہ یہ مہاجرتھے اور مکہ میں سخت علیل ہوگئے، انھیں خیال آیا کہ اگرمکہ ہی میں انتقال ہوگیا تو شاید ہجرت کا ثواب ضائع ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں تسلی دی کہ اس مرض میں تمھیں موت نہیں آئے گی بلکہ تم زندہ رہوگے حتی کہ تم سے مسلمانوں کو نفع پہنچے گا اور مشرکین ومنافقین تمہاری وجہ سے بہت نقصان اٹھائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ فاتح فارس بنے اور حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ہونے والی جنگ قادسیہ میں سپہ سالار تھے۔ چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا بیان ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4223
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4409
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4409
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4409
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حج کوحجۃ الوداع کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ نے لوگوں کو الوداع فرمایا تھا۔اس کے بعد آپ نے کوئی حج نہیں کیا۔اسے حجۃ الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ مدینہ طیبہ سے آپ نے صرف یہی حج کیا تھا اگرچہ ہجرت سے پہلے آپ نے کئی حج کیے تھے۔اسے حجۃ البلاغ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔کیونکہ اس میں جملہ اہل عرب کو تبلیغ کی گئی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھبیس(26) ذوالقعدہ بروز ہفتہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔چار ذوالحجہ کو مکہ معظمہ تشریف لائے۔اس طرح آٹھ دن راستے میں صرف ہوئے،پر آٹھ ذوالحجہ کی صبح کو منیٰ روانگی ہوئی،۔نویں تاریخ کی صبح تک پانچ نمازیں منیٰ میں ادا کیں۔پھرمغرب اور عشاء مقام مزدلفہ میں جمع کرکے پڑھیں۔صبح کی نماز کے بعد منیٰ روانہ ہوئے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عمداً حجۃ الوداع کا عنوان یہاں قائم کیا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد وفود کا سلسلہ جاری ہوا جوحجۃ الوداع تک جاری رہا،اس لیے وفود کی انتہا بیان کرنے کے لیے حجۃ الوداع کا عنوان قائم کیا ہے۔حجۃ الوداع کاغزوہ تبوک کے بعد ہونا معروف ومشہور ہے لیکن فتح مکہ سے پہلے اور حجۃ الوداع کے بعد وفد کاآنا دراوقوع ہے۔بہرحال اس مقام پر حجۃ الوداع کا بیان نہ تو سہوکا نتیجہ ہے او رنہ کسی کاتب ہی سے غلطی ہوئی ہے جیسا کہ شارحین بخاری سے تآثر ملتا ہے۔واللہ اعلم۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ بیماری نے مجھے موت کے منہ میں لا ڈالا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری بیماری کس حد کو پہنچ چکی ہے۔ میرے پاس مال ہے جس کی وارث صرف ایک بیٹی ہے، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: آدھا کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: پھر ایک تہائی اللہ کی راہ میں دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود ہو تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا حتی کہ اس لقمے پر بھی تمہیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں (مکہ ہی میں رہ جاؤں گا) اپنے ساتھیوں کے ساتھ (مدینے) نہیں جا سکوں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے ہرگز پیچھے (مکہ میں) نہیں چھوڑا جائے گا مگر تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو عمل بھی کرو گے تو تمہارا مقام و مرتبہ اللہ کے ہاں بلند ہو گا۔ امید ہے کہ تم ابھی زندہ رہو گے اور تم سے کچھ لوگوں کو نفع پہنچے گا اور کچھ لوگ تیری وجہ سے نقصان اٹھائیں گے۔ اے اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کر دے اور انہیں ایڑیوں کے بل مت پھیر، لیکن نقصان میں تو سعد بن خولہ رہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ اظہار افسوس کرتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں فوت ہو گئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ غزوات میں شمولیت کی وجہ سے اموال غنیمت کے باعث بہت مال دار ہوگئے تھے، اس لیے ان کی تقسیم کے متعلق سوال کیا۔ 2۔ چونکہ یہ مہاجرتھے اور مکہ میں سخت علیل ہوگئے، انھیں خیال آیا کہ اگرمکہ ہی میں انتقال ہوگیا تو شاید ہجرت کا ثواب ضائع ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں تسلی دی کہ اس مرض میں تمھیں موت نہیں آئے گی بلکہ تم زندہ رہوگے حتی کہ تم سے مسلمانوں کو نفع پہنچے گا اور مشرکین ومنافقین تمہاری وجہ سے بہت نقصان اٹھائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ فاتح فارس بنے اور حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ہونے والی جنگ قادسیہ میں سپہ سالار تھے۔ چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا بیان ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص ؓ نے اور ان سے ان کے والد سعدؓ نے بیان کیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ بیمار ی نے مجھے موت کے منہ میں لا ڈالا تھا۔ میں نے عرض کیا، ارسول اللہ! جیسا کہ آپنے ملاحظہ فرمایا ہے، میرا مرض اس حد کو پہنچ گیا ہے اور میرے پاس مال ہے، جس کی وارث خالی میری ایک لڑکی ہے، تو کیا میں اپنا دوتہائی مال خیرات کردوں؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا، آدھا کردوں۔ فرمایا کہ نہیں۔ میں نے فرمایا کیا پھر تہائی کردوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مالدرا چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود رہی تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی تمہیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! (بیماری کی وجہ سے) کیا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ (مدینہ) نہیں جاسکوں گا؟ فرمایا اگر تم نہیں جاسکے تب بھی اگر تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے کوئی عمل کروگے تو تمہارا درجہ اللہ کے یہا ں اور بلند ہوگا اور امید ہے کہ تم ابھی زندہ رہو گے اور تم سے کچھ لوگوں (مسلمانوں) کو نفع پہنچے گا اور کچھ لوگوں (اسلام کے دشمنوں) کو نقصان پہنچے گا۔ اے اللہ! میرے ساتھیوں کی ہجرت کو کامل فرما اور انہیں پیچھے نہ ہٹا لیکن نقصان میں تو سعد بن خولہ رہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کے مکہ میں وفات پاجانے کی وجہ سے ظاہر فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
حجۃ الوداع کے ذکر کی وجہ سے حدیث کو یہاں لایا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad (RA) : The Prophet (ﷺ) visited me during Hajjat ul-Wada' while I was suffering from a disease which brought me to the verge of death. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! My ailment has reached such a (bad) state as you see, and I have much wealth, but I have no-one to inherit from me except my only daughter. Shall I give 2/3 of my property as alms (in charity)?" The Prophet (ﷺ) said, "No," I said, "Shall I give half of my property as alms?" He said, "No." I said, "(Shall I give) 1/3 of it? " He replied, " 1/3, and even 1/3 is too much. It is better for you to leave your inheritors wealthy rather than to leave them poor, begging people (for their sustenance); and whatever you spend for Allah's Sake, you will get reward for it even for the morsel of food which you put in your wives mouth." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Should I remain (in Makkah) behind my companions (who are going with you to Medina)?" The Prophet (ﷺ) said, "If you remain behind, any good deed which you will do for Allah's Sake, will upgrade and elevate you. May be you will live longer so that some people may benefit by you and some other (i.e. infidels) may get harmed by you." The Prophet (ﷺ) then added, "O Allah! Complete the Migration of my companions and do not turn them on their heels. But the poor Sad bin Khaula (not the above mentioned Sad) (died in Makkah) ." Allah's Apostle (ﷺ) pitied Sad for he died in Makkah.