Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The sickness of the Prophet (saws) and his death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرنا ہے، پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کرو گے۔“
4442.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب کی کہ میرے گھر میں آپ کی تیمارداری کی جائے۔ ازواج مطہرات نے (بخوشی) اجازت دے دی۔ آپ دو مردوں کے سہارے باہر تشریف لائے جبکہ آپ کے قدم زمین پر لکیر کھینچ رہے تھے۔ آپ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ اور ایک دوسرے شخص کے درمیان تھے۔ (راوی حدیث) عبیداللہ نے کہا: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے ارشاد کا حضرت عبداللہ (بن عباس ؓ) سے ذکر کیا تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: تم جانتے ہو کہ دوسرا شخص کون تھا جس کا ام المومنین نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے اوپر سات مشکیزے بہاؤ جن کے تسمے نہ کھولے گئے ہوں ممکن ہے کہ میں لوگوں کو وصیت کروں۔‘‘ چنانچہ ہم نے آپ کو نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے ایک بڑے برتن میں بٹھا دیا۔ پھر ہم نے آپ پر سات مشکیزوں کا پانی بہانا شروع کیا حتی کہ آپ نے اپنے دست مبارک سے ہماری طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے تعمیل کر دی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا، پھر آپ لوگوں کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں نماز پڑھا کر خطبہ دیا۔
تشریح:
1۔ دوران مرض میں رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین سے فرمایا: ’’میں تمھارے گھروں میں آنے جانے کی ہمت رکھتا اپنی خوشی سے مجھے اجازت دے دیں۔‘‘ نیز آپ فرمایا کرتے تھے۔ ’’میں کل کہاں ہوں گا ؟‘‘ آپ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کی خواہش رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر سے جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے تو سوموار کا دن تھا۔ 2۔ آپ کو لانے والے کئی حضرات تھے۔ ایک جانب تو حضرت عباس ؓ تھے دوسری جانب کبھی حضرت علی ؓ ، حضرت اسامہ ؓ ، حضرت ثوبان ؓ اور کبھی حضرت فضل ؓ ہوتے۔ بعض اوقات گھر کے اندر ایک جانب حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ ہوتی تھیں۔ چونکہ دوسری جانب کوئی متعین آدمی نہ تھا اس لیے آپ نے کسی کا نام نہیں لیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عباس ؓ کا نام بزرگی کے طور پر لیا ہو۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزے بہانے کا حکم دیا کیونکہ سات کے عدد میں خصوصیت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ سات کے عدد کو زہر اور جادو کے اثر کو زائل کرنے میں خاص دخل ہے، اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزوں کا پانی منگوایا۔ (فتح الباري:177/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4255
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4442
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4442
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4442
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
قرون اولیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق اختلاف رونما ہوا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ بالا آیات کی تلاوت کر کے وفات کا انکار کرنے والوں کو مطمئن کردیا۔ دور حاضر میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا انکار کرتے ہیں حیاتی اور مماتی گروہ کا تعلق اسی قسم کے اختلاف سے ہےممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں بھی اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہوں اس لیے آپ نے اسی آیت کریمہ کا حوالہ دیا جس کے پیش نظر منکرین لاجواب ہو گئے تھے۔ اس کی تفصیل آئندہ پیش ہو گی۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرنا ہے، پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کرو گے۔“
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب کی کہ میرے گھر میں آپ کی تیمارداری کی جائے۔ ازواج مطہرات نے (بخوشی) اجازت دے دی۔ آپ دو مردوں کے سہارے باہر تشریف لائے جبکہ آپ کے قدم زمین پر لکیر کھینچ رہے تھے۔ آپ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ اور ایک دوسرے شخص کے درمیان تھے۔ (راوی حدیث) عبیداللہ نے کہا: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے ارشاد کا حضرت عبداللہ (بن عباس ؓ) سے ذکر کیا تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: تم جانتے ہو کہ دوسرا شخص کون تھا جس کا ام المومنین نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے اوپر سات مشکیزے بہاؤ جن کے تسمے نہ کھولے گئے ہوں ممکن ہے کہ میں لوگوں کو وصیت کروں۔‘‘ چنانچہ ہم نے آپ کو نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے ایک بڑے برتن میں بٹھا دیا۔ پھر ہم نے آپ پر سات مشکیزوں کا پانی بہانا شروع کیا حتی کہ آپ نے اپنے دست مبارک سے ہماری طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے تعمیل کر دی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا، پھر آپ لوگوں کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں نماز پڑھا کر خطبہ دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ دوران مرض میں رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین سے فرمایا: ’’میں تمھارے گھروں میں آنے جانے کی ہمت رکھتا اپنی خوشی سے مجھے اجازت دے دیں۔‘‘ نیز آپ فرمایا کرتے تھے۔ ’’میں کل کہاں ہوں گا ؟‘‘ آپ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کی خواہش رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر سے جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے تو سوموار کا دن تھا۔ 2۔ آپ کو لانے والے کئی حضرات تھے۔ ایک جانب تو حضرت عباس ؓ تھے دوسری جانب کبھی حضرت علی ؓ ، حضرت اسامہ ؓ ، حضرت ثوبان ؓ اور کبھی حضرت فضل ؓ ہوتے۔ بعض اوقات گھر کے اندر ایک جانب حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ ہوتی تھیں۔ چونکہ دوسری جانب کوئی متعین آدمی نہ تھا اس لیے آپ نے کسی کا نام نہیں لیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عباس ؓ کا نام بزرگی کے طور پر لیا ہو۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزے بہانے کا حکم دیا کیونکہ سات کے عدد میں خصوصیت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ سات کے عدد کو زہر اور جادو کے اثر کو زائل کرنے میں خاص دخل ہے، اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزوں کا پانی منگوایا۔ (فتح الباري:177/8)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: "یقینا آپ وفات پانے والے ہیں اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیا ن کیا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی اور ان سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے بیا ن کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے لیے اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوگیا اور آپ کے مرض نے شدت اختیا ر کرلی تو تمام ازواج مطہرات ؓ سے آپ نے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کے لیے اجازت مانگی۔ سب نے جب اجازت دے دی تو آپ میمونہ ؓ کے گھر سے نکلے، آپ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور اپ کے پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے۔ جن دو صحابہ کا آپ ﷺ سہارا لیے ہوئے تھے، ان میں ایک عباس بن عبد المطلب ؓ تھے اور ایک اورصاحب۔ عبید اللہ نے بیا ن کیا کہ پھر میں نے عائشہ ؓ کی اس روایت کی خبر عبد اللہ بن عباس ؓ کو دی تو انھوں نے بتلایا، معلوم ہے وہ دوسرے صاحب جن کا نا م عائشہ ؓ نے نہیں لیا، کون ہیں ؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا مجھے تو نہیں معلوم ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ علی ؓ تھے اور نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ بیان کرتی تھیں کہ حضور اکرم ﷺ جب میرے گھر میں آگئے اور تکلیف بہت بڑھ گئی تو آپ نے فرمایا کہ سات مشکیزے پانی کے بھر کر لاؤ اور مجھ پر ڈال دو، ممکن ہے اس طرح میں لوگوں کو کچھ نصیحت کرنے کے قابل ہوجاؤں۔ چنانچہ ہم نے آپ کو آپ کی زوجہ مطہرہ حفصہ ؓ کے ایک لگن میں بٹھایا اور انہیں مشکیزوں سے آپ پرپانی دھارنے لگے۔ آخر حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے روکا کہ بس ہوچکا، بیان کیا کہ پھر آپ لوگوں کے مجمع میں گئے اور نماز پڑھائی اور لوگوں کو خطاب کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) "When the ailment of Allah's Apostle (ﷺ) became aggravated, he requested his wives to permit him to be (treated) nursed in my house, and they gave him permission. He came out (to my house), walking between two men with his feet dragging on the ground, between 'Abbas bin 'Abdul--Muttalib and another man" 'Ubaidullah said, "I told 'Abdullah of what 'Aisha (RA) had said, 'Abdullah bin 'Abbas (RA) said to me, 'Do you know who is the other man whom 'Aisha (RA) did not name?' I said, 'No.' Ibn 'Abbas (RA) said, 'It was 'Ali bin Abu Talib." 'Aisha (RA), the wife of the Prophet (ﷺ) used to narrate saying, "When Allah's Apostle (ﷺ) entered my house and his disease became aggravated, he said, " Pour on me the water of seven water skins, the mouths of which have not been untied, so that I may give advice to the people.' So we let him sit in a big basin belonging to Hafsah (RA), the wife of the Prophet (ﷺ) and then started to pour water on him from these water skins till he started pointing to us with his hands intending to say, 'You have done your job." 'Aisha (RA) added, "Then he went out to the people and led them in prayer and preached to them." 'Aisha (RA) and 'Abdullah bin 'Abbas (RA) said, "When Allah's Apostle (ﷺ) became ill seriously, he started covering his face with his woolen sheet, and when he felt short of breath, he removed it from hi; face and said, 'That is so! Allah's (curse be on the Jews and the Christians, as they took the graves of their prophets as (places of worship),' intending to warn (the Muslims) of what they had done." 'Aisha (RA) added, "I argued with Allah's Apostle (ﷺ) repeatedly about that matter (i.e. his order that Abu Bakr (RA) should lead the people in prayer in his place when he was ill), and what made me argue so much, was, that it never occurred to my mind that after the Prophet, the people would ever love a man who had taken his place, and I felt that anybody standing in his place, would be a bad omen to the people, so I wanted Allah's Apostle (ﷺ) to give up the idea of choosing Abu Bakr (RA) (to lead the people in prayer)."