Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The sickness of the Prophet (saws) and his death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرنا ہے، پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کرو گے۔“
4454.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ جب آئے تو حضرت عمر ؓ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اے عمر! بیٹھ جاؤ، لیکن حضرت عمر ؓ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران میں لوگ حضرت عمر ؓ کو چھوڑ کر حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ گئے۔ آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا: تم میں سے جو بھی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالٰی نے خود فرمایا ہے: ’’محمد (ﷺ) صرف رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔۔ اور اللہ شکر ادا کرنے والوں کو اچھی جز دے گا۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا محسوس ہوا جیسے پہلے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب حضرت ابوبکر ؓ نے اس کی تلاوت کی تو اب سب لوگ اس آیت کو ان سے لے رہے ہیں۔ اب تو یہ حال تھا کہ میں جس شخص کو بھی سنتا وہی اس کی تلاوت کر رہا ہوتا۔ حضرت سعید بن مسیب نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں نے حضرت ابوبکر ؓ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا کہ نبی ﷺ کی وفات ہو گئی ہے۔ میں تو سکتے میں آ گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری دونوں ٹانگیں لڑکھڑانے لگی ہیں اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات حسرت آیات پر اہل مدینہ کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی حتی کہ حضرت عمر ؓ جیسے کوہ استقامت اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ اپنی تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے جس نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کا کہا، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمدکے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ آئے اور دونوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ ؓ نے انھیں اجازت دی حضرت عمر ؓ نے آپ کو دیکھ کر کہا: ہائے! آپ بے ہوش ہوگئے ہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے کہا:آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا: تم غلط کہتے ہو اور کسی فتنے کا شکار ہو چکے ہو۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک فوت ہونے والے نہیں جب تک تمام منافقین کا خاتمہ نہ کردیں۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے تو انھوں نے پردہ اٹھا کر آپ کو دیکھا اور اناللہ وانا الیه راجعون۔ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ وفات پا چکے ہیں۔ (مسند أحمد:219/6) 2۔ حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے بجائے اسم گرامی "محمد" کا لفظ استعمال کیا کیونکہ اس سے مقصود ذات کریمہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ کہنے سے وصف رسالت کی طرف نگاہ ہوتی حالانکہ اس وقت وصف رسالت ملحوظ نہیں تھا کیونکہ اس کا تعلق مرسل یعنی ذات باری تعالیٰ سے تھا جو منقطع نہیں ہواتھا، اگر آپ کی رسالت منقطع ہوتی تو پھر ذات گرامی کا ذکر کرنا مناسب نہ تھا، اس لیے وصف رسالت کے بجائے اسم گرامی ذکر کیا گیا۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4265
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4454
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4454
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4454
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
قرون اولیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق اختلاف رونما ہوا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ بالا آیات کی تلاوت کر کے وفات کا انکار کرنے والوں کو مطمئن کردیا۔ دور حاضر میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا انکار کرتے ہیں حیاتی اور مماتی گروہ کا تعلق اسی قسم کے اختلاف سے ہےممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں بھی اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہوں اس لیے آپ نے اسی آیت کریمہ کا حوالہ دیا جس کے پیش نظر منکرین لاجواب ہو گئے تھے۔ اس کی تفصیل آئندہ پیش ہو گی۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرنا ہے، پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کرو گے۔“
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ جب آئے تو حضرت عمر ؓ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اے عمر! بیٹھ جاؤ، لیکن حضرت عمر ؓ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران میں لوگ حضرت عمر ؓ کو چھوڑ کر حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ گئے۔ آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا: تم میں سے جو بھی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالٰی نے خود فرمایا ہے: ’’محمد (ﷺ) صرف رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔۔ اور اللہ شکر ادا کرنے والوں کو اچھی جز دے گا۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا محسوس ہوا جیسے پہلے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب حضرت ابوبکر ؓ نے اس کی تلاوت کی تو اب سب لوگ اس آیت کو ان سے لے رہے ہیں۔ اب تو یہ حال تھا کہ میں جس شخص کو بھی سنتا وہی اس کی تلاوت کر رہا ہوتا۔ حضرت سعید بن مسیب نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں نے حضرت ابوبکر ؓ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا کہ نبی ﷺ کی وفات ہو گئی ہے۔ میں تو سکتے میں آ گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری دونوں ٹانگیں لڑکھڑانے لگی ہیں اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات حسرت آیات پر اہل مدینہ کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی حتی کہ حضرت عمر ؓ جیسے کوہ استقامت اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ اپنی تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے جس نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کا کہا، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمدکے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ آئے اور دونوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ ؓ نے انھیں اجازت دی حضرت عمر ؓ نے آپ کو دیکھ کر کہا: ہائے! آپ بے ہوش ہوگئے ہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے کہا:آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا: تم غلط کہتے ہو اور کسی فتنے کا شکار ہو چکے ہو۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک فوت ہونے والے نہیں جب تک تمام منافقین کا خاتمہ نہ کردیں۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے تو انھوں نے پردہ اٹھا کر آپ کو دیکھا اور اناللہ وانا الیه راجعون۔ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ وفات پا چکے ہیں۔ (مسند أحمد:219/6) 2۔ حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے بجائے اسم گرامی "محمد" کا لفظ استعمال کیا کیونکہ اس سے مقصود ذات کریمہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ کہنے سے وصف رسالت کی طرف نگاہ ہوتی حالانکہ اس وقت وصف رسالت ملحوظ نہیں تھا کیونکہ اس کا تعلق مرسل یعنی ذات باری تعالیٰ سے تھا جو منقطع نہیں ہواتھا، اگر آپ کی رسالت منقطع ہوتی تو پھر ذات گرامی کا ذکر کرنا مناسب نہ تھا، اس لیے وصف رسالت کے بجائے اسم گرامی ذکر کیا گیا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: "یقینا آپ وفات پانے والے ہیں اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔"
حدیث ترجمہ:
زہری نے بیان کیا اور ان سے ابو سلمہ نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہ حضرت ابو بکر ؓ آئے تو حضرت عمر ؓ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ابو بکر ؓ نے کہا عمر! بیٹھ جاؤ، لیکن حضرت عمر ؓ نے بیٹھنے سے انکا ر کیا۔ اتنے میں لوگ حضرت عمر ؓ کو چھوڑکر ابو بکر ؓ کے پاس آگئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا، ا بعد ! تم میں جو بھی محمد اکی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو نا چا ہيے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھاتو (اس کا معبود) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ”محمد صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔“ ارشاد ''الشاکرین'' تک۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا، خدا کی قسم ! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب حضرت ابوبکر ؓ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا۔ (زہری نے بیان کیا کہ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر ؓ نے کہا، خدا کی قسم ! مجھے اس وقت ہوش آیا، جب میں نے حضرت ابو بکر ؓ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ حضور اکرم ﷺ کی وفات ہوگئی ہے تومیں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔
حدیث حاشیہ:
ایسے نازک وقت میں امت کو سنبھالنا یہ حضرت ابوبکر ؓ ہی کا مقام تھا۔ اسی لیے رسول کریم ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے ہی ان کو اپناخلیفہ بنا کر امام نماز بنا دیا تھا جو ان کی خلافت حقہ کی روشن دلیل ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے یہ کہہ کر کہ خدا آپ پر دوموت طاری نہیں کرے گا۔ ان صحابہ ؓ کا رد کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ آنحضرتﷺ پھر زندہ ہوںگے اور منافقوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہوتو پھر وفات ہوگی گویا دوبارموت ہوجائے گی۔ بعضوں نے کہا دوبار موت نہ ہونے سے یہ مطلب ہے کہ پھر قبر میں آپ کوموت نہ ہوگی بلکہ آپ زندہ رہیں گے۔ امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی، میں نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانک دیا۔ اس کے بعد عمر ؓ اور مغیرہ ؓ آئے۔ دونوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ میں نے اجازت دے دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعش کو دیکھ کر کہا ہائے آپ بیہوش ہوگئے ہیں۔ مغیر ہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ مغیرہ ؓ کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آنحضرت ﷺ اس وقت تک مرنے والے نہیں ہیں جب تک سارے منافقین کا قلع قمع نہ کر دیں۔ ایک روایت میں یوں ہے، حضرت عمر ؓ یوں کہہ رہے تھے کہ خبردا! جو کوئی کہے گا کہ آنحضرت ﷺ مرگئے ہیں، میں تلوار سے اس کاسر اڑا دوں گا۔ حضرت عمر ؓ کو واقعی یہ یقین تھا کہ آنحضرتﷺ مرے نہیں ہیں یا ان کا یہ فرمانا بڑی مصلحت اور سیاست پر مبنی ہوگا۔ انہوں نے یہ چاہا کہ پہلے خلافت کا انتظام ہو جائے بعد میں آپ کی وفات کو ظاہر کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ آپ کی وفات کا حال سن کر دین میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) (RA) : Abu Bakr (RA) went out while Umar bin Al-Khattab (RA) was talking to the people. Abu Bakr (RA) said, "Sit down, O 'Umar!" But 'Umar refused to sit down. So the people came to Abu Bakr (RA) and left Umar. Abu Bakr (RA) said, "To proceed, if anyone amongst you used to worship Muhammad , then Muhammad is dead, but if (anyone of) you used to worship Allah, then Allah is Alive and shall never die. Allah said:--"Muhammad is no more than an Apostle, and indeed (many) apostles have passed away before him..(till the end of the Verse )......Allah will reward to those who are thankful." (3.144) By Allah, it was as if the people never knew that Allah had revealed this Verse before till Abu Bakr (RA) recited it and all the people received it from him, and I heard everybody reciting it (then). Narrated Az-Zuhri (RA) : Said bin Al-Musaiyab told me that 'Umar said, "By Allah, when I heard Abu Bakr (RA) reciting it, my legs could not support me and I fell down at the very moment of hearing him reciting it, declaring that the Prophet (ﷺ) had died."