باب:ایمان اسلام احسان اور قیامت کے علم کے بارے میں حضرت جبریلؑ کے سوالات نبی ﷺ سے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The asking of (angel) Jibrll (Gabriel) from the Prophet (saws) about Iman, Islam, Ihsan and the knowledge of the Hour)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اس کے جواب میں نبی کریم ﷺ کا بیان فرمانا پھر آخر میں آپ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو تم کو دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔ یہاں آپ نے ان تمام باتوں کو ( جو جبرئیل علیہ السلام کے سامنے بیان کی گئی تھیں ) دین ہی قرار دیا اور ان باتوں کے بیان میں جو آنحضرت ﷺ نے ایمان سے متعلق عبدالقیس کے وفد کے سامنے بیان فرمائی تھی اور اللہ پاک کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ ’’جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔‘‘اس آیت شریفہ میں بھی ا سلام کو لفظ دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔
50.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اور روز حشر اللہ کے حضور پیش ہونے پر، اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔‘‘ اس نے مزید سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم محض اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ نماز ٹھیک طور پر ادا کرو اور فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: قیامت کب برپا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’جس سے سوال کیا گیا ہے وہ بھی سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، البتہ میں تمہیں قیامت برپا ہونے کی کچھ نشانیاں بتائے دیتا ہوں: جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور جب اونٹوں کے غیر معروف سیاہ فام چرواہے فلک بوس عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جائیں گے (تو قیامت قریب ہو گی)۔ دراصل قیامت ان پانچ باتوں میں سے ہے جن کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بےشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص واپس چلا گیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ چنانچہ لوگوں نے اسے تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ جبریل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: ’’رسول اللہ ﷺ نے ان تمام چیزوں کو ایمان قرار دیا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ کسی چیز کی حقیقت وماہیت معلوم کرنا ہو تو ما کے ذریعے سے سوال کیا جاتا ہے، حدیث میں حقیقت ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسی چیزوں کی تصدیق کے متعلق جن کا تعلق مغیبات سے ہے اور انھیں اصول ایمان کہا جاتا ہے بیان فرمایا۔ اس حدیث میں پانچ چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ اللہ پرایمان۔ قیامت پر ایمان۔ فرشتوں پر ایمان۔ رسولوں پر ایمان۔ تقدیر پر ایمان۔ بعض روایات میں چھٹی چیز کتابوں پر ایمان کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93)(8)۔) ان تمام اصول ایمان پر مکمل بحث ہم نے اپنی تالیف "مسئلہ ایمان وکفر" میں کی ہے۔ 2۔ ارکان اسلام پانچ ہیں۔ (الف)۔ادائے شہادتین(توحید ورسالت کی گواہی)۔ (ب)۔ اقامت صلاۃ۔ (ج)۔ ایتائے زکاۃ۔ (د)۔ صوم رمضان۔ (س)۔ حج بیت اللہ۔ اس روایت میں اگرچہ حج کا ذکر نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93)(8)۔) یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا کیونکہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں حاضر ہوئےتھے۔ (کتاب الإیمان، لإبن مندہ: 144/1(طبع دارالفضیلة) و فتح الباري: 159/1۔) 3۔ احسان کے معنی، عمل میں نکھار اور خوبصورتی ہیں۔ عمل میں نکھار اس وقت آتا ہے جب وہ ظاہر وباطن میں پوری طرح درست ہو۔ ظاہر میں عمل کے تمام آداب وشرائط داخل ہیں جبکہ باطن میں اخلاص نیت اور خشوع وخضوع شامل ہے۔ احسان کی تعریف میں اخلاص کے دو درجے بیان ہوئے ہیں۔ (الف) مشاہدہ:یہ اخلاص کااعلیٰ درجہ ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت بایں طور کی جائے گویا باری تعالیٰ نگاہوں کے سامنے ہے یعنی قلب ونظر اس طرف لگ جائیں۔ (ب)۔مراقبہ۔ عبادت گزار عبادت کرتے وقت یہ خیال کرے کہ اگر میں اللہ کو نہیں دیکھ سکتا تواللہ تعالیٰ مجھے ہر آن دیکھ رہا ہے، جس عابد کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ اپنا اپنا کام کرتا ہے۔ (فتح الباري: 159/1۔) 4۔ بعض غالی قسم کے صوفیاء نے اپنے مذاق کے مطابق اس مقام پر ایک عجیب تاویل کی ہے کہ: ﴿فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ﴾ میں (كَانَ) تامہ ہے، معنی یہ ہیں کہ اگرتم اپنی ہستی فنا کرو اور(لَمْ تَكُنْ) بن جاؤ تو اللہ کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ تاویل عقل ونقل کے لحاظ سے باطل بلکہ قواعد عربی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ اس صورت میں تَرَاهُ کا الف جواب شرط ہونے کی بنا پر حذف ہونا چاہیے تھا جبکہ حدیث کے تما م طرق میں الف موجود ہے، پھر حدیث میں صراحت ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے تم اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔ (صحیح مسلم، الفتن حدیث: 7356(2931)۔) اس سے معلوم ہوا کہ صوفیاء کے ہاں مقام مَحو وفنا خود ساختہ ہے۔ (فتح الباري: 160/1۔) 5۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ قراردیا ہے۔ ان کے نزدیک دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو پھر بھی احسان پر قائم رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔ گویا دوسرا جملہ پہلے جملے کی علت ہے، یعنی دارومدار تمہارے دیکھنے پر نہیں بلکہ اللہ کے دیکھنے پر ہے۔ وہ تو بہرحال دیکھ ہی رہا ہے تم دیکھو یا نہ دیکھو، لہذا عبادت کو ہمیشہ اچھے طریقے سے کرنا چاہیے۔ (شرح نووي) 6۔ ’’لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی‘‘ شارحین نے اس کے کئی ایک مطالب بیان کیے ہیں۔ (الف)۔ والدین کی نافرمانی عام ہوجائے گی۔ اولاد والدین کو ذلیل و خوار کرکے، ان سے اس طرح کام لے گی جس طرح خاوند اپنی بیوی سے لیتا ہے بالخصوص بیٹی جو ماں سے بہت محبت کرتی ہے وہ بھی نافرمانی پر اتر آئے گی۔ آج اس کا اکثر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ (ب)۔ باندیوں کے بچے برسراقتدار آجائیں گے جن کے اخلاق وعادات اوراطوار فطری طورپر خراب ہوتے ہیں، یعنی اقتدار پر ایسے لوگ قابض ہوجائیں گے جو اس کے اہل نہیں ہوں گے بلکہ نالائق، درشت مزاج اور انصاف کے تقاضوں سے ناآشنا ہوں گے۔ (ج)۔ فتوحات زیادہ ہوں گی جس کے نتیجے میں لونڈیاں زیادہ آئیں گی اور وہ ام ولد بنیں گی گویا اپنے آقا کو جنم دینا ہے۔ اس تفسیر پر یہ علامت بالکل ابتدائی نشانی ہوئی کیونکہ فتوحات کی کثرت تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوچکی ہے۔ (د)۔ قرب قیامت کے وقت جہالت عام ہوگی جس کی بناپر ہر طرف بے عملی اور بے راہ روی کا دور دورہ ہوگا، معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا کہ ام ولد جس کی خرید وفروخت ناجائز ہے، کھلے عام فروخت ہوگی اور وہ فروخت ہوتے ہوتے ایسے آقا کے پاس پہنچ جائے گی جس کو اس نے جنم دیا ہوگا اور وہ لاشعوری طور پر اس کا مالک بن جائے گا۔ (فتح الباري: 162/1۔) 7۔ اس حدیث میں قیامت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ جب سیاہ فام سیاہ اونٹوں کے چرواہے عمارتوں پر فخر کرنے لگیں یا دست درازی کریں تو اس وقت قیامت قریب آ لگے گی۔ اونٹوں کے چرواہے کہنے کی وجہ یہ ہےکہ اونٹوں کے پاس رہنے سے انسان میں سنگدلی اور بدمزاجی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ درشت خو اور کینہ پرور لوگ ہوں گے انھیں تہذیب وتمدن اور باہمی رواداری سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، ایسےلوگ جب عمارتوں پر فخرکریں یا شہر کی عمارتوں پر دست درازی کریں یعنی انھیں مسمار کرکے نئی عمارتیں کھڑی کریں تو سمجھ لینا کہ اس عالم کی بساط الٹ دی جانے والی ہے۔ 8۔ صحیح بخاری کی ہی ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے قریب حکومتی معاملات غیر مہذب، گنوار اور نالائق لوگوں کے سپرد ہوجائیں گے۔ (صحیح البخاري، کتاب التفسیر، حدیث 4777۔) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب عنان اقتدار نالائق اور رذیل لوگ سنبھالیں گے جن میں علمی،عملی، اخلاقی اور سیاسی شعور نہ ہوگا توقیامت کے آنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 59۔) اس علامت کا تو آج مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ آج کل اقتدار پر کس قسم کے لوگ قابض ہیں۔ (فتح الباري: 164/1۔) 9۔ پانچ چیزوں کے متعلق اللہ کے سوا اورکوئی نہیں جانتا، یعنی قیامت کا آنا، بارش کا آنا، رحم مادر میں کیا ہے کل کیا ہوگا اور کہاں موت آئے گی؟ انھیں مفاتیح الغیب قراردیا گیا ہے، یعنی علم غیب تو درکنار علم غیب کی کنجیاں بھی کسی کو معلوم نہیں جن کے ذریعے سے علوم تک پہنچا جاسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کس قدر ضلالت اور گمراہی میں ہیں۔ ہاں بذریعہ وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کی خبر دے دیں تو یہ نبی کا منصب ہے۔ اسے غیب کا علم جاننا نہیں کہا جا سکتا۔ 10۔ آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں کہ ایمان، اسلام، احسان اور علامات قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کا نام ایمان کامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
50
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
50
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
50
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
50
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اس باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تین ذیلی عنوان قائم کیے ہیں:پہلا عنوان سوال جبرئیل سے متعلق ہے۔انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان ،اسلام اور احسان کے متعلق سوالات کیے اور آپ نے ان کے جوابات عنایت فرمائے۔پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تمھیں تمہارا دین سکھانے کے لیے تشریف لائے تھے۔اس سے آپ نے یہ ثابت کردیا ہےکہ دین،ایمان واسلام اور احسان سب پر مشتمل ہے۔دوسرے عنوان میں ان چیزوں کا بیان ہے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کے لیے ایمان کے سلسلے میں واضح فرمایاتھا۔اس سے مقصد یہ ہے کہ ایمان کے اندر اعمال داخل ہیں کیونکہ اس وفد کو ایمان کے سلسلے میں اعمال ہی کی تعلیم دی گئی تھی۔تیسرا عنوان آیت کریمہ سے شروع ہوتا ہے۔مقصد یہ ہے کہ اصل دین،دین اسلام ہے،نیز دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کو ایمان کے متعلق جو چیزیں ارشاد فرمائیں ،وہی اشیاء حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اسلام کے جواب میں ارشاد فرمائیں۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایمان اور اسلام بھی ایک ہی چیز کی دوتعبیریں ہیں۔اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ اسلام،ایمان اوردین تینوں الفاظ معنی کے لحاظ سے متحد ہیں۔اس اتحاد کے اثبات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان مختلف تعبیرات کو صحیح ثابت کرنا ہے جو آپ نے اعمال کو ایمان کاحصہ ثابت کرنے کے لیے سابقہ ابواب میں اختیار فرمائی تھیں جیسا کہ آپ نے بعض اعمال کے متعلق من الایمان،من الاسلام،اور من الدین کا اسلوب اختیار کیا تھا۔اصل بات یہ ہے کہ اگر ایمان اوراسلام کے الفاظ ایک ہی جگہ استعمال ہوں تو ان کا مدلول مختلف ہوگا اور دونوں کا استعمال الگ الگ ہوتو وہاں یہ ایک دوسرے کو لازم ہوں گے۔امام صاحب کے نزدیک اسلام شرعی اور ایمان شرعی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کا لغوی مفہوم کیا ہے۔
اور اس کے جواب میں نبی کریم ﷺ کا بیان فرمانا پھر آخر میں آپ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو تم کو دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔ یہاں آپ نے ان تمام باتوں کو ( جو جبرئیل علیہ السلام کے سامنے بیان کی گئی تھیں ) دین ہی قرار دیا اور ان باتوں کے بیان میں جو آنحضرت ﷺ نے ایمان سے متعلق عبدالقیس کے وفد کے سامنے بیان فرمائی تھی اور اللہ پاک کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ ’’جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔‘‘اس آیت شریفہ میں بھی ا سلام کو لفظ دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اور روز حشر اللہ کے حضور پیش ہونے پر، اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔‘‘ اس نے مزید سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم محض اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ نماز ٹھیک طور پر ادا کرو اور فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: قیامت کب برپا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’جس سے سوال کیا گیا ہے وہ بھی سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، البتہ میں تمہیں قیامت برپا ہونے کی کچھ نشانیاں بتائے دیتا ہوں: جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور جب اونٹوں کے غیر معروف سیاہ فام چرواہے فلک بوس عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جائیں گے (تو قیامت قریب ہو گی)۔ دراصل قیامت ان پانچ باتوں میں سے ہے جن کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بےشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص واپس چلا گیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ چنانچہ لوگوں نے اسے تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ جبریل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: ’’رسول اللہ ﷺ نے ان تمام چیزوں کو ایمان قرار دیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ کسی چیز کی حقیقت وماہیت معلوم کرنا ہو تو ما کے ذریعے سے سوال کیا جاتا ہے، حدیث میں حقیقت ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسی چیزوں کی تصدیق کے متعلق جن کا تعلق مغیبات سے ہے اور انھیں اصول ایمان کہا جاتا ہے بیان فرمایا۔ اس حدیث میں پانچ چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ اللہ پرایمان۔ قیامت پر ایمان۔ فرشتوں پر ایمان۔ رسولوں پر ایمان۔ تقدیر پر ایمان۔ بعض روایات میں چھٹی چیز کتابوں پر ایمان کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93)(8)۔) ان تمام اصول ایمان پر مکمل بحث ہم نے اپنی تالیف "مسئلہ ایمان وکفر" میں کی ہے۔ 2۔ ارکان اسلام پانچ ہیں۔ (الف)۔ادائے شہادتین(توحید ورسالت کی گواہی)۔ (ب)۔ اقامت صلاۃ۔ (ج)۔ ایتائے زکاۃ۔ (د)۔ صوم رمضان۔ (س)۔ حج بیت اللہ۔ اس روایت میں اگرچہ حج کا ذکر نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93)(8)۔) یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا کیونکہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں حاضر ہوئےتھے۔ (کتاب الإیمان، لإبن مندہ: 144/1(طبع دارالفضیلة) و فتح الباري: 159/1۔) 3۔ احسان کے معنی، عمل میں نکھار اور خوبصورتی ہیں۔ عمل میں نکھار اس وقت آتا ہے جب وہ ظاہر وباطن میں پوری طرح درست ہو۔ ظاہر میں عمل کے تمام آداب وشرائط داخل ہیں جبکہ باطن میں اخلاص نیت اور خشوع وخضوع شامل ہے۔ احسان کی تعریف میں اخلاص کے دو درجے بیان ہوئے ہیں۔ (الف) مشاہدہ:یہ اخلاص کااعلیٰ درجہ ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت بایں طور کی جائے گویا باری تعالیٰ نگاہوں کے سامنے ہے یعنی قلب ونظر اس طرف لگ جائیں۔ (ب)۔مراقبہ۔ عبادت گزار عبادت کرتے وقت یہ خیال کرے کہ اگر میں اللہ کو نہیں دیکھ سکتا تواللہ تعالیٰ مجھے ہر آن دیکھ رہا ہے، جس عابد کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ اپنا اپنا کام کرتا ہے۔ (فتح الباري: 159/1۔) 4۔ بعض غالی قسم کے صوفیاء نے اپنے مذاق کے مطابق اس مقام پر ایک عجیب تاویل کی ہے کہ: ﴿فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ﴾ میں (كَانَ) تامہ ہے، معنی یہ ہیں کہ اگرتم اپنی ہستی فنا کرو اور(لَمْ تَكُنْ) بن جاؤ تو اللہ کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ تاویل عقل ونقل کے لحاظ سے باطل بلکہ قواعد عربی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ اس صورت میں تَرَاهُ کا الف جواب شرط ہونے کی بنا پر حذف ہونا چاہیے تھا جبکہ حدیث کے تما م طرق میں الف موجود ہے، پھر حدیث میں صراحت ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے تم اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔ (صحیح مسلم، الفتن حدیث: 7356(2931)۔) اس سے معلوم ہوا کہ صوفیاء کے ہاں مقام مَحو وفنا خود ساختہ ہے۔ (فتح الباري: 160/1۔) 5۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ قراردیا ہے۔ ان کے نزدیک دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو پھر بھی احسان پر قائم رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔ گویا دوسرا جملہ پہلے جملے کی علت ہے، یعنی دارومدار تمہارے دیکھنے پر نہیں بلکہ اللہ کے دیکھنے پر ہے۔ وہ تو بہرحال دیکھ ہی رہا ہے تم دیکھو یا نہ دیکھو، لہذا عبادت کو ہمیشہ اچھے طریقے سے کرنا چاہیے۔ (شرح نووي) 6۔ ’’لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی‘‘ شارحین نے اس کے کئی ایک مطالب بیان کیے ہیں۔ (الف)۔ والدین کی نافرمانی عام ہوجائے گی۔ اولاد والدین کو ذلیل و خوار کرکے، ان سے اس طرح کام لے گی جس طرح خاوند اپنی بیوی سے لیتا ہے بالخصوص بیٹی جو ماں سے بہت محبت کرتی ہے وہ بھی نافرمانی پر اتر آئے گی۔ آج اس کا اکثر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ (ب)۔ باندیوں کے بچے برسراقتدار آجائیں گے جن کے اخلاق وعادات اوراطوار فطری طورپر خراب ہوتے ہیں، یعنی اقتدار پر ایسے لوگ قابض ہوجائیں گے جو اس کے اہل نہیں ہوں گے بلکہ نالائق، درشت مزاج اور انصاف کے تقاضوں سے ناآشنا ہوں گے۔ (ج)۔ فتوحات زیادہ ہوں گی جس کے نتیجے میں لونڈیاں زیادہ آئیں گی اور وہ ام ولد بنیں گی گویا اپنے آقا کو جنم دینا ہے۔ اس تفسیر پر یہ علامت بالکل ابتدائی نشانی ہوئی کیونکہ فتوحات کی کثرت تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوچکی ہے۔ (د)۔ قرب قیامت کے وقت جہالت عام ہوگی جس کی بناپر ہر طرف بے عملی اور بے راہ روی کا دور دورہ ہوگا، معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا کہ ام ولد جس کی خرید وفروخت ناجائز ہے، کھلے عام فروخت ہوگی اور وہ فروخت ہوتے ہوتے ایسے آقا کے پاس پہنچ جائے گی جس کو اس نے جنم دیا ہوگا اور وہ لاشعوری طور پر اس کا مالک بن جائے گا۔ (فتح الباري: 162/1۔) 7۔ اس حدیث میں قیامت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ جب سیاہ فام سیاہ اونٹوں کے چرواہے عمارتوں پر فخر کرنے لگیں یا دست درازی کریں تو اس وقت قیامت قریب آ لگے گی۔ اونٹوں کے چرواہے کہنے کی وجہ یہ ہےکہ اونٹوں کے پاس رہنے سے انسان میں سنگدلی اور بدمزاجی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ درشت خو اور کینہ پرور لوگ ہوں گے انھیں تہذیب وتمدن اور باہمی رواداری سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، ایسےلوگ جب عمارتوں پر فخرکریں یا شہر کی عمارتوں پر دست درازی کریں یعنی انھیں مسمار کرکے نئی عمارتیں کھڑی کریں تو سمجھ لینا کہ اس عالم کی بساط الٹ دی جانے والی ہے۔ 8۔ صحیح بخاری کی ہی ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے قریب حکومتی معاملات غیر مہذب، گنوار اور نالائق لوگوں کے سپرد ہوجائیں گے۔ (صحیح البخاري، کتاب التفسیر، حدیث 4777۔) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب عنان اقتدار نالائق اور رذیل لوگ سنبھالیں گے جن میں علمی،عملی، اخلاقی اور سیاسی شعور نہ ہوگا توقیامت کے آنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 59۔) اس علامت کا تو آج مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ آج کل اقتدار پر کس قسم کے لوگ قابض ہیں۔ (فتح الباري: 164/1۔) 9۔ پانچ چیزوں کے متعلق اللہ کے سوا اورکوئی نہیں جانتا، یعنی قیامت کا آنا، بارش کا آنا، رحم مادر میں کیا ہے کل کیا ہوگا اور کہاں موت آئے گی؟ انھیں مفاتیح الغیب قراردیا گیا ہے، یعنی علم غیب تو درکنار علم غیب کی کنجیاں بھی کسی کو معلوم نہیں جن کے ذریعے سے علوم تک پہنچا جاسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کس قدر ضلالت اور گمراہی میں ہیں۔ ہاں بذریعہ وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کی خبر دے دیں تو یہ نبی کا منصب ہے۔ اسے غیب کا علم جاننا نہیں کہا جا سکتا۔ 10۔ آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں کہ ایمان، اسلام، احسان اور علامات قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کا نام ایمان کامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
پھر نبی ﷺ کا جبرئیل کے لیے ان امور کا بیان فرمانا۔ پھر آپ نے فرمایا: "حضرت جبرئیل علیہ السلام تمہیں، تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔" اس مقام پر آپ نے ان تمام چیزوں کو دین شمار فرمایا ہے، نیز ان باتوں کے بیان میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کے سامنے بیان فرمائی تھیں اور ارشاد باری تعالیٰ: "جو اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو ابوحیان تیمی نے ابوزرعہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ایک دن آنحضرت ﷺ لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس (اللہ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔‘‘ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے پھر جواب دیا : ’’اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا (البتہ) میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے (یاد رکھو) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی (آخر آیت تک) پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے واپس بلا کر لاؤ۔‘‘ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘ امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’آنحضرت ﷺ نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
شارحین بخاری لکھتے ہیں: "مقصود البخاري من عقد ذلك الباب أن الدین و الإسلام و الإیمان واحد لا إختلاف في مفهومهما والواو في و مابین وقوله تعالى بمعنی مع." یعنی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور ومابین میں اور وقولہ تعالیٰ میں ہردوجگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے فجعل ذالك کله من الإیمان سے واضح فرما دیا۔ یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔ دوسرا ترجمہ وما بین لوفد عبدالقیس ہے یعنی آپ ﷺ نے وفدعبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرما کر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔ تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ ﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ﴾ ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔ اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبرہے۔ یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کوغیرضروری بتلاتے ہیں۔ تعصب کا برا ہو: فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔ مگرتعصب کا براہو عصرحاضر کے بعض مترجمین وشارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انھوں نے یہاں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں: ’’امام بخاری رحمہ اللہ میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہوگئے۔ جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔ دوسرے وہ زود رنج تھے۔ فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔ اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔ جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہوگیا۔‘‘ (انوارالباری، جلد: دوم، ص: 168) اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ مگرآج کے دورمیں ان فرسودہ مباحث میں جا کر علمائے سلف کا باہمی حسد وبغض ثابت کرکے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا توسب کے لیے یہ عقیدہ ہے : ﴿تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ﴾(البقرة: 134) رحمہم اللہ اجمعین۔ آمین۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیرفقیہ قراردینا خود ان لکھنے والوں کے زودرنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): One day while the Prophet (ﷺ) was sitting in the company of some people, (The angel) Gabriel (ؑ) came and asked, "What is faith?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, 'Faith is to believe in Allah, His angels, (the) meeting with Him, His Apostles, and to believe in Resurrection." Then he further asked, "What is Islam?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "To worship Allah Alone and none else, to offer prayers perfectly, to pay the compulsory charity (Zakat) and to observe fasts during the month of Ramadan." Then he further asked, "What is Ihsan (perfection)?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "To worship Allah as if you see Him, and if you cannot achieve this state of devotion then you must consider that He is looking at you." Then he further asked, "When will the Hour be established?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "The answerer has no better knowledge than the questioner. But I will inform you about its portents. 1. When a slave (lady) gives birth to her master. 2. When the shepherds of black camels start boasting and competing with others in the construction of higher buildings. And the Hour is one of five things which nobody knows except Allah. The Prophet (ﷺ) then recited: "Verily, with Allah (Alone) is the knowledge of the Hour--." (31. 34) Then that man ( Gabriel (ؑ) ) left and the Prophet (ﷺ) asked his companions to call him back, but they could not see him. Then the Prophet (ﷺ) said, "That was Gabriel (ؑ) who came to teach the people their religion." Abu 'Abdullah said: He (the Prophet) considered all that as a part of faith.