باب: مکہ اور اس کے علاوہ دوسرے مقامات میں سترہ کا حکم۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Sutra (for the prayer)in Makkah and elsewhere)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
501.
حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو رکعات پڑھائیں اور آپ نے دوران نماز میں اپنے سامنے ایک چھوٹا نیزہ کھڑا کر لیا۔ جب آپ نے وضو کیا تو لوگ آپ کے وضو کے پانی کو اپنے منہ پر ملنے لگے۔
تشریح:
1۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے بطور خاص مکے کا ذکر ایک مغالطے کو دور کرنے کے لیے کیا ہے کہ سترہ بمنزلہ قبلہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی طرف منہ کرتے ہیں اور یہ مناسب نہیں کہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز قبلے کا مقام حاصل کرے، لہٰذا مکے میں سترے کی ضرورت نہیں، گویا وہ کہناچاہتے ہیں کہ ایک مقام پر دو قبلے نہیں ہوسکتے کہ ایک قبلہ تو سترہ ہو اور دوسرا قبلہ خانہ کعبہ، حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ امام بخاری ؒ اس وہم کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ مکے میں بھی سترے کی ضرورت ہے۔ حافظ ابن حجرؒ مزید لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تو امام بخاری ؒ نے محدث عبدالرزاق کے ایک باب کی تردید کی ہے۔ جو انھوں نے اپنی مصنف میں قائم کیا ہے کہ مکے میں کوئی چیز نماز کو توڑ نہیں سکتی، لہٰذا وہاں سترے کی ضرورت نہیں۔ پھر انھوں نے حدیث ابن جریج ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے کوئی سترہ نہیں تھا۔ لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے۔ اس روایت کو اصحاب السنن نے بھی بیان کیا ہے۔ اس کے راوی بھی ثقہ ہیں، لیکن یہ روایت معلول ہے، کیونکہ اس روایت کو کثیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے نہیں سنا، بلکہ اپنے کسی گھر والے سے سنی ہے، وہ میرے دادا سے بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کےذریعے سے مذکورہ روایت کے ضعف پرتنبیہ کی ہے اوربتایا ہے کہ مشروعیت سترہ کے متعلق مکہ اور غیر مکہ میں کوئی فرق نہیں اور اپنے استدلال میں حدیث ابی جحیفہ ؓ پیش کی ہے۔ شوافع کا بھی یہی مشہور مسلک ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا مکہ اور غیر مکہ سب جگہ ممنوع ہے، البتہ بعض فقہاء نے طواف کرنے والوں کے لیے ضرورت کے پیش نظر گنجائش نکالی ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرسکتے ہیں، دوسروں کے لیے اس کی اجازت نہیں ہے۔ بعض حنابلہ نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو تمام مکہ میں جائز قراردیا ہے۔ (فتح الباري:745/1) اس سلسلے میں ہمار ا مؤقف یہ ہے کہ مسجد حرام میں بھی نمازی کے آگے سے گزرنا صحیح نہیں اور وہاں بھی سترے کی پابندی ضروری ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو پیش کیا ہے۔ 2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ مؤلف نے یہ باب اس خیال کی تردید کے لیے قائم کیا ہے کہ اگر مسجد حرام میں سترے کی پابندی کرنی ہو تو اس سے لوگوں کو تنگی ہوگی، کیونکہ وہاں سب لوگ عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، کوئی نماز پڑھتا ہے تو کوئی طواف کرتا ہے، اس لیے وہاں سترے کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن مؤلف نے اس عنوان سے اس خیال کی تردید فرمائی اور مکہ مکرمکہ میں بھی سترے کی ضرورت کو بیان فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
496
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
501
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
501
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
501
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
سترے کی حقیقت یہ ہے کہ نمازی اپنے لیے اس کے ذریعے سے حد بندی کرتا ہے کہ یہاں تک کی جگہ محفوظ ہے۔اس جگہ اللہ کی رحمت نزول ہورہا ہے اور یہی میری توجہ کا مرکز ہے۔یہاں سے گزرنادرست نہیں۔اس کادوسرا فائدہ ربط خیال ہے یعنی نمازی دوران نماز میں اس کے ذریعے سے اپنے خیالات کو منتشر ہونے سے محفوظ کرلیتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ سترے کی مذکورہ حقیقت کے پیش نظر سترے کے لیے مکہ اور غیر مکہ کی تفریق درست نہیں۔
حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو رکعات پڑھائیں اور آپ نے دوران نماز میں اپنے سامنے ایک چھوٹا نیزہ کھڑا کر لیا۔ جب آپ نے وضو کیا تو لوگ آپ کے وضو کے پانی کو اپنے منہ پر ملنے لگے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے بطور خاص مکے کا ذکر ایک مغالطے کو دور کرنے کے لیے کیا ہے کہ سترہ بمنزلہ قبلہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی طرف منہ کرتے ہیں اور یہ مناسب نہیں کہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز قبلے کا مقام حاصل کرے، لہٰذا مکے میں سترے کی ضرورت نہیں، گویا وہ کہناچاہتے ہیں کہ ایک مقام پر دو قبلے نہیں ہوسکتے کہ ایک قبلہ تو سترہ ہو اور دوسرا قبلہ خانہ کعبہ، حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ امام بخاری ؒ اس وہم کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ مکے میں بھی سترے کی ضرورت ہے۔ حافظ ابن حجرؒ مزید لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تو امام بخاری ؒ نے محدث عبدالرزاق کے ایک باب کی تردید کی ہے۔ جو انھوں نے اپنی مصنف میں قائم کیا ہے کہ مکے میں کوئی چیز نماز کو توڑ نہیں سکتی، لہٰذا وہاں سترے کی ضرورت نہیں۔ پھر انھوں نے حدیث ابن جریج ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے کوئی سترہ نہیں تھا۔ لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے۔ اس روایت کو اصحاب السنن نے بھی بیان کیا ہے۔ اس کے راوی بھی ثقہ ہیں، لیکن یہ روایت معلول ہے، کیونکہ اس روایت کو کثیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے نہیں سنا، بلکہ اپنے کسی گھر والے سے سنی ہے، وہ میرے دادا سے بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کےذریعے سے مذکورہ روایت کے ضعف پرتنبیہ کی ہے اوربتایا ہے کہ مشروعیت سترہ کے متعلق مکہ اور غیر مکہ میں کوئی فرق نہیں اور اپنے استدلال میں حدیث ابی جحیفہ ؓ پیش کی ہے۔ شوافع کا بھی یہی مشہور مسلک ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا مکہ اور غیر مکہ سب جگہ ممنوع ہے، البتہ بعض فقہاء نے طواف کرنے والوں کے لیے ضرورت کے پیش نظر گنجائش نکالی ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرسکتے ہیں، دوسروں کے لیے اس کی اجازت نہیں ہے۔ بعض حنابلہ نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو تمام مکہ میں جائز قراردیا ہے۔ (فتح الباري:745/1) اس سلسلے میں ہمار ا مؤقف یہ ہے کہ مسجد حرام میں بھی نمازی کے آگے سے گزرنا صحیح نہیں اور وہاں بھی سترے کی پابندی ضروری ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو پیش کیا ہے۔ 2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ مؤلف نے یہ باب اس خیال کی تردید کے لیے قائم کیا ہے کہ اگر مسجد حرام میں سترے کی پابندی کرنی ہو تو اس سے لوگوں کو تنگی ہوگی، کیونکہ وہاں سب لوگ عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، کوئی نماز پڑھتا ہے تو کوئی طواف کرتا ہے، اس لیے وہاں سترے کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن مؤلف نے اس عنوان سے اس خیال کی تردید فرمائی اور مکہ مکرمکہ میں بھی سترے کی ضرورت کو بیان فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حکم بن عیینہ سے، انھوں نے ابوحجیفہ سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے اور آپ ﷺ نے بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ ﷺ کے سامنے عنزہ گاڑ دیا گیا تھا اور جب آپ ﷺ نے وضو کیا تو لوگ آپ ﷺ کے وضو کے پانی کو اپنے بدن پر لگا رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سترہ کے مسئلہ میں مکہ اور دوسرے مقامات میں کوئی فرق نہیں۔ مسند عبدالرزاق میں ایک حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ مسجد حرام میں بغیر سترہ کے نماز پڑھتے تھے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ضعیف سمجھا ہے۔ بطحامکہ کی پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔ ''والغرض من هذاالباب الرد علی من قال یجوز المرور دون السترة للطائفین للضرورة لالغیرهم''’’جو لوگ کعبہ کے طواف کرنے والوں کو نمازیوں کے آگے سے گزرنے کے قائل ہیں۔ حضرت امام ؒ یہ باب منعقد کرکے ان کا رد کرناچاہتے ہیں۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaifa (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came out at midday and offered a two-Rak'at Zuhr and 'Asr prayers at Al-Batha and an 'Anza was planted in front of him (as a Sutra). He performed ablution and the people took the remaining water left after his ablution and rubbed their bodies with it.