باب:اس شخص کی برائی میں جس نے دکھاوے یا شکم پروری یا فخر کے لیے قرآن مجید کو پڑھا۔
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The sin of the person who recites the Qur'an to show off or to gain some worldly benefit, or to feel proud etc)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5058.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا: تم میں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرو گے۔ تمھیں اپنے روزے ان کے رزوں کے مقابلے میں اپنے اعمال ان کے اعمال کے مقابلے میں معمولی نظر آئیں گے۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے شکاری اس کے پیکان کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ نہیں دیکھتا۔ وہ تیر کی لکڑی پر نظر کرتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا۔ وہ تیر کے پر کو دیکھتا ہے تو کوئی چیز نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے سوفار (چٹکی) میں شک کرتا ہے کہ شاید اس میں کوئی چیز ہو۔
تشریح:
1۔ ان احادیث میں خارجی لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ جو بے انتہا ریا کار اور دینی روپ میں فسق و فجور پھیلانے والے تھے۔ جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے وہی حال ان لوگوں کا ہو گا کہ اسلام میں آتے ہی اس سے باہر ہو جائیں گے۔ جس طرح تیر میں شکار کے خون وغیرہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہو گا اس کا کوئی اثر ان کے دلوں پر نہیں ہو گا۔ بظاہر دیندار لیکن ان کے دل نور ایمان سے یکسر خالی ہوں گے۔ 2۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب تلاوت قرآن غیر اللہ کے لیے ہوگی تو ریا کاری اور شکم پروری (پیٹ پالنا) ہی ان کا مقصد ہوگا۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعے سے جنت کا سوال کرو قبل اس کے کہ لوگ قرآن کی تعلیم کو ذریعہ معاش بنائیں گے کیونکہ قرآن کو تین قسم کے لوگ سیکھتے ہیں۔ ایک فخر و ریا کاری کےلیے۔ دوسرے شکم پروری کے لیے تیسرے محض اللہ کی رضا کے لیے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 258) بہر حال قرآن کریم کو محض اللہ کی رضا حاصل کرنے لیے پڑھنا اور سیکھنا چاہیے۔ (فتح الباري:126/9)
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا: تم میں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرو گے۔ تمھیں اپنے روزے ان کے رزوں کے مقابلے میں اپنے اعمال ان کے اعمال کے مقابلے میں معمولی نظر آئیں گے۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے شکاری اس کے پیکان کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ نہیں دیکھتا۔ وہ تیر کی لکڑی پر نظر کرتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا۔ وہ تیر کے پر کو دیکھتا ہے تو کوئی چیز نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے سوفار (چٹکی) میں شک کرتا ہے کہ شاید اس میں کوئی چیز ہو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ان احادیث میں خارجی لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ جو بے انتہا ریا کار اور دینی روپ میں فسق و فجور پھیلانے والے تھے۔ جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے وہی حال ان لوگوں کا ہو گا کہ اسلام میں آتے ہی اس سے باہر ہو جائیں گے۔ جس طرح تیر میں شکار کے خون وغیرہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہو گا اس کا کوئی اثر ان کے دلوں پر نہیں ہو گا۔ بظاہر دیندار لیکن ان کے دل نور ایمان سے یکسر خالی ہوں گے۔ 2۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب تلاوت قرآن غیر اللہ کے لیے ہوگی تو ریا کاری اور شکم پروری (پیٹ پالنا) ہی ان کا مقصد ہوگا۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعے سے جنت کا سوال کرو قبل اس کے کہ لوگ قرآن کی تعلیم کو ذریعہ معاش بنائیں گے کیونکہ قرآن کو تین قسم کے لوگ سیکھتے ہیں۔ ایک فخر و ریا کاری کےلیے۔ دوسرے شکم پروری کے لیے تیسرے محض اللہ کی رضا کے لیے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 258) بہر حال قرآن کریم کو محض اللہ کی رضا حاصل کرنے لیے پڑھنا اور سیکھنا چاہیے۔ (فتح الباري:126/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہیں محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے، انہیں ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسو ل کریم ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں ایک قوم ایسی پیدا ہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے، ان کے روزوں کے مقابلہ میں تمہیں اپنے روزے اور ان کے عمل کے مقابلہ میں تمہیں اپنا عمل حقیر نظر آئے گا اوروہ قرآن مجید کی تلاوت بھی کریں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے اور وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ (کہ تیر چلانے والا) تیر کے پھل میں دیکھتا ہے تو اس میں بھی (شکار کے خون وغیرہ کا) کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اس سے اوپر دیکھتا ہے وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ تیر کے پر پر دیکھتا ہے اور وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ بس سوفار میں کچھ شبہ گزرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
سوفار تیر کا وہ مقام جو چلہ سے لگایا جاتا ہے بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے راوی کو شک ہے کہ آپ نے سوفار کا ذکر کیا یا نہیں۔ معنی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے۔ وہی حال ان لوگوں کا ہوگا کہ اسلام میں آتے ہی باہر ہو جائیں گے اور جس طرح تیر شکار کے خون وغیرہ کا بھی کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہوگا۔ مراد ان سے خوارج ہیں جنہوں نے خلیفہ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ ظاہر میں بڑی دینداری کا دم بھر تے تھے لیکن دل میں ذرا بھی نور ایمان نہ تھا۔ ان ہی کے بارے میں حدیث ہذا میں یہ مضمون بیان ہوا۔ آج کل بھی ایسے لوگ بہت ہیں جو بے محل آیات قرآنی کا استعمال کر کے امت کے مسلمہ مسائل کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں۔ وہ در حقیقت اس حدیث کے مصداق ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "There will appear some people among you whose prayer will make you look down upon yours, and whose fasting will make you look down upon yours, but they will recite the Qur'an which will not exceed their throats (they will not act on it) and they will go out of Islam as an arrow goes out through the game whereupon the archer would examine the arrowhead but see nothing, and look at the unfeathered arrow but see nothing, and look at the arrow feathers but see nothing, and finally he suspects to find something in the lower part of the arrow."