Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Al-Ghaira (i.e. honour, prestige or self-respect))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور وراد (مغیرہ کے منشی) نے مغیرہ سے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ ؓنے نبی کریم ﷺسے عرض کیا کہ میں تو اپنی بیوی کے ساتھ اگر کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو اسے اپنی تلوار سے فوراً قتل کر ڈالوں اس کو دھار سے نہ کہ چوڑی طرف سے صرف ڈرانے کے لیے (بلکہ اس کا معاملہ ہی ختم کر ڈالوں)۔ اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعدؓ کی غیرت پر حیرت ہو گی اللہ کی قسم! مجھ کو اس سے بڑھ کر غیرت ہے اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔تشریح:ہوا یہ تھا کہ جب آیت (والذین یرمون المحصنات الایۃ) (النور:6)نازل ہوئی جس کا مطب یہ تھا جو لوگ آزاد بیویوں پر بہتان لگائیں اور وہ ان پر گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ اس وقت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ!اس آیت میں تو یہ حکم اترا ہے میں تو اگر حرام کام کو دیکھوں تو نہ جھڑکوں نہ چار گواہ لاؤں بلکہ اسے فوراً ہی ٹھکانے لگا دوں میں اتنے گواہ لاؤں گا تو وہ تو زنا کر کے چل دے گا اس پر آنحضرت ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ تم اپنے سردار کی غیرت کی باتیں سن رہے ہو انصار بولے یا رسول اللہ ﷺ ان کے مزاج میں بہت غیرت ہے اس کو ملامت نہ کیجئے‘اس نے ہمیشہ کنواری سے نکاح کیا اور جب اسے طلاق دے دی تو اس کی غیرت کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو یہ جرأن نہ ہو سکی کہ اس عورت سے نکاح کر سکے۔
5224.
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا زبیر ؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس پانی لانے والے ایک اوںٹ اور ایک گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، الغرض کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کے گھوڑےکو چارہ ڈالتی اور پانی پلاتی تھی نیز ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ میری ہمسائیاں انصاری عورتیں روٹیاں پکا دیتی تھیں۔ وہ بڑی اچھی اور با وفا خواتین تھیں۔ سیدنا زبیر ؓ کی وہ زمین جو رسول اللہ ﷺ نےانہیں دی تھی، میں وہاں سے اپنے گھر دو میل کے فاصلے پر تھی، ایک روز میں آ رہی تھی جبکہ گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہو گئی۔ آپ کے ہمراہ قبیلہ انصار کے چند لوگ بھی تھے۔ آپ نے بلایا اور اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے اخ اخ کیا۔ آپ چاہتے تھے کہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ہمراہ چلنے میں شرم محسوس ہوئی اور سیدنا زبیر ؓ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ سیدنا زبیر ؓ بہت ہی با غیرت انسان تھے۔ رسول اللہ ﷺ آ گے بڑھ گئے، اس کے بعد میں سیدنا زبیر ؓ کے پاس آئی ان سے واقعے کا ذکر کیا کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات ہوئی تھی جبکہ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں۔ آپ کے ہمراہ چند صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ نے مجھے سوار کرنے کے لیے اپنا اونٹ بٹھایا لیکن مجھے شرم دامن گیر ہوئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ سیدنا زبیر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا سر پر گٹھلیاں اٹھانا مجھ پر آپ ﷺ کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ گراں تھا۔ وہ سیدنا ابو بکر ؓ نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا، وہ گھوڑے کے متعلق سب کام کرنے لگا اور میں بے فکر ہو گئی گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ایک قطعۂ ارضی الاٹ کیا تھا، وہ اس کے مالک نہ تھے بلکہ اس سے حاصل شدہ منافع لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے اسے مستثنیٰ نہیں کیا، حالانکہ یہ سہولیات بھی انھیں مدینہ طیبہ میں میسر تھیں۔ (2) اس حدیث میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا ذکر ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے میں کوئی عار نہ تھی اور نہ یہ غیرت ہی کے منافی تھا، البتہ سر پر گٹھلی اٹھانے میں لوگ ذلت و خواری محسوس کرتے ہیں اور اسے قلت غیرت پر محمول کرتے ہیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے شوہر نامدار جہاد میں مصروف رہتے تھے، اس لیے گھر اور باہر کا کام کاج حضرت اسماء رضی اللہ عنہ خود کرتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن امور کا شوہر محتاج ہو، انھیں بجالانا بیوی کی ذمہ داری ہے۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5023
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5224
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5224
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5224
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
غیرت، تغیر قلب سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں:غصے کا غلبہ جو کسی مخصوص چیز میں شرکت کی وجہ سے ہوتا ہے۔لوگوں میں سب سے زیادہ غیور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ میاں بیوی میں غیرت بہت زیادہ ہوتی ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح میں اسے بیان کیا ہے۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت کا سن کر انصار بولے:اللہ کے رسول! ہمارے سردار کے مزاج میں واقعی بہت غیرت ہے۔آپ انھیں ملامت نہ کریں۔انھوں نے ہمیشہ کنواری لڑکی سے شادی کی۔جب کسی بیوی کو طلاق دیتے ہیں تو ان کی غیرت کی وجہ سے ہم میں کسی کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ ان کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرے۔(فتح الباری: 9/398)
اور وراد (مغیرہ کے منشی) نے مغیرہ سے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ ؓنے نبی کریم ﷺسے عرض کیا کہ میں تو اپنی بیوی کے ساتھ اگر کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو اسے اپنی تلوار سے فوراً قتل کر ڈالوں اس کو دھار سے نہ کہ چوڑی طرف سے صرف ڈرانے کے لیے (بلکہ اس کا معاملہ ہی ختم کر ڈالوں)۔ اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعدؓ کی غیرت پر حیرت ہو گی اللہ کی قسم! مجھ کو اس سے بڑھ کر غیرت ہے اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔تشریح:ہوا یہ تھا کہ جب آیت (والذین یرمون المحصنات الایۃ) (النور:6)نازل ہوئی جس کا مطب یہ تھا جو لوگ آزاد بیویوں پر بہتان لگائیں اور وہ ان پر گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ اس وقت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ!اس آیت میں تو یہ حکم اترا ہے میں تو اگر حرام کام کو دیکھوں تو نہ جھڑکوں نہ چار گواہ لاؤں بلکہ اسے فوراً ہی ٹھکانے لگا دوں میں اتنے گواہ لاؤں گا تو وہ تو زنا کر کے چل دے گا اس پر آنحضرت ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ تم اپنے سردار کی غیرت کی باتیں سن رہے ہو انصار بولے یا رسول اللہ ﷺ ان کے مزاج میں بہت غیرت ہے اس کو ملامت نہ کیجئے‘اس نے ہمیشہ کنواری سے نکاح کیا اور جب اسے طلاق دے دی تو اس کی غیرت کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو یہ جرأن نہ ہو سکی کہ اس عورت سے نکاح کر سکے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا زبیر ؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس پانی لانے والے ایک اوںٹ اور ایک گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، الغرض کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کے گھوڑےکو چارہ ڈالتی اور پانی پلاتی تھی نیز ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ میری ہمسائیاں انصاری عورتیں روٹیاں پکا دیتی تھیں۔ وہ بڑی اچھی اور با وفا خواتین تھیں۔ سیدنا زبیر ؓ کی وہ زمین جو رسول اللہ ﷺ نےانہیں دی تھی، میں وہاں سے اپنے گھر دو میل کے فاصلے پر تھی، ایک روز میں آ رہی تھی جبکہ گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہو گئی۔ آپ کے ہمراہ قبیلہ انصار کے چند لوگ بھی تھے۔ آپ نے بلایا اور اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے اخ اخ کیا۔ آپ چاہتے تھے کہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ہمراہ چلنے میں شرم محسوس ہوئی اور سیدنا زبیر ؓ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ سیدنا زبیر ؓ بہت ہی با غیرت انسان تھے۔ رسول اللہ ﷺ آ گے بڑھ گئے، اس کے بعد میں سیدنا زبیر ؓ کے پاس آئی ان سے واقعے کا ذکر کیا کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات ہوئی تھی جبکہ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں۔ آپ کے ہمراہ چند صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ نے مجھے سوار کرنے کے لیے اپنا اونٹ بٹھایا لیکن مجھے شرم دامن گیر ہوئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ سیدنا زبیر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا سر پر گٹھلیاں اٹھانا مجھ پر آپ ﷺ کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ گراں تھا۔ وہ سیدنا ابو بکر ؓ نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا، وہ گھوڑے کے متعلق سب کام کرنے لگا اور میں بے فکر ہو گئی گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ایک قطعۂ ارضی الاٹ کیا تھا، وہ اس کے مالک نہ تھے بلکہ اس سے حاصل شدہ منافع لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے اسے مستثنیٰ نہیں کیا، حالانکہ یہ سہولیات بھی انھیں مدینہ طیبہ میں میسر تھیں۔ (2) اس حدیث میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا ذکر ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے میں کوئی عار نہ تھی اور نہ یہ غیرت ہی کے منافی تھا، البتہ سر پر گٹھلی اٹھانے میں لوگ ذلت و خواری محسوس کرتے ہیں اور اسے قلت غیرت پر محمول کرتے ہیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے شوہر نامدار جہاد میں مصروف رہتے تھے، اس لیے گھر اور باہر کا کام کاج حضرت اسماء رضی اللہ عنہ خود کرتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن امور کا شوہر محتاج ہو، انھیں بجالانا بیوی کی ذمہ داری ہے۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
وراد نے حضرت مغیرہ ؓس بیان کیا کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓنے (رسول اللہ ﷺ) سے کہا: اگر میں کسی آدمی کو اپنی بیوی کےے ساتھ دیکھ لوں تو ذرہ بھر در گزر کیے بغیر اسے فوراً قتل کردوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: تم سعد کی غیرت پر اظہار حیرت کرتے ہو، میں اس سے بڑھ کر غیرت مند ہوں، اللہ کی قسم ! ”اللہ تعالٰی مجھ سے زیادہ غیور ہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ زبیر ؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ انصار کی کچھ لڑکیاں میری روٹی پکا جاتی تھیں۔ یہ بڑی سچی اور با وفا عورتیں تھیں۔ زبیر ؓ کی وہ زمین جو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہو گئی۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ قبیلہ انصار کے کئی آدمی تھے۔ آنحضرت ﷺ نے مجھے بلایا۔ پھر (اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لئے) کہا۔ اخ اخ، آنحضرت ﷺ چاہتے تھے کہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر ؓ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیر ؓ بڑے ہی باغیرت تھے۔ حضور اکرم ﷺ بھی سمجھ گئے کہ میں شرم محسوس کر رہی ہوں۔ اس لئے آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں زبیر ؓ کے پاس آئی اور ان سے واقعہ کا ذکر کیا کہ آنحضور ﷺ سے میری ملاقات ہو گئی تھی ۔ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں اور آنحضور ﷺ کے ساتھ آپ کے چند صحابہ بھی تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا اونٹ مجھے بٹھانے کے لئے بٹھایا لیکن مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ اس پر زبیر نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھ کو تو اس سے بڑا رنج ہوا کہ تو گٹھلیاں لانے کے لئے نکلے اگر تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ سوار ہو جاتی تو اتنی غیرت کی بات نہ تھی (کیونکہ اسماءؓ آپ کی سالی اور بھاوج دونوں ہوتی تھیں) اس کے بعد میرے والد ابوبکر ؓ نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا وہ گھوڑے کا سب کام کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی گویا والد ماجد ابوبکر ؓ نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ حجاب کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے خاص تھا اور ظاہر یہ ہے کہ یہ واقعہ حجاب (پردہ) کا حکم اترنے سے پہلے کا ہے اور عورتوں کی ہمیشہ یہ عادت رہی ہے کہ وہ اپنے منہ کو بیگانے مردوں سے ڈھانکتی یعنی گھونگٹ کرتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma' bint Abu Bakr (RA) : When Az-Zubair married me, he had no real property or any slave or anything else except a camel which drew water from the well, and his horse. I used to feed his horse with fodder and drew water and sew the bucket for drawing it, and prepare the dough, but I did not know how to bake bread. So our Ansari neighbors used to bake bread for me, and they were honorable ladies. I used to carry the date stones on my head from Zubair's land given to him by Allah's Apostle (ﷺ) and this land was two third Farsakh (about two miles) from my house. One day, while I was coming with the date stones on my head, I met Allah's Apostle (ﷺ) along with some Ansari people. He called me and then, (directing his camel to kneel down) said, "Ikh! Ikh!" so as to make me ride behind him (on his camel). I felt shy to travel with the men and remembered Az-Zubair and his sense of Ghira, as he was one of those people who had the greatest sense of Ghira. Allah's Apostle (ﷺ) noticed that I felt shy, so he proceeded. I came to Az-Zubair and said, "I met Allah's Apostle (ﷺ) while I was carrying a load of date stones on my head, and he had some companions with him. He made his camel kneel down so that I might ride, but I felt shy in his presence and remembered your sense of Ghira (See the glossary). On that Az-Zubair said, "By Allah, your carrying the date stones (and you being seen by the Prophet (ﷺ) in such a state) is more shameful to me than your riding with him." (I continued serving in this way) till Abu Bakr (RA) sent me a servant to look after the horse, whereupon I felt as if he had set me free.