Sahi-Bukhari:
Divorce
(Chapter: To carry out Li'an in a Mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5309.
سیدنا سہل بن سعد ؓ جو بنو ساعدہ سے ہیں، ان سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا کہتے ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہئے؟ تو اس وقت اللہ تعالٰی نے قرآن مجہد میں وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کرنے والوں کے متعلق تفصیلات ہیں۔ نبی ﷺ نے (ان سے) فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے۔“ پھر میاں بیوی دونوں نے مسجد میں لعان کیا۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی چانچہ لعان سے فراغت کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اس نے تین طلاقیں دے دیں اور نبی ﷺ کی موجودگی ہی میں وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ راوی نے کہا: ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا یہی طریقہ مقرر ہوا۔ ابن شہاب نے کہا: ان نے بعد یہی طریقہ متعین ہوا کہ لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی جائے۔ اور وہ حاملہ تھی اور اس کے بیٹے کو ماں کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ پھر ایسی عورت کی وراثت کے متعلق بھی یہی طریقہ مقرر ہوا کہ بچہ اس کا وارث ہوگا اور وہ بچے کی وراث ہوگی اس تفصیل کی مطابق جو اللہ تعالٰی نے وراثت کے سلسلے میں مقرر کی ہے سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ عورت اس حمل سے سرخ رنگ والا پست قد بچہ جنم دے، گویا وہ سام ابرص ہے تو میں سمجھوں گا کہ عورت سچی تھی اور اس کے شوہر نے آنکھوں والا اور موٹے سرینوں والا بچہ جنا تو میں خیال کروں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق صحیح کہاتھا۔“ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ بری شکل کا تھا، یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بڑے بڑے معاملات کا فیصلہ بڑی بڑی مساجد میں ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو ان کی اہمیت کا علم ہو، اس لیے مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس، مکہ مکرمہ میں حجرا سود اور مقام ابراہیم کے درمیان، مسجد قدس میں صخره کے نزدیک اور ان کے علاوہ دیگر مقامات پر شہر کی بڑی بڑی مساجد میں اس کا اہتمام ہونا چاہیے، اسی طرح لعان کا معاملہ عصر کے بعد نمٹایا جائے کیونکہ اس وقت میں جھوٹی قسم اٹھانا بہت خطرناک اور مشکل معاملہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لعان مسجد میں ہونا چاہیے ہاں، اگر عورت حائضہ ہے تو مسجد کے دروازے پر اس کا اہتمام کیا جائے کیونکہ حائضہ عورت کا مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں۔ (عمدةالقاري: 324/14) (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے احناف کی تردید کی ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک مسجد میں لعان ضروری نہیں بلکہ یہ حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہےوہ جہاں چاہے اس کا اہتمام کر سکتا ہے۔ (فتح الباري: 560/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5105
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5309
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5309
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5309
تمہید کتاب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے رشتۂ نکاح قائم کرنے اور پھر اسے باقی رکھنے کے لیے جو قانونی،اخلاقی اور شرعی ہدایا ت تھیں انھیں بیان کیا تھا۔چونکہ وجود کے اعتبار سے نکاح، طلاق سے پہلے ہوتا ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام ومسائل کے بیان کو بھی اسی اعتبار سے ملحوظ رکھا ہے،اس لیے اب طلاق کے متعلق شرعی ہدایات بیان کی جائیں گی۔ طلاق کے لغوی معنی بندھن کھولنا ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس گرہ اور بندھن (عقد) کے کھول دینے کو طلاق کہتے ہیں جو نکاح کے ذریعے سے لگائی گئی تھی۔یہ دور جاہلیت کی اصطلاح ہے جسے اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کبھی طلاق ناجائز ہوتی ہے،جیسے دوران حیض میں طلاق دی جائے یا بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی جائیں اور کبھی مکروہ جو بلا سبب محض شہوت رانی اور نئی دلھن کی ہوس میں ہو جبکہ حالات بھی ساز گار ہوں۔بعض اوقات طلاق واجب ہوتی ہے،جب بیوی اور خاوند کے درمیان اس حد تک مخالفت ہو کہ کسی طرح بھی اتفاق ممکن نہ ہو اور فریقین کے نمائندے طلاق ہونے کو ہی مناسب خیال کریں۔کبھی مستحب بھی ہوتی ہے،جب عورت نیک چلن نہ ہو اور کبھی طلاق جواز کے درجے میں ہوتی ہے،جب بیوی کی طرف دلی آمادگی نہ ہو اور خاوند اس کا خرچہ وغیرہ ناپسند اور اسے بے فائدہ خیال کرے۔(فتح الباری: 9/430) زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ہمارے دین میں موجود نہ ہو جبکہ باقی ادیان میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی،چنانچہ یہودی مذہب میں خاوند کو صرف تحریری شکل میں طلاق دینے کا حق ہے۔اس کے بغیر زبانی طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے،نیز طلاق کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کی قطعاً اجازت نہیں۔اس کے برعکس عیسائی اور ہندو مذہب میں انتہائی سنگین حالات میں بھی خاوند کو طلاق دینے کا حق نہیں جبکہ دین اسلام اس قسم کی افراط وتفریط سے بالا ہوکر ایک معتدل راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔اگر ہم اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں تو زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس اعتدال کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے،پھر خاوند کو بیوی کے لیے اور بیوی کو خاوند کے لیے سکون واطمینان کا ذریعہ بنایا ہے،اس طرح دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی اور دونون میں اس قدر محبت رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر فدا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔اسی جذبہ فدائیت کا نتیجہ ہے کہ دونوں اپنے مقدس رشتے کو زندگی بھر نبھانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔٭اس رشتے کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کو سرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آئندہ اختلاف اور علیحدگی کا باعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: "تو نے اسے دیکھا ہے؟" میں نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: "اسے دیکھ لو اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہوجائے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1865)٭نکاح کے بعد خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اور رواداری سے پیش آئے اور اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔"(النساء: 4/19) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہوں۔"(مسند احمد: 2/250)٭خاوند کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کو خاطر میں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتا رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔"(النساء: 4/19)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہ رکھے،اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔"(مسند احمد: 2/329)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو عورت کی فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھے جس پر وہ آئندہ نادم وپریشان ہو،آپ نے فرمایا: "عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہوتو اس ٹیڑھ کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔"(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5184)صحیح مسلم میں ہے: " اس کا توڑ دینا اسے طلاق دینا ہے۔"(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3643 (715))٭خاوند اس بات کا بھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیز دیکھے تو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ ممکن حد تک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں:٭پہلا قدم یہ ہے کہ بیوی کو نرمی سے سمجھایا جائے اور اسے اس کے اختیار کیے ہوئے رویے کے انجام سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا خراب نہ کرے۔٭اگر خاوند کے سمجھانے بجھانے کا اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سونا شروع کردے اور اس سے میل جول بند کردے۔اگر بیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تو وہ اس کی سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔٭اگر خاوند کے اس اقدام پر بیوی کو ہوش نہیں آتا تو پھر آخری حربے کے طور پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭مارتے وقت اسے برا بھلا نہ کہا جائے اور گالی گلوچ نہ دی جائے۔٭اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔(مسند احمد: 2/251، و سنن ابی داود، حدیث: 2142)ایسی مار نہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یا نشان پڑجائیں۔(مسند احمد: 5/72، 73)ان حدودوقیود کے ساتھ خاوند کو بحالت مجبوری بیوی کو احتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔٭ایسے حالات میں بیوی کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنا مقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیا ہے۔خاوند اس کے لیے جنت ہے اور وہی اس کے لیے آگ بھی ہے۔(مسند احمد: 4/341)نیز جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حور کہتی ہے:اللہ تجھے برباد کردے!اسے تکلیف نہ دے۔یہ تو تیرے پاس مہمان ہے۔عنقریب یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے ہاں آجائے گا۔(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 2014)٭اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیار کرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگر ثابت نہ ہوں تو فریقین اپنے اپنے خاندان مین سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورت حال سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اور بروقت مداخلت کرکے حالات پر کنٹرول کریں۔اگر ان کی نیت بھلائی کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں موافقت کی ضرور کوئی راہ پیدا کردے گا۔یہ ثالث میاں بیوی کی طرف سے ایک ایک،دو،دو اور تین تین بھی ہوسکتے ہیں۔جو بات بھی میاں بیوی کو تسلیم ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔(النساء: 4/35)٭اگر مذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہ آئے تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانے میں ہروقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور دونوں میاں بیوی کے لیے وہ گھر جہنم بنا رہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں،خواہ مرد طلاق دےدے یا عورت خلع لےلے،پھر دونوں کا اللہ مالک ہے،وہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیدا کردے گا۔(النساء: 4/130)لیکن مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا:٭ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے،لیکن شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے۔طلاق دینے والے کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صرف تین اختیارات دیے ہیں۔وقفے وقفے سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کا اختیار بھی اسے دیا گیا ہے اور تیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے،اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔٭طلاق دیتے وقت اسے دیکھنا ہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اور کسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس طہر میں بیوی سے ہم بستری بھی نہ کی ہو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: "بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دو جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔"(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4908)٭ حالت حمل میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں یہ بات غلط مشہور ہوچکی ہے کہ دوران حمل میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے: "اسے حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دو،یہ طلاق جائز اور مباح ہے۔"(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659 (1471))٭ شریعت نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے،عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ خود طلاق دے تاکہ کم عقلی کی بنا پر فطرتی جلد بازی میں کسی معمولی سی بات پر یہ اقدام نہ کربیٹھے۔٭اگر خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا عزم کرلیا ہے تو قرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق وہ صرف ایک طلاق دے ،خواہ وہ تحریر کرکے دے یازبانی کہے۔اس کے بعد بیوی کو اس کے حال پر چھوڑے دے تاکہ سوچ بچار کے راستے بند نہ ہوں اور فریقین سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اپنے آخری اقدام پر غوروفکر کرسکیں۔ایسے حالات میں بیک وقت تین طلاقیں دینے سے شریعت نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی تھیں تو آپ نے فرمایا: "میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔"آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ ایک آدمی آپ کا اظہار ناراضی دیکھ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں،(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)تاہم ایسا اقدام کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3435)٭ ایک طلاق دینے کے بعد رشتۂ ازدواج ختم نہیں ہوتا بلکہ دوران عدت میں اگر میاں بیوی سے کوئی فوت ہوجائے تو انھیں ایک دوسرے کی وراثت سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔بہرحال خاوند کو شریعت نے ہدایت کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الایہ کہ وہ کسی واضح برائی کی مرتکب ہوں۔(الطلاق: 65/1)٭طلاق کے بعد عورت نے عدت کے دن گزارنے ہیں جن کا شمار انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس پر کئی ایک نازک اور قانونی مسائل کا انحصار ہے۔مختلف حالات کے پیش نظر عدت کے ایام بھی مختلف ہیں،جس کی تفصیل یہ ہے:٭نکاح کے بعد اگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تو ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔(الاحزاب: 33/49)٭مطلقہ بیوی اگر حمل سے ہوتو اس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے۔(الطلاق: 65/4)٭اگر حمل کے بغیر حیض منقطع ہے،یہ انقطاع بچپن،بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے تو ایسے حالات میں تین قمری مہینے عدت کے طور پر گزارنے ہوں گے۔اگر مہینوں کا شمار نہ ہوسکے تو 90دن پورے کیے جائیں۔اگر عورت کو ایام آتے ہوں تو تین حیض مکمل کرنا ہوں گے۔(البقرۃ: 2/228)ایسی صورت حال کے پیش نظر تین ماہ یا نوے دن پورے کرنے کی ضرورت نہیں۔٭دوران عدت میں خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے بسانے اور آباد کرنے کی نیت ہو اسے روک کر مزید تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو۔(البقرۃ: 2/231)اس رجوع کے لیے کسی قسم کے کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر عدت گزرجائے تو بھی نئے سرے سے نکاح کرکے اپنا گھر آباد کیا جاسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/232) لیکن اس نکاح کے لیے عورت کی رضامندی،سرپرست کی اجازت،حق مہر کی تعیین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے،نیز رجوع کا حق پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔٭اگر رجوع کا پروگرام نہ ہوتو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود آزاد ہوجائے گی۔اس کے لیے کسی مزید اقدام کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں اسے الزام تراشی یا بدتمیزی سے رخصت نہ کیا جائے بلکہ اس سلسلے میں اس کے جو حقوق ہیں انھیں فیاضی سے ادا کیا جائے۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ مطلقہ عورتوں کو بھی معروف طریقے سے کچھ دے کر رخصت کرو۔ایسا کرنا اہل تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔(البقرۃ: 2/241)٭ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو رشتۂ ازدواج ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتا ہے،تاہم عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہوسکے گا۔اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طور پر نہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی اور آدمی سے نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری کے بعد اسے اپنی مرضی سے طلاق دے یا فوت ہوجائے تو عدت طلاق یا عدت وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/230)٭اگر عورت خاوند کی طرف سے بے اتفاقی کا شکار ہے اور وہ طلاق دے کر اسے فارغ بھی نہیں کرتا تو ایسی حالت میں عورت کو اختیار ہے کہ وہ بذریعۂ عدالت اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے یا خود اس سے کوئی معاملہ طے کرکے طلاق حاصل کرلے،جیسا کہ خلع میں ہوتا ہے۔(البقرۃ: 2/229)امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف طلاق کے مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ خلع،لعان اور اظہار کے متعلق بہت سی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔اس سلسلے میں آپ نے ایک سواٹھارہ(118)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چھبیس(26) معلق اور باقی بانوے(92) متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں بانوے(92)مکرر اور باقی چھبیس(26) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ آپ نے مختلف مسائل کے استنباط کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کے نوّے(90)آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ان احادیث وآثار پر آپ نے تریپن(53)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی فقہی بصیرت اور ناقدانہ نظر کا پتا چلتا ہے۔آخر میں آپ نے عدت اور اس کی اقسا م،پھر اس کے آداب،نیز مہر کے متعلق احکام ومسائل بھی بیان کیے ہیں۔اللہ کی توفیق سے ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے اختیار کیے ہوئے موقف کو واضح کرنے کے لیے جابجا نوٹ لکھے ہیں۔اگر ان میں کوئی کام کی چیز ہے تو وہاں صرف اللہ کا فضل کار فرما ہے اور اگر کوئی غلط بات نوک قلم پر آگئی ہے تو وہ ہماری کم فہمی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن محدثین کی جماعت میں سے اٹھائے اور خدام حدیث کی فہرست میں شامل کرے۔آمين يا رب العالمين
سیدنا سہل بن سعد ؓ جو بنو ساعدہ سے ہیں، ان سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا کہتے ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہئے؟ تو اس وقت اللہ تعالٰی نے قرآن مجہد میں وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کرنے والوں کے متعلق تفصیلات ہیں۔ نبی ﷺ نے (ان سے) فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے۔“ پھر میاں بیوی دونوں نے مسجد میں لعان کیا۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی چانچہ لعان سے فراغت کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اس نے تین طلاقیں دے دیں اور نبی ﷺ کی موجودگی ہی میں وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ راوی نے کہا: ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا یہی طریقہ مقرر ہوا۔ ابن شہاب نے کہا: ان نے بعد یہی طریقہ متعین ہوا کہ لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی جائے۔ اور وہ حاملہ تھی اور اس کے بیٹے کو ماں کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ پھر ایسی عورت کی وراثت کے متعلق بھی یہی طریقہ مقرر ہوا کہ بچہ اس کا وارث ہوگا اور وہ بچے کی وراث ہوگی اس تفصیل کی مطابق جو اللہ تعالٰی نے وراثت کے سلسلے میں مقرر کی ہے سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ عورت اس حمل سے سرخ رنگ والا پست قد بچہ جنم دے، گویا وہ سام ابرص ہے تو میں سمجھوں گا کہ عورت سچی تھی اور اس کے شوہر نے آنکھوں والا اور موٹے سرینوں والا بچہ جنا تو میں خیال کروں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق صحیح کہاتھا۔“ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ بری شکل کا تھا، یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بڑے بڑے معاملات کا فیصلہ بڑی بڑی مساجد میں ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو ان کی اہمیت کا علم ہو، اس لیے مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس، مکہ مکرمہ میں حجرا سود اور مقام ابراہیم کے درمیان، مسجد قدس میں صخره کے نزدیک اور ان کے علاوہ دیگر مقامات پر شہر کی بڑی بڑی مساجد میں اس کا اہتمام ہونا چاہیے، اسی طرح لعان کا معاملہ عصر کے بعد نمٹایا جائے کیونکہ اس وقت میں جھوٹی قسم اٹھانا بہت خطرناک اور مشکل معاملہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لعان مسجد میں ہونا چاہیے ہاں، اگر عورت حائضہ ہے تو مسجد کے دروازے پر اس کا اہتمام کیا جائے کیونکہ حائضہ عورت کا مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں۔ (عمدةالقاري: 324/14) (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے احناف کی تردید کی ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک مسجد میں لعان ضروری نہیں بلکہ یہ حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہےوہ جہاں چاہے اس کا اہتمام کر سکتا ہے۔ (فتح الباري: 560/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے لعان کے بارے میں اور یہ کہ شریعت کی طرف سے اس کا سنت طریقہ کیا ہے، خبر دی بنی ساعدہ کے سہل بن سعد ؓ نے، انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہیئے؟ انہیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی وہ آیت نازل کی جس میں لعان کرنے والوں کے لیے تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کر دیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر دونوں نے مسجد میں لعان کیا، میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی۔ چنانچہ لعان سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے آنحضرت ﷺ کے حکم سے پہلے ہی انہیں تین طلاقیں دے دیں۔ حضور اکرم ﷺ کی موجودگی میں ہی انہیں جدا کر دیا۔ (سہل نے یا ابن شہاب نے) کہا کہ ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان یہی جدائی کا سنت طریقہ مقرر ہوا۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ان کے بعد شریعت کی طرف سے طریقہ یہ متعین ہوا کہ دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جایا کرے۔ اور وہ عورت حاملہ تھی۔ اور ان کا بیٹا اپنی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ بیان کیا کہ پھر ایسی عورت کے میراث کے بارے میں بھی یہ طریقہ شریعت کی طرف سے مقرر ہو گیا کہ بچہ اس کا وارث ہوگا اوروہ بچہ کی وارث ہوگی۔ اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے وراثت کے سلسلہ میں فرض کیا ہے۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے، اسی حدیث میں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر (لعان کرنے والی خاتون) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جيسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے، لیکن اگر کالا، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا۔ (عورت جھوٹی ہے) جب بچہ پیدا ہوا تو وہ بری شکل کا تھا (یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی)
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے علم قیافہ کا معتبر ہونا پایا جاتا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالہام غیبی علم قیا فہ کی وہ بات بتلائی جاتی جو حقیقت میں سچ ہوتی۔ دوسرے لوگ اس علم کی رو سے قطعاً کو ئی حکم نہیں دے سکتے۔ امام شافعی نے بھی علم قیافہ کو معتبر رکھا ہے، پھر بھی یہ علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ وحرہ (چھپکلی کے مانند ایک زہریلا جانور، پستہ قد عورت یا اونٹ کی تشبیہ اس سے دیتے ہیں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Juraij (RA) : Ibn Shihab (RA) informed me of Lian and the tradition related to it, referring to the narration of Sahl bin Sad, the brother of Bani Sa'idi He said, "An Ansari man came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! If a man saw another man with his wife, should he kill him, or what should he do?' So Allah revealed concerning his affair what is mentioned in the Holy Qur'an about the affair of those involved in a case of Lian. The Prophet (ﷺ) said, 'Allah has given His verdict regarding you and your wife.' So they carried out Lian in the mosque while I was present there. When they had finished, the man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! If I should now keep her with me as a wife then I have told a lie about her. Then he divorced her thrice before Allah's Apostle (ﷺ) ordered him, when they had finished the Lian process. So he divorced her in front of the Prophet (ﷺ) ." Ibn Shihab (RA) added, "After their case, it became a tradition that a couple involved in a case of Lian should be separated by divorce. That lady was pregnant then, and later on her son was called by his mother's name. The tradition concerning their inheritance was that she would be his heir and he would inherit of her property the share Allah had prescribed for him." Ibn Shihab (RA) said that Sahl bin Sad As'Saidi said that the Prophet (ﷺ) said (in the above narration), "If that lady delivers a small red child like a lizard, then the lady has spoken the truth and the man was a liar, but if she delivers a child with black eyes and huge lips, then her husband has spoken the truth." Then she delivered it in the shape one would dislike (as it proved her guilty).