باب: مفلس آدمی کو ( جب کچھ ملے تو ) پہلے اپنی بیوی کو کھلاناواجب ہے
)
Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: The expenditure of a poor man on his family)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5368.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا : نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں آپ نے فرمایا: ”کیوں کیا ہوا؟“ اس نے کہا میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں ہم بستری کرلی ہے آپ نے فرمایا: ”پھر ایک غلام آزاد کر دو۔“ اس نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔“ اس نے کہا: مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔“ اس نے کہا: میں اتنا سامان نہیں پاتا۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے پوچھا: ”سوال کرنے والا کہاں ہے؟“ عرض کیا: میں یہاں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: یہ کھجوروں کا ٹوکرا صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں ان پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھرانہ ایسا نہیں جو ہم سے زیادہ محتاج ہو۔ یہ سن کر نبی ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے پھر فرمایا: ”تم ہی اس وقت زیادہ حق دار ہو۔“
تشریح:
(1) دوسری روایت میں ہے کہ تو بھی کھا اور اپنے اہل خانہ کو بھی کھلا۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2217) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تنگ دستی کے پیش نظر کفارے کی ادائیگی پر اس کے اہل خانہ کا کھانا مقدم رکھا۔ اگر گھر والوں کو کھلانا ضروری نہ ہوتا تو وہ ان کھجوروں کو خیرات کرتا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ تنگ دست کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا اس کے صدقہ و خیرات کرنے سے مقدم ہے۔ آج کل لوگ مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں۔ ایسے نازک حالات میں علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ صدقہ و خیرات کے سلسلے میں ایسے تباہ حال لوگوں کا خیال رکھیں جن کے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں اور ان کے بچے روٹی کو ترستے ہیں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5159
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5368
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5368
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5368
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا : نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں آپ نے فرمایا: ”کیوں کیا ہوا؟“ اس نے کہا میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں ہم بستری کرلی ہے آپ نے فرمایا: ”پھر ایک غلام آزاد کر دو۔“ اس نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔“ اس نے کہا: مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔“ اس نے کہا: میں اتنا سامان نہیں پاتا۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے پوچھا: ”سوال کرنے والا کہاں ہے؟“ عرض کیا: میں یہاں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: یہ کھجوروں کا ٹوکرا صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں ان پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھرانہ ایسا نہیں جو ہم سے زیادہ محتاج ہو۔ یہ سن کر نبی ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے پھر فرمایا: ”تم ہی اس وقت زیادہ حق دار ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) دوسری روایت میں ہے کہ تو بھی کھا اور اپنے اہل خانہ کو بھی کھلا۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2217) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تنگ دستی کے پیش نظر کفارے کی ادائیگی پر اس کے اہل خانہ کا کھانا مقدم رکھا۔ اگر گھر والوں کو کھلانا ضروری نہ ہوتا تو وہ ان کھجوروں کو خیرات کرتا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ تنگ دست کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا اس کے صدقہ و خیرات کرنے سے مقدم ہے۔ آج کل لوگ مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں۔ ایسے نازک حالات میں علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ صدقہ و خیرات کے سلسلے میں ایسے تباہ حال لوگوں کا خیال رکھیں جن کے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں اور ان کے بچے روٹی کو ترستے ہیں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے حمیدبن عبدالرحمن نے اوران سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں تو ہلاک ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، آخر کیا بات ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں ہم بستری کرلی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر ایک غلام آزاد کر دو۔ (یہ کفارہ ہو جائے گا) انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، پھر دو مہینے متواتر روزے رکھ لو۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے کہا کہ اتنا میرے پاس بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ مسئلہ پوچھنے والا کہاں ہے؟ ان صاحب نے عرض کیا میں یہاں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا لو اسے (اپنی طرف سے) صدقہ کر دینا۔ انہوں نے کہا اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر، یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ ہنسے اور آپ کے مبارک دانت دکھائی دینے لگے اور فرمایا، پھر تم ہی اس کے زیادہ مستحق ہو۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے تو بھی کھا اوراپنے گھر والوں کو بھی کھلا تو آپ نے کفارے کی ادائیگی پر اس کے گھر والوں کا کھانا مقدم سمجھا یا اس شخص نے کفارہ کے وجوب کے ساتھ اپنے گھر والوں کے خرچ کا اہتمام کیا اور ان کی محتاجی ظاہر کی۔ اگر گھر والوں کو کھانا ضروری نہ ہوتا تو وہ اس کھجور کو خیرات کرنا مقدم سمجھتا۔ عرق ایسے تھیلے کو کہتے ہیں جس میں 15 صاع کھجور سما جائے۔ اس حدیث سے آج گرانی کے دور میں عامۃ المسلمین کے لیے بہت سہولت نکلتی ہے جبکہ لوگ گرانی سے سخت پریشان ہیں اور اکثر بھوک سے اموات ہو رہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ صدقہ خیرات کے سلسلہ میں ایسے غرباء کا بہت زیادہ دھیان رکھیں، صدقہ فطر وغیرہ میں بھی یہی اصول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man came to the Prophet (ﷺ) and said, "I am ruined!" The Prophet (ﷺ) said, "Why?" He said, "I had sexual intercourse with my wife while fasting (in the month of Ramadan)." The Prophet (ﷺ) said to him, "Manumit a slave (as expiation)." He replied, "I cannot afford that." The Prophet (ﷺ) said, "Then fast for two successive months." He said, "I cannot." The Prophet (ﷺ) said, "Then feed sixty poor persons." He said, "I have nothing to do that." In the meantime a basket full of dates was brought to the Prophet (ﷺ) . He said, "Where is the questioner." The man said, "I am here." The Prophet (ﷺ) said (to him), "Give this (basket of dates) in charity (as expiation)." He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall I give it to poorer people than us? By Him Who sent you with the Truth, there is no family between Medina's two mountains poorer than us." The Prophet (ﷺ) smiled till his pre-molar teeth became visible. He then said, "Then take it."