باب:اللہ تعالیٰ کا سورۃ نور میں فرمانا کہ ” اندھے پر کوئی حرج نہیں اورنہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ۔ ۔ ۔ آخر آیت لعلکم تعقلون تک
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: "There is no restriction on the blind...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5384.
سیدنا سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کے طرف روانہ ہوئے، جب ہم صہباء مقام پر پہنچے۔ ۔ ۔ (راوئ حدیث) یحییٰ نے کہا: صہباء، خیبر سے نصف منزل پر واقع ہے۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں پہنچ کر کھانا طلب فرمایا تو آپ کو ستو پیش کیے گئے۔ ہم نے انہیں پانی کے بغیر ہی کھا لیا، کھانے کے بعد آپ نے پانی طلب کیا، کلی کی اور ہم نے بھی کلی پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔ سفیان نے کہا کہ میں نے اپنے استاد یحییٰ سے اس حدیث کو یوں سنا کہ آپ نے نہ تو ستو کھاتے وقت وضو کیا اور نہ کھانے سے فراغت کے بعد ہی اس کا اہتمام کیا۔
تشریح:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ستو کھانے کے لیے جمع ہوئے، ان میں تندرست، بیمار، بینا اور نابینا وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آگے آیت کریمہ میں ہے: ’’اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم سب مل کر کھاؤ یا علیحدہ علیحدہ۔‘‘(النور: 61) نابینا، لنگڑے اور بیماروں نے تندرستوں کے ساتھ ایک برتن میں کھانے سے حرج محسوس کیا ہو کیونکہ اس طرح کمی بیشی کا امکان تھا۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد یہ اندیشہ ختم ہو گیا اور حدیث سے اکٹھے مل کر کھانے کو ثابت کیا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ کھانا کھاتے وقت اس قسم کے اندیشوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5175
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5384
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5384
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5384
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
دور جاہلیت میں اندھے، لنگڑے اور مریض لوگ، خوش حال اور تندرست لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے میں جھجک محسوس کرتے تھے۔ انہیں یہ خیال آتا تھا کہ شاید دوسروں کو ہمارے ساتھ کھانا کھانے سے نفرت ہو اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں، نیز بعض پرہیزگار لوگوں کو یہ خیال آتا تھا کہ شاید ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر کھانے سے کہیں ان معذور لوگوں کی حق تلفی ہو، مثلاً: اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے، ممکن ہے کہ لنگڑا دیر سے طعام گاہ پہنچے اور مریض تو کھانے کے وقت اپنی تکلیف اور پرہیز ہی کا لحاظ رکھتا ہے، لہذا یہ لوگ علیحدہ ہی کھانا کھائیں تو بہتر ہے۔ اس آیت میں ان سب لوگوں کے خدشات کا ازالہ کر دیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کو اسی مقصد کے پیش نظر ذکر کیا ہے کہ کھانا مل کر کھایا جا سکتا ہے، خواہ دوسرے ساتھی معذور ہی کیوں نہ ہوں۔
سیدنا سوید بن نعمان ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کے طرف روانہ ہوئے، جب ہم صہباء مقام پر پہنچے۔ ۔ ۔ (راوئ حدیث) یحییٰ نے کہا: صہباء، خیبر سے نصف منزل پر واقع ہے۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں پہنچ کر کھانا طلب فرمایا تو آپ کو ستو پیش کیے گئے۔ ہم نے انہیں پانی کے بغیر ہی کھا لیا، کھانے کے بعد آپ نے پانی طلب کیا، کلی کی اور ہم نے بھی کلی پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔ سفیان نے کہا کہ میں نے اپنے استاد یحییٰ سے اس حدیث کو یوں سنا کہ آپ نے نہ تو ستو کھاتے وقت وضو کیا اور نہ کھانے سے فراغت کے بعد ہی اس کا اہتمام کیا۔
حدیث حاشیہ:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ستو کھانے کے لیے جمع ہوئے، ان میں تندرست، بیمار، بینا اور نابینا وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آگے آیت کریمہ میں ہے: ’’اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم سب مل کر کھاؤ یا علیحدہ علیحدہ۔‘‘(النور: 61) نابینا، لنگڑے اور بیماروں نے تندرستوں کے ساتھ ایک برتن میں کھانے سے حرج محسوس کیا ہو کیونکہ اس طرح کمی بیشی کا امکان تھا۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد یہ اندیشہ ختم ہو گیا اور حدیث سے اکٹھے مل کر کھانے کو ثابت کیا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ کھانا کھاتے وقت اس قسم کے اندیشوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، انہوں نے بشیر بن یسار سے سنا، کہا کہ ہم سے سوید بن نعمان ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف (سنہ ۷ھ میں) نکلے جب ہم مقام صہباءپر پہنچے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ صہباءخیبر سے دوپہر کی راہ پر ہے تو اس وقت حضور اکرم ﷺ نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی، پھر ہم نے اسی کو سوکھا پھانک لیا، پھر آنحضرت ﷺ نے پانی طلب فرمایا اور کلی کی، ہم نے بھی کلی کی۔ اس کے بعد آپ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا (مغرب کے لیے کیونکہ پہلے سے باوضو تھے) سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے اس حدیث میں یوں سنا کہ آپ نے نہ ستو کھاتے وقت وضو کیا نہ کھانے سے فارغ ہو کر۔
حدیث حاشیہ:
ایسے مواقع پر جہاں بھی کسی جگہ لفط وضو آیا ہے وہاں اکثر جگہ وضو لغوی یعنی کلی کرنا مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Suwaid bin An-Nu'man (RA) : We went out with Allah's Apostle (ﷺ) to Khaibar, and when we were at As-Sahba', (Yahya, a sub-narrator said, "As-Sahba' is a place at a distance of one day's journey to Khaibar)." Allah's Apostle (ﷺ) asked the people to bring their food, but there was nothing with the people except Sawiq. So we all chewed and ate of it. Then the Prophet (ﷺ) asked for some water and he rinsed his mouth, and we too, rinsed our mouths. Then he led us in the Maghrib prayer without performing ablution (again).