باب: سلف صالحین اپنے گھروں میں اور سفروں میں جس طرح کا کھانا میسر ہوتا اور گوشت وغیرہ محفوظ رکھ لیا کرتے تھے
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Storage of food in the houses and on a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺاور حضرت ابوبکر ؓکے لیے ( مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفر ہجرت کے لیے ) توشہ تیار کیاتھا ( جسے ایک دسترخوان میں باندھ دیا گیا تھا )تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی ہیں۔ ان کی ماں کا نام ام رومان زینب ہے جن کا سلسلہ نسب نبوی میں کنانہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ کا نام عبداللہ بن عثمان ہے۔ رجال میں سب سے پہلے یہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح رسول کریم ﷺ سے شوال سنہ 10 نبوی میں مکہ مکرمہ میں ہوا اور رخصتی شوال سنہ 1 ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہی وہ خاتون عظمیٰ ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر سے پرورش ہوئی۔ یہی وہ طیبہ خاتون ہیں جن کا پہلا نکاح صرف رسول کریم ﷺ سے ہی ہوا۔ ان کے فضائل سیر واحادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ علم وفضل وتدین وتقویٰ وسخاوت میں بھی یہ بے نظیر مقام رکھتی تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک دن میں حضرت عائشہ ؓ نے ستر ہزار درہم راہ اللہ میں تقسیم فرما دیئے ، خود ان کے جسم پر پیوند لگا ہوا کرتا تھا۔ ایک اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ درہم ان کی خدمت میں بھیجے۔ انہوں نے سب اسی روز راہ اللہ صدقہ کر دیئے ۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں۔ شام کو لونڈی نے سوکھی روٹی سامنے رکھ دی اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ سالن کے لیے کچھ درہم بچالیتیں تو میں سالن تیار کرلیتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ مجھے تو خیال نہ رہا، تجھے یاد دلادینا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ نے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ ؓ کے فضائل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر دو میں الگ الگ ایسی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنا پر ہم دونوں ہی کو بہت اعلیٰ وافضل یقین رکھتے ہیں۔ کتب احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث مروی ہیں جن میں174 احادیث متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری شریف میں 54 اور صرف مسلم میں 67 اور دیگر کتب احادیث میں 2017 احادیث مروی ہیں۔ فتاویٰ شرعیہ اور حل مشکلات علمیہ اور بیان روایات عربیہ اور واقعات تاریخیہ کا شمار ان کے علاوہ ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جنگ جمل میں شرکت کی۔ آپ اس میں ایک اونٹ کے ہودج میں سوار تھیں، اسی لیے یہ جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوئی۔ مقابلہ حضرت علی ؓ سے تھا ۔ جنگ کے خاتمہ پر حضرت صدیقہ ؓ نے فرمایا تھا کہ میری اور حضرت علی ؓ کی شکر رنجی ایسی ہی ہے جیسے عموماً بھاوج اور دیور میں ہو جایا کرتی ہے۔ حضرت علی ؓنے فرمایا اللہ کی قسم ! یہی بات ہے ۔ علامہ ابن حزم اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فریقین میں سے کوئی بھی آغاز جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر چند شریروں نے جو قتل عثمانی میں ملوث تھے، اس طرح جنگ کرادی کہ رات کو اصحاب جمل کے لشکر پر چھا پہ مارا۔ وہ سمجھے کہ یہ فعل بحکم وبعلم حضرت علی ؓ ہوا ہے ۔ انہوں نے بھی مدافعت میں حملہ کیا اور جنگ برپا ہو گئی ۔ علامہ ابن حزم مزید لکھتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت زبیر ؓاور حضرت طلحہ ؓ اور ان کے جملہ رفقاءنے امامت علی ؓ کے بطلان یا جرح میں ایک لفظ بھی نہیں کہا نہ انہوں نے نقص بیعت کیا نہ کسی دوسرے کی بیعت کی نہ اپنے لیے کوئی دعویٰ کیا۔ یہ جملہ وجوہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ جنگ صرف اتفاقی حادثہ تھا جس کا ہر دو جانب کسی کو خیال بھی نہ تھا ( کتاب الفضل فی المال جزءچہارم ، ص : 158 مطبوعہ مصر سنہ 1317ھ ) اس جنگ کے بانی خود قاتلین حضرت عثمان ؓ تھے جو در پردہ یہودی تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناکر بعد میں قصاص عثمان ؓ ہ کا نام لے کر اور حضرت عائشہ صدیقہ کو بہکا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاکر حضرت علیؓ کے خلاف علم بغاوت بلند کیاتھا۔ یہ واقعہ 15 جمادی الثانی سنہ36 ھ کو پیش آیا تھا۔ لڑائی صبح سے تیسرے پہر تک رہی۔ حضرت زبیر ؓ آغاز جنگ سے پہلے ہی صف سے الگ ہو گئے تھے۔ حضرت طلحہ ؓ شہید ہوئے مگر جان بحق ہونے سے پیشتر انہوں نے بیعت مرتضوی کی تجدید حضرت علی ؓ کے ایک افسر کے ہاتھ پر کی تھی ( ؓ)
5423.
سیدنا عابس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک سال منع تھا جس سال لوگ (قحط کے سبب) بھوکے تھے۔ آپ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مال دار لوگ غریبوں کو گوشت کھلا دیں۔ ہم پائے رکھ لیتے تھے اور انہیں پندرہ دن کے بعد کھاتے تھے ان سے دریافت کیا گیا ایسا کرنے میں کیا مجبوری تھی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سوال پر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ سیدنا محمد ﷺ کی آل اولاد نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی مسلسل تین دن تک کبھی نہیں کھائی تھی حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر نے کہا: ہمیں سفیان نے بتایا کہ ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) طعام سے ہر وہ چیز مراد ہے جو کھائی جاتی ہو۔ اس حدیث میں پائے ذخیرہ کرنے کا بیان ہے۔ (2) عنوان سے مناسبت واضح ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ تھا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا تاکہ مال دار لوگ غرباء و مساکین کو گوشت کھلائیں۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ (3) سائل کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہنس پڑنا بطور تعجب تھا کہ آل رسول کی معیشت میں وسعت نہ تھی اور کئی کئی روز فاقے سے گزر جاتے تو مجبوری کا سبب دریافت باعث تعجب ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5214
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5423
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5423
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5423
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
بعض صوفیاء کا خیال ہے کہ کل کے لیے غذائی مواد کا ذخیرہ کرنا جائز نہیں اور سیر ہو کر کھانے کے بعد زائد کھانا صدقہ نہ کرنے والا کامل الایمان نہیں ہے اور خلاف ورزی کرنے والا اللہ پر توکل نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق بدگمانی کا شکار ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اس موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباری: 9/685)
اور حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺاور حضرت ابوبکر ؓکے لیے ( مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفر ہجرت کے لیے ) توشہ تیار کیاتھا ( جسے ایک دسترخوان میں باندھ دیا گیا تھا )تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی ہیں۔ ان کی ماں کا نام ام رومان زینب ہے جن کا سلسلہ نسب نبوی میں کنانہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ کا نام عبداللہ بن عثمان ہے۔ رجال میں سب سے پہلے یہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح رسول کریم ﷺ سے شوال سنہ 10 نبوی میں مکہ مکرمہ میں ہوا اور رخصتی شوال سنہ 1 ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہی وہ خاتون عظمیٰ ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر سے پرورش ہوئی۔ یہی وہ طیبہ خاتون ہیں جن کا پہلا نکاح صرف رسول کریم ﷺ سے ہی ہوا۔ ان کے فضائل سیر واحادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ علم وفضل وتدین وتقویٰ وسخاوت میں بھی یہ بے نظیر مقام رکھتی تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک دن میں حضرت عائشہ ؓ نے ستر ہزار درہم راہ اللہ میں تقسیم فرما دیئے ، خود ان کے جسم پر پیوند لگا ہوا کرتا تھا۔ ایک اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ درہم ان کی خدمت میں بھیجے۔ انہوں نے سب اسی روز راہ اللہ صدقہ کر دیئے ۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں۔ شام کو لونڈی نے سوکھی روٹی سامنے رکھ دی اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ سالن کے لیے کچھ درہم بچالیتیں تو میں سالن تیار کرلیتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ مجھے تو خیال نہ رہا، تجھے یاد دلادینا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ نے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ ؓ کے فضائل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر دو میں الگ الگ ایسی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنا پر ہم دونوں ہی کو بہت اعلیٰ وافضل یقین رکھتے ہیں۔ کتب احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث مروی ہیں جن میں174 احادیث متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری شریف میں 54 اور صرف مسلم میں 67 اور دیگر کتب احادیث میں 2017 احادیث مروی ہیں۔ فتاویٰ شرعیہ اور حل مشکلات علمیہ اور بیان روایات عربیہ اور واقعات تاریخیہ کا شمار ان کے علاوہ ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جنگ جمل میں شرکت کی۔ آپ اس میں ایک اونٹ کے ہودج میں سوار تھیں، اسی لیے یہ جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوئی۔ مقابلہ حضرت علی ؓ سے تھا ۔ جنگ کے خاتمہ پر حضرت صدیقہ ؓ نے فرمایا تھا کہ میری اور حضرت علی ؓ کی شکر رنجی ایسی ہی ہے جیسے عموماً بھاوج اور دیور میں ہو جایا کرتی ہے۔ حضرت علی ؓنے فرمایا اللہ کی قسم ! یہی بات ہے ۔ علامہ ابن حزم اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فریقین میں سے کوئی بھی آغاز جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر چند شریروں نے جو قتل عثمانی میں ملوث تھے، اس طرح جنگ کرادی کہ رات کو اصحاب جمل کے لشکر پر چھا پہ مارا۔ وہ سمجھے کہ یہ فعل بحکم وبعلم حضرت علی ؓ ہوا ہے ۔ انہوں نے بھی مدافعت میں حملہ کیا اور جنگ برپا ہو گئی ۔ علامہ ابن حزم مزید لکھتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت زبیر ؓاور حضرت طلحہ ؓ اور ان کے جملہ رفقاءنے امامت علی ؓ کے بطلان یا جرح میں ایک لفظ بھی نہیں کہا نہ انہوں نے نقص بیعت کیا نہ کسی دوسرے کی بیعت کی نہ اپنے لیے کوئی دعویٰ کیا۔ یہ جملہ وجوہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ جنگ صرف اتفاقی حادثہ تھا جس کا ہر دو جانب کسی کو خیال بھی نہ تھا ( کتاب الفضل فی المال جزءچہارم ، ص : 158 مطبوعہ مصر سنہ 1317ھ ) اس جنگ کے بانی خود قاتلین حضرت عثمان ؓ تھے جو در پردہ یہودی تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناکر بعد میں قصاص عثمان ؓ ہ کا نام لے کر اور حضرت عائشہ صدیقہ کو بہکا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاکر حضرت علیؓ کے خلاف علم بغاوت بلند کیاتھا۔ یہ واقعہ 15 جمادی الثانی سنہ36 ھ کو پیش آیا تھا۔ لڑائی صبح سے تیسرے پہر تک رہی۔ حضرت زبیر ؓ آغاز جنگ سے پہلے ہی صف سے الگ ہو گئے تھے۔ حضرت طلحہ ؓ شہید ہوئے مگر جان بحق ہونے سے پیشتر انہوں نے بیعت مرتضوی کی تجدید حضرت علی ؓ کے ایک افسر کے ہاتھ پر کی تھی ( ؓ)
حدیث ترجمہ:
سیدنا عابس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک سال منع تھا جس سال لوگ (قحط کے سبب) بھوکے تھے۔ آپ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مال دار لوگ غریبوں کو گوشت کھلا دیں۔ ہم پائے رکھ لیتے تھے اور انہیں پندرہ دن کے بعد کھاتے تھے ان سے دریافت کیا گیا ایسا کرنے میں کیا مجبوری تھی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سوال پر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ سیدنا محمد ﷺ کی آل اولاد نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی مسلسل تین دن تک کبھی نہیں کھائی تھی حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر نے کہا: ہمیں سفیان نے بتایا کہ ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) طعام سے ہر وہ چیز مراد ہے جو کھائی جاتی ہو۔ اس حدیث میں پائے ذخیرہ کرنے کا بیان ہے۔ (2) عنوان سے مناسبت واضح ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ تھا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا تاکہ مال دار لوگ غرباء و مساکین کو گوشت کھلائیں۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ (3) سائل کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہنس پڑنا بطور تعجب تھا کہ آل رسول کی معیشت میں وسعت نہ تھی اور کئی کئی روز فاقے سے گزر جاتے تو مجبوری کا سبب دریافت باعث تعجب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ اور اسماء ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکے لیے ایک توشہ دان تیار کیا تھا
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے عبدالرحمن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے کو منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ صرف ایک سال اس کا حکم دیا تھا جس سال قحط پڑا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے چاہا تھا (اس حکم کے ذریعہ) کہ جو مال والے ہیں وہ (گوشت محفوظ کرنے کے بجائے) محتاجوں کو کھلا دیں اور ہم بکری کے پائے محفوظ رکھ لیتے تھے اور اسے پندرہ پندرہ دن بعد کھاتے تھے۔ ان سے پوچھا گیاکہ ایسا کرنے کے لیے کیا مجبوری تھی؟ اس پر ام المؤمنین ؓ ہنس پڑیں اور فرمایا آل محمد ﷺ نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔ اور ابن کثیر نے بیان کیا کہ ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ غرض ہے کہ سفیان کا سماع عبدالرحمن سے ثابت ہو جائے۔ ابن کثیر کی روایت کو طبرانی نے وصل کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abis (RA) : I asked 'Aisha (RA) "Did the Prophet (ﷺ) forbid eating the meat of sacrifices offered on 'Id-ul-Adha for more than three days" She said, "The Prophet (ﷺ) did not do this except in the year when the people were hungry, so he wanted the rich to feed the poor. But later we used to store even a trotter of a sheep to eat it fifteen days later." She was asked, "What compelled you to do so?" She smiled and said, "The family of Muhammad did not eat to their satisfaction white bread with meat soup for three successive days till he met Allah."