باب: ردی کھجور ( بوقت ضرورت راشن تقسیم کرنے ) کے بیان میں
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5441.
سیدنا ابو عثمان سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سات دن تک سیدنا ابو ہریرہ ؓ کا مہمان رہا۔ وہ ان کی اہلیہ اور ان کے خادم نے شب بیداری کے لیے باری مقرر کر رکھی تھی۔ رات کے ایک تہائی حصے میں ایک صاحب نماز پڑھتے پھر وہ دوسرے کو بیدار کر دیتے۔ میں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ میں کھجوریں تقسیم کیں تو میرے حصے میں سات کھجوریں آئیں جن میں ایک خراب تھی۔
تشریح:
(1) حشفه وہ ردی قسم کی کھجور ہے جو درخت کے اوپر نہیں پکتی بلکہ خشک ہو کر جلدی گر جاتی ہے۔ (2) اس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے گزر اوقات کا پتا چلتا ہے کہ وہ کھجوروں پر قناعت کرتے تھے، وہ بھی معمولی اور تعداد میں کم۔ بعض اوقات ان میں ردی قسم کی کھجوریں بھی آ جاتی تھیں۔ (3) ایک روایت میں پانچ کھجوروں کا ذکر ہے جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ سات کھجوریں ملیں لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ایک عدد دوسرے کے منافی نہیں ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پہلی مرتبہ پانچ کھجوریں ملی ہوں جب ان سے کچھ بچ گئیں تو دو، دو مزید دی گئیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو مختلف اوقات میں دو واقعات ہوں، ایک دفعہ پانچ پانچ دی گئیں اور دوسری دفعہ سات سات حصے میں آئیں۔ (4) ان احادیث سے سرکاری سطح پر راشن کی تقسیم کا طریق کار بھی ثابت ہوا کہ راشن کی تقسیم کا طریق کار بھی ثابت ہوا کہ راشن اچھا ہو یا ردی، اسے برابر برار سب میں تقسیم کرنا چاہیے۔ لیکن آج کل بد دیانتی اور اقرباء پروری کا دور دورہ ہے، اس لیے صحیح تقسیم نہ ہونے کے باعث اللہ تعالیٰ کی مخلوق بہت پریشان ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5232
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5441
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5441
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5441
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ باب بلا عنوان ہے، البتہ ہمارے برصغیر کے درسی نسخوں میں اس باب کا عنوان حسب ذیل ہے: (باب الحشف) "ردی کھجور کا بیان۔" لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحیح بخاری کی تمام روایات میں یہ باب "بلا عنوان" ہے۔ (فتح الباری: 9/698)
سیدنا ابو عثمان سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سات دن تک سیدنا ابو ہریرہ ؓ کا مہمان رہا۔ وہ ان کی اہلیہ اور ان کے خادم نے شب بیداری کے لیے باری مقرر کر رکھی تھی۔ رات کے ایک تہائی حصے میں ایک صاحب نماز پڑھتے پھر وہ دوسرے کو بیدار کر دیتے۔ میں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ میں کھجوریں تقسیم کیں تو میرے حصے میں سات کھجوریں آئیں جن میں ایک خراب تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حشفه وہ ردی قسم کی کھجور ہے جو درخت کے اوپر نہیں پکتی بلکہ خشک ہو کر جلدی گر جاتی ہے۔ (2) اس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے گزر اوقات کا پتا چلتا ہے کہ وہ کھجوروں پر قناعت کرتے تھے، وہ بھی معمولی اور تعداد میں کم۔ بعض اوقات ان میں ردی قسم کی کھجوریں بھی آ جاتی تھیں۔ (3) ایک روایت میں پانچ کھجوروں کا ذکر ہے جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ سات کھجوریں ملیں لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ایک عدد دوسرے کے منافی نہیں ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پہلی مرتبہ پانچ کھجوریں ملی ہوں جب ان سے کچھ بچ گئیں تو دو، دو مزید دی گئیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو مختلف اوقات میں دو واقعات ہوں، ایک دفعہ پانچ پانچ دی گئیں اور دوسری دفعہ سات سات حصے میں آئیں۔ (4) ان احادیث سے سرکاری سطح پر راشن کی تقسیم کا طریق کار بھی ثابت ہوا کہ راشن کی تقسیم کا طریق کار بھی ثابت ہوا کہ راشن اچھا ہو یا ردی، اسے برابر برار سب میں تقسیم کرنا چاہیے۔ لیکن آج کل بد دیانتی اور اقرباء پروری کا دور دورہ ہے، اس لیے صحیح تقسیم نہ ہونے کے باعث اللہ تعالیٰ کی مخلوق بہت پریشان ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن یزید نے بیان کیا، ان سے عباس جریری نے اوران سے ابو عثمان نے بیان کیا کہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے یہاں سات دن تک مہمان رہا، وہ اور ان کی بیوی اور ان کے خادم نے رات میں (جاگنے کی) باری مقرر کر رکھی تھی۔ رات کے ایک تہائی حصہ میں ایک صاحب نماز پڑھتے رہے پھر وہ دوسرے کو جگا دیتے اور میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ میں ایک مرتبہ کھجور تقسیم کی اور مجھے بھی سات کھجوریں دیں، ایک ان میں خراب تھی۔
حدیث حاشیہ:
مگر انہوں نے اسے بھی بخوشی قبول کیا۔ اطاعت شعاری کا یہی تقاضا ہے نہ کہ ان مقلدین جامدین کی طرح جو میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کے موافق عمل کرتے ہیں إلا ماشاء اللہ ۔ حدیث سے بوقت ضرورت راشن تقسیم کرنا بھی ثابت ہوا جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا سے ثابت فرمایا ہے اور آپ کے اجتہاد علمی کی دلیل ہے پھر بھی کتنے معاند عقل کے خود کورے ہیں جو حضرت امام کو مجتہد نہیں مانتے بلکہ مثل اپنے مقلد مشہور کرتے ہیں، نعوذ باللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu 'Uthman (RA) : I was a guest of Abu Hurairah (RA) for seven days. Abu Hurairah (RA) , his wife and his slave used to get up and remain awake for one-third of the night by turns. Each would offer the night prayer and then awaken the other. I heard Abu Hurairah (RA) saying, "Allah's Apostle (ﷺ) distributed dates among his companions and my share was seven dates, one of which was a Hashafa (a date which dried on the tree before it was fully ripe).