Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The mentioning of Allah's Name while hunting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
پس تم اعتراض کرنے والے کافروں سے نہ ڈرو اورمجھ سے ڈرو ۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ مائدہ میں فرمان کہ ” اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ تمہیں کچھ شکار دکھلاکر آزمائے گا جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے ۔ “ الآیۃ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ مائدہ میںفرمان کہ ” تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال کئے گئے سوا ان کے جن کا ذکر تم سے کیا جاتا ہے ( مردار اور سور وغیرہ ) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ پس تم ( ان کافروں ) سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو ۔ “ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا العقود سے مراد ۔ ۔ ۔ حلال وحرام سے متعلق عہد وپیمان ۔ ۔ ۔ ۔ الا ما یتلٰی علیکم سے سور ، مردار ، خون وغیرہ مراد ہے ۔ یجرمنکم باعث بنے ، شنان کے معنی عداوت دشمنی ، المنخنقۃ جس جانور کا گلا گھونٹ کر مار دیا گیا ہو اور اس سے وہ مر گیا ہو الموقوذۃ ، جسے لکڑی یا پتھر سے مارا جائے اور اس سے وہ مرجائے ۔ المتردیۃ ، جو پہاڑ سے پھسل کر گر پڑے اور مر جائے ۔ النطیحۃ ، جس کو کسی جانور نے سینگ سے مار دیا ہو ۔ پس اگر تم اسے دم ہلاتے ہوئے یا آنکھ گھماتے ہوئے پاؤ تو ذبح کرکے کھالو کیوںکہ یہ اس کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ۔تشریح : اصل میں لفظ ذبائح ذبیحہ کی جمع ہے ذبیحہ وہ جانور جو ذبح کیا جائے اور صید اس جانور کو جو شکار کیا جائے آیت ” الا ما ذکیتم “ میں ذبیحہ مراد ہے۔ حضرت ابن عباس ؓا کے قول کو ابن حاتم نے وصل کیا ہے۔ العقود سورۃ مائدہ میں ہے یعنی ” اوفوا بالعقود “ اللہ کے عہد وپیمان پورے کرو۔ آیت واحادیث کی بناءپر ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا حلت کی شرط ہے اگر عمداً بسم اللہ نہ پڑھا تو وہ جانور مردار ہوگا۔ دوسرے کتے سے غیر مسلم کا چھوڑا ہو ا کتا یا سدھا یا ہوا کتا مراد ہے۔
5475.
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نوک دار لکڑی سے کیے ہوئے شکار کے متعلق نبی ﷺ سے دریافت کیا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر شکار اس کی نوک سے زخمی ہو جائے تو اسے کھا لو لیکن اگر عرض (چوڑائی) کے بل اسے لگے تو اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ موقوذہ ہے۔“ میں نے کتے سے کیے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ کتا تیرے کیے شکار کو روک رکھے تو کھا لو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا بھی ذبح کے حکم میں ہے۔ اگر تم اپنے کتے یا اپنے کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ تمہیں اندیشہ ہو کہ اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے شکار پکڑا ہوگا اور وہ شکار کو مار چکا ہو تو ایسے شکار کو نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر اللہ کا نام نہیں لیا تھا۔‘‘
تشریح:
(1) جانور کے حلال ہونے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، یعنی بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے اسے کھاؤ۔‘‘ (الأنعام: 118) دوسری صورت یہ ہے کہ شکاری کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی جائے بشرطیکہ وہ کتا سدھایا ہوا ہو۔ سدھایا ہوا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کتا شکار پر چھوڑا جائے جو دوڑتا ہوا جائے، جب اسے روکا جائے تو رک جائے اور جب شکار پکڑے تو اس میں سے کچھ نہ کھائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اگر تم نے سدھائے ہوئے کتے سے شکار کیا اور چھوڑتے وقت تو نے اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم غیر سدھائے کتے سے شکار کرو پھر تمہیں اسے ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو اسے بھی کھا سکتے ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الذبائح و الصید، حدیث: 5478) (2) ہمارے رجحان کے مطابق شکاری کتے سے کیے ہوئے شکار کو کھانے کی دو شرطیں ہیں: ٭ وہ کتا سدھایا ہوا ہو۔ ٭ چھوڑتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ ان دو شرطوں کے بغیر شکار حلال نہ ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5265
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5475
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5475
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5475
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
ان آیات میں ذبیحہ اور شکار کے احکام بیان ہوئے ہیں اور کچھ ایسے جانوروں کا ذکر ہے جو حلال ہونے کے باوجود کسی سبب سے مر جائیں۔ اگر ایسے جانور زندہ پائے جائیں اور بسم اللہ پڑھ کر انہیں ذبح کر لیا جائے تو ان کا کھانا جائز ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم
پس تم اعتراض کرنے والے کافروں سے نہ ڈرو اورمجھ سے ڈرو ۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ مائدہ میں فرمان کہ ” اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ تمہیں کچھ شکار دکھلاکر آزمائے گا جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے ۔ “ الآیۃ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ مائدہ میںفرمان کہ ” تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال کئے گئے سوا ان کے جن کا ذکر تم سے کیا جاتا ہے ( مردار اور سور وغیرہ ) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ پس تم ( ان کافروں ) سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو ۔ “ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا العقود سے مراد ۔ ۔ ۔ حلال وحرام سے متعلق عہد وپیمان ۔ ۔ ۔ ۔ الا ما یتلٰی علیکم سے سور ، مردار ، خون وغیرہ مراد ہے ۔ یجرمنکم باعث بنے ، شنان کے معنی عداوت دشمنی ، المنخنقۃ جس جانور کا گلا گھونٹ کر مار دیا گیا ہو اور اس سے وہ مر گیا ہو الموقوذۃ ، جسے لکڑی یا پتھر سے مارا جائے اور اس سے وہ مرجائے ۔ المتردیۃ ، جو پہاڑ سے پھسل کر گر پڑے اور مر جائے ۔ النطیحۃ ، جس کو کسی جانور نے سینگ سے مار دیا ہو ۔ پس اگر تم اسے دم ہلاتے ہوئے یا آنکھ گھماتے ہوئے پاؤ تو ذبح کرکے کھالو کیوںکہ یہ اس کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ۔تشریح : اصل میں لفظ ذبائح ذبیحہ کی جمع ہے ذبیحہ وہ جانور جو ذبح کیا جائے اور صید اس جانور کو جو شکار کیا جائے آیت ” الا ما ذکیتم “ میں ذبیحہ مراد ہے۔ حضرت ابن عباس ؓا کے قول کو ابن حاتم نے وصل کیا ہے۔ العقود سورۃ مائدہ میں ہے یعنی ” اوفوا بالعقود “ اللہ کے عہد وپیمان پورے کرو۔ آیت واحادیث کی بناءپر ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا حلت کی شرط ہے اگر عمداً بسم اللہ نہ پڑھا تو وہ جانور مردار ہوگا۔ دوسرے کتے سے غیر مسلم کا چھوڑا ہو ا کتا یا سدھا یا ہوا کتا مراد ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نوک دار لکڑی سے کیے ہوئے شکار کے متعلق نبی ﷺ سے دریافت کیا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر شکار اس کی نوک سے زخمی ہو جائے تو اسے کھا لو لیکن اگر عرض (چوڑائی) کے بل اسے لگے تو اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ موقوذہ ہے۔“ میں نے کتے سے کیے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ کتا تیرے کیے شکار کو روک رکھے تو کھا لو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا بھی ذبح کے حکم میں ہے۔ اگر تم اپنے کتے یا اپنے کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ تمہیں اندیشہ ہو کہ اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے شکار پکڑا ہوگا اور وہ شکار کو مار چکا ہو تو ایسے شکار کو نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر اللہ کا نام نہیں لیا تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) جانور کے حلال ہونے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، یعنی بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے اسے کھاؤ۔‘‘ (الأنعام: 118) دوسری صورت یہ ہے کہ شکاری کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی جائے بشرطیکہ وہ کتا سدھایا ہوا ہو۔ سدھایا ہوا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کتا شکار پر چھوڑا جائے جو دوڑتا ہوا جائے، جب اسے روکا جائے تو رک جائے اور جب شکار پکڑے تو اس میں سے کچھ نہ کھائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اگر تم نے سدھائے ہوئے کتے سے شکار کیا اور چھوڑتے وقت تو نے اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم غیر سدھائے کتے سے شکار کرو پھر تمہیں اسے ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو اسے بھی کھا سکتے ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الذبائح و الصید، حدیث: 5478) (2) ہمارے رجحان کے مطابق شکاری کتے سے کیے ہوئے شکار کو کھانے کی دو شرطیں ہیں: ٭ وہ کتا سدھایا ہوا ہو۔ ٭ چھوڑتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ ان دو شرطوں کے بغیر شکار حلال نہ ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تمہارے لیے حرام کیے گئے ہیں مردہ جانور۔ ۔ ۔ ۔ لہذا تم ان سے ڈرو، اور مجھی سے ڈرو۔“ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو!اللہ ضرور تمہیں اس چیز کے شکار کے زریعے سے آزمائے گا۔ ۔ ۔“ ُ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے نام تمہیں پڑھ کر سنا دیے جائیں گے۔ لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھی سے ڈرو۔“
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: عقود سے مراد وہ عہدو پیمان ہیں جو حلال وحرام کے متعلق کیے جائیں «۔ اِلاَّمَا یُتلٰی علیکم» سے مراد سور کا گوشت وغیرہ ہے۔ (یجرمنکم) کے معنیٰ ہیں: تمہیں آمادہ کرے۔ (شنان) کے معنیٰ ہیں: عدوات ودشمنی (المنخنفۃ) سے مراد جانور ہے جسے گلا گھونٹ کر مار دیا جائے۔ (الموقودۃ) سے مراد وہ جانور جسے لکڑی سے مارا گیا ہو۔ (المتردیہ) سے مراد وہ جانور جو پہاڑ سے پھسل کر مرجائے اور (النطیحۃ) وہ ہے جسے بکری سینگ مارے پھر اگر تم اسے دم ہلاتے ہوئے یا آنکھ کو حرکت دیتے ہوئے پالو تو ذبح کرکے کھالو
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے بے پر کے تیر یا لکڑی یا گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کی نوک شکار کو لگ جائے تو کھا لو لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے تو وہ نہ کھاؤ کیونکہ وہ موقوذہ ہے اور میں نے آپ سے کتے کے شکار کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جسے وہ تمہارے لیے رکھے (یعنی وہ خود نہ کھائے) اسے کھا لو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا یہ بھی ذبح کرنا ہے اور اگر تم اپنے کتے یا کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ اور تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے نے شکار اس دوسرے کے ساتھ پکڑا ہوگا اورکتا شکار کو مار چکا ہو تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام (بسم اللہ پڑھ کر) اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہ عدی عرب کے مشہور سخی حاتم کے بیٹے ہیں جو مسلمان ہو گئے تو یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو بسم اللہ پڑھنے کو حلت کی دلیل کہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ باز اورشکرے اور جملہ شکاری پرندوں کا بھی وہی حکم ہے جو کتے کا حکم ہے ان کا بھی شکار کھانا درست ہے جب بسم اللہ پڑھ کر ان کو شکار پر چھوڑا جائے۔ عدی اپنے باپ کی طرح سخی تھے کافی طویل عمر پائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Adi bin Hatim (RA) : I asked the Prophet (ﷺ) about the game killed by a Mi'rad (i.e. a sharp-edged piece of wood or a piece of wood provided with a sharp piece of iron used for hunting). He said, "If the game is killed with its sharp edge, eat of it, but if it is killed with its shaft, with a hit by its broad side then the game is (unlawful to eat) for it has been beaten to death." I asked him about the game killed by a trained hound. He said, "If the hound catches the game for you, eat of it, for killing the game by the hound, is like its slaughtering. But if you see with your hound or hounds another dog, and you are afraid that it might have shared in hunting the game with your hound and killed it, then you should not eat of it, because you have mentioned Allah's name on (sending) your hound only, but you have not mentioned it on some other hound