باب: بانس ، سفید دھاردار اور لوہار جو خون بہادے اس کاحکم کیا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The instruments that cause the blood to gush out)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5503.
سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس (جانور) کو تم کھا سکتے ہو لیکن ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو کیونکہ ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے اور دانت ہڈی ہے۔“ اس دوران میں ایک اونٹ بھاگ نکلا تواسے (تیر مار کر) روک لیا گیا۔ آپ نے اس کے متعلق فرمایا: ”یہ اونٹ جنگلی جانوروں کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں ان میں سے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائے اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔“
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے۔ اس دوران میں ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور اسے زخمی کر کے روک لیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس امر کی صراحت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تیز پتھر یا بانس کی پھانک سے ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز بھی رگوں کو کھول دے اس کے ساتھ ذبح کر سکتے ہو، البتہ دانت اور ناخن سے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔‘‘(المعجم الأوسط للطبراني: 238/5، و رقم: 7190، و فتح الباري: 781/9) (3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے ذبیحے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2826) شیطان کے ذبیحے سے مراد ایسا جانور ہے جس کا ذبح کے وقت ذرا سا حلق کاٹ دیا جائے اور پوری رگیں نہ کاٹی جائیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے۔ جاہلیت کے زمانے میں مشرک لوگ ایسا ہی کرتے تھے۔ چونکہ شیطان نے انہیں ایسے کام پر آمادہ کیا تھا، اس لیے اسے شیطان کا ذبیحہ کہا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، وہ اس طرح کہ چھری کو تیز کر لو اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچاؤ۔‘‘(صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 5055 (1955))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5292
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5503
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5503
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5503
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
ذبح کرنے کے لیے چھری کا ہونا ضروری نہیں بلکہ جس چیز سے بھی خون بہایا جا سکے، اس سے ذبح کرنا جائز ہے، خواہ تیز دھار پتھر ہو یا بانس وغیرہ کی پھانک، جانور کا خون بہنا چاہیے۔
سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس (جانور) کو تم کھا سکتے ہو لیکن ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو کیونکہ ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے اور دانت ہڈی ہے۔“ اس دوران میں ایک اونٹ بھاگ نکلا تواسے (تیر مار کر) روک لیا گیا۔ آپ نے اس کے متعلق فرمایا: ”یہ اونٹ جنگلی جانوروں کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں ان میں سے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائے اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے۔ اس دوران میں ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور اسے زخمی کر کے روک لیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس امر کی صراحت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تیز پتھر یا بانس کی پھانک سے ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز بھی رگوں کو کھول دے اس کے ساتھ ذبح کر سکتے ہو، البتہ دانت اور ناخن سے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔‘‘(المعجم الأوسط للطبراني: 238/5، و رقم: 7190، و فتح الباري: 781/9) (3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے ذبیحے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2826) شیطان کے ذبیحے سے مراد ایسا جانور ہے جس کا ذبح کے وقت ذرا سا حلق کاٹ دیا جائے اور پوری رگیں نہ کاٹی جائیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے۔ جاہلیت کے زمانے میں مشرک لوگ ایسا ہی کرتے تھے۔ چونکہ شیطان نے انہیں ایسے کام پر آمادہ کیا تھا، اس لیے اسے شیطان کا ذبیحہ کہا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، وہ اس طرح کہ چھری کو تیز کر لو اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچاؤ۔‘‘(صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 5055 (1955))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سعید بن مسروق نے، انہیں عبایہ بن رافع نے اور انہیں ان کے دادا (حضرت رافع بن خدیج ؓ ) نے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے پاس چھری نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو (دھار دار) چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو تو (اس سے ذبح کیا ہوا جانور) کھا سکتے ہو لیکن ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو کیونکہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور دانت ہڈی ہے اور ایک اونٹ بھاگ گیا تو (تیر مار کر) اسے روک لیا گیا۔ آپ نے اس پر فرمایا یہ اونٹ بھی جنگلی جانوروں کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں اس لیے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi bin Khadij (RA) : that he said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We have no knife." The Prophet (ﷺ) said, "if the killing tool causes blood to gush out, and if Allah's Name is mentioned, eat (of the slaughtered animal). But do not slaughter with a nail or a tooth, for the nail is the knife of Ethiopians and a tooth is a bone." Suddenly a camel ran away and it was stopped (with an arrow). The Prophet (ﷺ) then said, "Of these camels there are some which are as wild as wild beasts; so if one of them runs away from you and you cannot catch it, treat it in this manner (i.e. shoot it with an arrow)."