Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The animal slaughtered by a lady)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5505.
سیدنا معاذ بن سعد یاسعد بن معاذ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے کے قریب ہوئی تو اس نے (مرنے سے پہلے) اسے پتھر سے ذبح کر دیا، پھر نبی ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ۔“
تشریح:
جب عورت اچھی طرح ذبح کر سکتی ہو تو اس کا ذبیحہ جائز ہے، اسی طرح اگر بچہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو تو اس کا ذبیحہ بھی صحیح ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی عورت نے مالک کی اجازت کے بغیر ایک بکری ذبح کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تو اسے نہیں کھاؤں گا، البتہ اس کا گوشت قیدیوں کو کھلا دیا جائے۔‘‘(مسند أحمد: 294/5) اگر عورت کا ذبیحہ جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کو کھلانے کا حکم کیوں دیتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت، خواہ آزاد ہو یا لونڈی، بڑی ہو یا چھوٹی، مسلمان ہو یا اہل کتاب، پاک ہو یا ناپاک ہر حالت میں اس کا ذبیحہ جائز ہے۔ بعض اہل علم کے ہاں عورت کا ذبیحہ مکروہ ہے۔ لیکن مکروہ ہونے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ (فتح الباري: 783/9)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5294
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5505
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5505
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5505
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا معاذ بن سعد یاسعد بن معاذ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے کے قریب ہوئی تو اس نے (مرنے سے پہلے) اسے پتھر سے ذبح کر دیا، پھر نبی ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
جب عورت اچھی طرح ذبح کر سکتی ہو تو اس کا ذبیحہ جائز ہے، اسی طرح اگر بچہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو تو اس کا ذبیحہ بھی صحیح ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی عورت نے مالک کی اجازت کے بغیر ایک بکری ذبح کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تو اسے نہیں کھاؤں گا، البتہ اس کا گوشت قیدیوں کو کھلا دیا جائے۔‘‘(مسند أحمد: 294/5) اگر عورت کا ذبیحہ جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کو کھلانے کا حکم کیوں دیتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت، خواہ آزاد ہو یا لونڈی، بڑی ہو یا چھوٹی، مسلمان ہو یا اہل کتاب، پاک ہو یا ناپاک ہر حالت میں اس کا ذبیحہ جائز ہے۔ بعض اہل علم کے ہاں عورت کا ذبیحہ مکروہ ہے۔ لیکن مکروہ ہونے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ (فتح الباري: 783/9)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے ، ان سے قبیلہ انصار کے ایک آدمی نے کہ حضرت معاذ بن سعد یا سعد بن معاذ نے انہیں خبر دی کہ کعب بن مالک ؓ کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے لگی تو اس نے اسے مرنے سے پہلے پتھر سے ذبح کر دیا پھر نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے کھاؤ۔
حدیث حاشیہ:
باب اور احادیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu'adh bin Sad or Sad bin Mu'adh (RA) : A slave girl belonging to Ka'b used to graze some sheep at Sl'a (mountain). Once one of her sheep was dying. She reached it (before it died) and slaughtered it with a stone. The Prophet (ﷺ) was asked, and he said, "Eat it."