باب: اگر مجاہدین کی کسی جماعت کو غنیمت ملے اور ان میں سے کچھ لوگ اپنے دوسرے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر ( تقسیم سے پہلے ) غنیمت کی بکری یا اونٹ میں سے کچھ ذبح کرلیں تو ایسا گوشت کھانا حلال نہیں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: To slaughter sheep or camels from war booty without the permission of the companions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
بوجہ رافع بن خدیج ؓ کی حدیث کے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے ۔ طاؤس اور عکرمہ نے چور کے ذبیحہ کے متعلق کہا کہ اسے پھینک دو ( معلوم ہوا کہ وہ کھانا حرام ہے
5543.
سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کی: کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو آلہ بھی خون بہا دے اسے کھاؤ بشرطیکہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو نیز ذبح کا آلہ دانت اور ناخن نہں ہونا چاہیئے اورمیں اس کی وجہ تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ اس دوران میں کچھ لوگ آگے بڑھ گئے اور مال غنیمت پر قبضہ کر لیا جبکہ نبی ﷺ اپنے صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ پیچھے تھے، ان لوگوں نے گوشت کی دیگیں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ نے حکم دیا تو انہیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے لوگوں میں مال غنیمت تقسیم کیا اور ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر قرار دیا۔ جو لوگ آگے تھے ان کا ایک اونٹ بدک کر بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے اسلیے ایک شخص نے اس اونٹ کو تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جانور بھی کبھی وحشی جانوروں کی طرح بدکنے لگتے ہیں، اس لیے جب ان میں کوئی ایسا کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرو۔
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے مختصر طور پر حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا حوالہ دیا، پھر تفصیلی روایت بیان کی۔ چونکہ تقسیم غنیمت سے پہلے وہ ان کے مالک نہیں تھے، لہذا ان کا اجازت کے بغیر جانوروں کو ذبح کرنا ناجائز تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوشت کو ضائع کر دیا۔ اسی طرح چور جب چوری کا جانور ذبح کرتا ہے تو بھی کسی غیر کے مال پر ناجائز تصرف کرتا ہے، اس کا بھی کھانا منع ہے۔ اگرچہ کچھ فقہاء نے چور کے ذبح کیے ہوئے جانور کو کھانا جائز قرار دیا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5331
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5543
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5543
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5543
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ واقعے میں پکا ہوا گوشت کھانے سے اس لیے منع کیا تھا کہ وہ جانور تقسیم سے پہلے ذبح کیے گئے تھے۔ (فتح الباری: 9/831)
بوجہ رافع بن خدیج ؓ کی حدیث کے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے ۔ طاؤس اور عکرمہ نے چور کے ذبیحہ کے متعلق کہا کہ اسے پھینک دو ( معلوم ہوا کہ وہ کھانا حرام ہے
حدیث ترجمہ:
سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کی: کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو آلہ بھی خون بہا دے اسے کھاؤ بشرطیکہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو نیز ذبح کا آلہ دانت اور ناخن نہں ہونا چاہیئے اورمیں اس کی وجہ تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ اس دوران میں کچھ لوگ آگے بڑھ گئے اور مال غنیمت پر قبضہ کر لیا جبکہ نبی ﷺ اپنے صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ پیچھے تھے، ان لوگوں نے گوشت کی دیگیں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ نے حکم دیا تو انہیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے لوگوں میں مال غنیمت تقسیم کیا اور ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر قرار دیا۔ جو لوگ آگے تھے ان کا ایک اونٹ بدک کر بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے اسلیے ایک شخص نے اس اونٹ کو تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جانور بھی کبھی وحشی جانوروں کی طرح بدکنے لگتے ہیں، اس لیے جب ان میں کوئی ایسا کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرو۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے مختصر طور پر حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا حوالہ دیا، پھر تفصیلی روایت بیان کی۔ چونکہ تقسیم غنیمت سے پہلے وہ ان کے مالک نہیں تھے، لہذا ان کا اجازت کے بغیر جانوروں کو ذبح کرنا ناجائز تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوشت کو ضائع کر دیا۔ اسی طرح چور جب چوری کا جانور ذبح کرتا ہے تو بھی کسی غیر کے مال پر ناجائز تصرف کرتا ہے، اس کا بھی کھانا منع ہے۔ اگرچہ کچھ فقہاء نے چور کے ذبح کیے ہوئے جانور کو کھانا جائز قرار دیا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
اس کے متعلق حضرت رافع بن خدیج ؓ نے نبی ﷺ سے حدیث بیان کی ہے۔ حضرت طاؤس اور عکرمہ نے چور کے ذبیحے کے متعلق فرمایا ہے کہ اسے پھینک دو، یعنی یہ حرام ہے اسے مت کھاؤ
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو الاحوص نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے بیان کیا، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبایہ کے دادا رافع بن خدیج ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو آلہ خون بہا دے اور (جانوروں کو ذبح کرتے وقت) اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھاؤ بشرطیکہ ذبح کا آلہ دانت اور ناخن نہ ہو اور میں اس کی وجہ تمہیں بتاؤں گا، دانت توہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور جلدی کرنے والے لوگ آگے بڑھ گئے تھے اور غنیمت پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نبی کریم ﷺ پیچھے کے صحابہ کے ساتھ تھے چنانچہ (آگے پہنچنے والوں نے جانور ذبح کر کے) ہانڈیاں پکنے کے لیے چڑھا دیں لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں الٹ دینے کا حکم فرمایا پھر آپ نے غنیمت لوگوں کے درمیان تقسیم کی۔ اس تقسیم میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر آپ نے قرار دیا تھا پھر آگے کے لوگوں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے پھر ایک شخص نے اس اونٹ پر تیر مارا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک لیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ جانور بھی کبھی وحشی جانوروں کی طرح بدکنے لگتے ہیں۔ اس لیے جب ان میں سے کوئی ایسا کرے تو تم بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کرو۔
حدیث حاشیہ:
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ حارثی انصاری ہے۔ جنگ احد میں ان کو تیر لگا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن تمہارے اس تیر کا گواہ ہوں۔ ان کا زخم عبدالملک بن مروان کے زمانہ تک باقی رہا۔ 86 سال کی عمر میں سنہ 73ھ میں وفات پائی، رضي اللہ عنه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rait' bin Khadij (RA) : I said to the Prophet, "We will be facing the enemy tomorrow and we have no knives (for slaughtering)' He said, "If you slaughter the animal with anything that causes its blood to flow out, and if Allah's Name is mentioned on slaughtering it, eat of it, unless the killing instrument is a tooth or nail. I will tell you why: As for the tooth, it is a bone; and as for the nail, it is the knife of Ethiopians." The quick ones among the people got the war booty while the Prophet (ﷺ) was behind the people. So they placed the cooking pots on the fire, but the Prophet (ﷺ) ordered the cooking pots to be turned upside down. Then he distributed (the war booty) among them, considering one camel as equal to ten sheep. Then a camel belonging to the first party of people ran away and they had no horses with them, so a man shot it with an arrow whereby Allah stopped it. The Prophet (ﷺ) said, "Of these animals there are some which are as wild as wild beasts. So, if anyone of them runs away like this, do like this (shoot it with an arrow)."