باب: جب کسی قوم کا کوئی اونٹ بدک جائے اور ان میں سے کوئی شخص خیر خواہی کی نیت سے اسے تیر سے نشانہ لگا کر مار ڈالے تو جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: To kill a runaway camel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت رافع بن خدیج ؓ کی نبی کریم ﷺ سے روایت کردہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے ۔
5544.
سیدنا رافع بن خدریج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے تو اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ نکلا۔ ایک آدمی نے اسے تیر مار کر روک لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے ان میں سے جو جانور تمہارے قابو سے باہر ہو جائے، اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔“ رافع بن خدیج ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم بعض اوقات غزوات اور سفر میں ہوتے ہیں اور جانور ذبح کرنا چاہیتے ہیں لیکن ہمارے پاس چھریاں نہیں ہوتیں؟ آپ نے فرمایا: ”دیکھ لیا کرو جو آلہ خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوتو اسے کھاؤ مگر دانت اور ناخن سے ذبح نہ کرو کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھوری ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں دو واقعات ہیں: ایک یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقسیم غنیمت سے پہلے گوشت کی دیگیں چڑھا دیں، دوسرا یہ کہ اونٹ بھاگ نکلا تو اسے کسی نے تیر مار کر روک لیا۔ ان دونوں واقعات سے امام بخاری رحمہ اللہ نے الگ الگ مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن علامہ اسماعیلی نے امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض کیا ہے کہ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ذبح کرنے میں دونوں واقعات میں حد سے تجاوز کیا گیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ پہلی صورت میں لوگوں نے تقسیم سے پہلے جانور ذبح کر دیے تاکہ وہ گوشت کو اپنے لیے خاص کر لیں تو انہیں اس گوشت سے محروم کر دینے کی سزا دی گئی اور جس صورت میں آدمی نے اونٹ کو تیر مار کر روکا، اس میں مالک کے مال کو محفوظ رکھنے کا جذبہ کار فرما تھا۔ شارح صحیح بخاری ابن منیر نے بھی یہی لکھا ہے کہ اگر غیر مالک کا ذبح کرنا زیادتی کے طور پر ہے تو اس کا ذبح کرنا فاسد ہے اور اگر اس کا ذبح کرنا اصلاح کے جذبے سے ہے تو فاسد نہیں ہے۔ (فتح الباري: 832/9) ایک حدیث میں ہے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لونڈی نے ان کی بکری اجازت کے بغیر ذبح کر دی جو مرنے کے قریب پہنچ چکی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کی اجازت دی۔ (صحیح البخاري، الذبائح و الصید، حدیث: 5501) اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کیا ہوا عنوان ثابت ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5332
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5544
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5544
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5544
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
اس شخص نے جذبۂ ہمدردی کے پیش نظر ایسا کیا ہے، لہذا اس پر کسی قسم کا تاوان نہیں ہو گا، جبکہ سابقہ عنوان میں ہمدردی کے بجائے اپنا کام نکالنے کا جذبہ پیش نظر تھا۔ واللہ اعلم
حضرت رافع بن خدیج ؓ کی نبی کریم ﷺ سے روایت کردہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا رافع بن خدریج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے تو اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ نکلا۔ ایک آدمی نے اسے تیر مار کر روک لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے ان میں سے جو جانور تمہارے قابو سے باہر ہو جائے، اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔“ رافع بن خدیج ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم بعض اوقات غزوات اور سفر میں ہوتے ہیں اور جانور ذبح کرنا چاہیتے ہیں لیکن ہمارے پاس چھریاں نہیں ہوتیں؟ آپ نے فرمایا: ”دیکھ لیا کرو جو آلہ خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوتو اسے کھاؤ مگر دانت اور ناخن سے ذبح نہ کرو کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھوری ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں دو واقعات ہیں: ایک یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقسیم غنیمت سے پہلے گوشت کی دیگیں چڑھا دیں، دوسرا یہ کہ اونٹ بھاگ نکلا تو اسے کسی نے تیر مار کر روک لیا۔ ان دونوں واقعات سے امام بخاری رحمہ اللہ نے الگ الگ مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن علامہ اسماعیلی نے امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض کیا ہے کہ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ذبح کرنے میں دونوں واقعات میں حد سے تجاوز کیا گیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ پہلی صورت میں لوگوں نے تقسیم سے پہلے جانور ذبح کر دیے تاکہ وہ گوشت کو اپنے لیے خاص کر لیں تو انہیں اس گوشت سے محروم کر دینے کی سزا دی گئی اور جس صورت میں آدمی نے اونٹ کو تیر مار کر روکا، اس میں مالک کے مال کو محفوظ رکھنے کا جذبہ کار فرما تھا۔ شارح صحیح بخاری ابن منیر نے بھی یہی لکھا ہے کہ اگر غیر مالک کا ذبح کرنا زیادتی کے طور پر ہے تو اس کا ذبح کرنا فاسد ہے اور اگر اس کا ذبح کرنا اصلاح کے جذبے سے ہے تو فاسد نہیں ہے۔ (فتح الباري: 832/9) ایک حدیث میں ہے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لونڈی نے ان کی بکری اجازت کے بغیر ذبح کر دی جو مرنے کے قریب پہنچ چکی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کی اجازت دی۔ (صحیح البخاري، الذبائح و الصید، حدیث: 5501) اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کیا ہوا عنوان ثابت ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت رافع بن خدریج ؓ کی نبی ﷺسے مروی ایک حدیث اس کی تائید کرتی ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عمر بن عبید الطنافسی نے خبر دی، انہیں سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے، ان سے ان کے دادا حضرت رافع بن خدیج ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا، پھر ایک آدمی نے تیر سے اسے مارا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا، بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے ان میں سے جو تمہارے قابوسے باہر ہو جائیں، ان کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ رافع نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم اکثرغزوات اور دوسرے سفروں میں رہتے ہیں اور جانور ذبح کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس چھریاں نہیں ہوتیں۔ فرمایا کہ دیکھ لیا کرو جو آلہ خون بہا دے یا (آپ نے بجائے نھر کے) أنھر فرمایا اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ۔ البتہ دانت اور ناخن نہ ہو کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبش والوں کی چھری ہے۔
حدیث حاشیہ:
چھری نہ ہونے پر بوقت ضرورت دانت اور ناخون کے سوا ہر ایسے آلہ سے ذبح جائز ہے جو خون بہا سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi bin Khadij (RA) : While we were with the Prophet. on a journey, one of the camels ran away. A man shot it with an arrow and stopped it. The Prophet (ﷺ) said, "Of these camels some are as wild as wild beasts, so if one of them runs away and you cannot catch it, then do like this (shoot it with an arrow)." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Sometimes when we are in battles or on a journey we want to slaughter (animals) but we have no knives." He said, "Listen! If you slaughter the animal with anything that causes its blood to flow out, and if Allah's Name is mentioned on slaughtering it, eat of it, provided that the slaughtering instrument is not a tooth or a nail, as the tooth is a bone and the nail is the knife of Ethiopians."