باب: اس کے متعلق جس نے نماز سے پہلے قربانی کی اور پھر اسے لوٹایا
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: Whoever slaughters his sacrifice before the 'Eid prayer should repeat it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5561.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے عید سے پہلے قربانی کر لی ہو وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ ایک آدمی نے عرض کی: اس دن لوگوں کو گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے پھر اس نے اپنے پڑوسیوں کی محتاجی کا ذکر کیا گویا رسول اللہ ﷺ نے اسے معذور خیال کیا۔ اس نے مزید کہا کہ میرے پاس بکری کا یکسالہ بچہ ہے جو دو بکریاں سے بھی اچھا ہے تو آپ ﷺ نے اسے اجازت دے دی۔ سیدنا انس ؓ نے کہا: مجھے علم نہیں کہ یہ رخصت دوسروں کے لیے تھی یا نہیں۔ پھر آپ ﷺ دو مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے یعنی ان کو ذبح کیا۔ اس کے بعد لوگ اپنی بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ذبح کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5349
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5561
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5561
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5561
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے عید سے پہلے قربانی کر لی ہو وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ ایک آدمی نے عرض کی: اس دن لوگوں کو گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے پھر اس نے اپنے پڑوسیوں کی محتاجی کا ذکر کیا گویا رسول اللہ ﷺ نے اسے معذور خیال کیا۔ اس نے مزید کہا کہ میرے پاس بکری کا یکسالہ بچہ ہے جو دو بکریاں سے بھی اچھا ہے تو آپ ﷺ نے اسے اجازت دے دی۔ سیدنا انس ؓ نے کہا: مجھے علم نہیں کہ یہ رخصت دوسروں کے لیے تھی یا نہیں۔ پھر آپ ﷺ دو مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے یعنی ان کو ذبح کیا۔ اس کے بعد لوگ اپنی بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ذبح کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی ہو وہ دوبارہ قربانی کرے۔ اس پر ایک صحابی اٹھے اور عرض کیا اس دن گوشت کی لوگوں کی خواہش زیادہ ہوتی ہے پھر انہوں نے اپنے پڑوسیوں کی محتاجی کا ذکر کیا جیسے آنحضرت ﷺ نے ان کا عذر قبول کر لیا ہو (انہوں نے یہ بھی کہا کہ) میرے پاس ایک سال کا ایک بچہ ہے اور بکریوں سے بھی اچھا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے انہیں اس کے قربانی کی اجازت دے دی لیکن مجھے اس کا علم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی تھی یا نہیں پھر آنحضرت ﷺ دو مینڈھوں کی طرف متوجہ ہو ئے۔ ان کی مراد یہ تھی کہ انہیں آنحضرت ﷺ نے ذبح کیا پھر لوگ بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ذبح کیا۔
حدیث حاشیہ:
جذعۃ پانچواں سال میں جو اونٹ لگا ہو اور دوسرے برس میں جو گائے بکری لگی ہو بھیڑ جو برس بھر کی ہو گئی ہو آٹھ ماہ کی بھیڑ بھی جذعة ہے۔ (لغات الحدیث)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Whoever slaughtered the sacrifice before the 'Id prayer, should repeat it (slaughter another one)." A man said "This is the day on which meat is desired." Then he mentioned the need of his neighbors (for meat) and the Prophet (ﷺ) seemed to accept his excuse. The man said, "I have a Jadha'a which is to me better than two sheep." The Prophet (ﷺ) allowed him (to slaughter it as a sacrifice). But I do not know whether this permission was general for all Muslims or not. The Prophet (ﷺ) then went towards two rams and slaughtered them, and the people went towards their sheep and slaughtered them.