باب:اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(درسورۂ مائدہ) کی تفیسر” بلا شبہ شراب ، جوا ، بت اور پانسے گندے کا م ہیں شیطان کے کاموں سے پس تم ان سے پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: "Intoxicants, gambling, Al-Ansab and Al-Azlam are an abomination of Shaitan's handiwork ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5578.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا، جب کوئی شراب پیتا ہے تو عین شراب نوشی کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ جب چور چوری کرتا ہے تو عین چوری کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔“ ایک روایت میں(راوئ حدیث) ابو بکر بن عبدالرحمن، سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں مذکورہ امور کے ساتھ یہ اضافہ کرتے تھے: ”جب کوئی کسی قدر اور شرافت والے مال و متاع پر ڈاکا دالتا ہے کہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے رہ جائیں تو وہ بھی لوٹ مار کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔“
تشریح:
(1) حدیث میں مذکور گناہوں کا مرتکب ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو اس کے دل میں ایمان لوٹ آتا ہے اور اگر یہی کام کرتا رہے اور اسی حالت میں موت آ جائے تو وہ بے ایمان ہو کر مرتا ہے۔ (2) اس حدیث میں شراب نوشی کرنے والے کے متعلق بہت سخت وعید ہے کہ اس حالت میں اگر موت آ جائے تو ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔ چنانچہ ایک موقوف حدیث میں ہے: شراب سے احتراز کرو کیونکہ یہ ام الخبائث ہے۔ ایمان اور شراب دونوں اکٹھے اور یکجا نہیں رہ سکتے، ان میں ایک، دوسرے سے انسان کو فارغ کر دیتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 288/8) (3) اہل سنت کا موقف ہے کہ شراب نوشی کرنے والا کامل ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنے لیے حلال سمجھتا ہے تو مطلق ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری: 44/10) حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس سے ایمان کیسے نکال لیا جاتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس طرح۔ انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈالیں پھر انہیں نکال لیا۔ اگر وہ توبہ کرے تو ایمان اس کی طرف اس طرح لوٹ آتا ہے۔ پھر انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6809)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5366
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5578
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5578
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5578
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
مشروبات میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے حرام مشروبات کو بیان کیا ہے کیونکہ وہ حلال مشروبات کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں، جب انسان ان سے واقف ہو گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان کے علاوہ دیگر مشروبات حلال ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیت کا حوالہ دیا ہے۔ سیاق و سباق کے اعتبار سے مکمل ترجمہ حسب ذیل ہے: "اے ایمان والو! شراب، جوا، بت اور فال نکالنے کے تیر یہ سب ناپاک کام، اعمال شیطان میں سے ہیں، لہذا تم (ان سے) بچو تاکہ نجات پاؤ۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے بھی روک دے تو کیا تم ان (شیطانی کاموں) سے باز نہیں آؤ گے۔" (المائدۃ: 5/90،91)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا، جب کوئی شراب پیتا ہے تو عین شراب نوشی کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ جب چور چوری کرتا ہے تو عین چوری کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔“ ایک روایت میں(راوئ حدیث) ابو بکر بن عبدالرحمن، سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں مذکورہ امور کے ساتھ یہ اضافہ کرتے تھے: ”جب کوئی کسی قدر اور شرافت والے مال و متاع پر ڈاکا دالتا ہے کہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے رہ جائیں تو وہ بھی لوٹ مار کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں مذکور گناہوں کا مرتکب ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو اس کے دل میں ایمان لوٹ آتا ہے اور اگر یہی کام کرتا رہے اور اسی حالت میں موت آ جائے تو وہ بے ایمان ہو کر مرتا ہے۔ (2) اس حدیث میں شراب نوشی کرنے والے کے متعلق بہت سخت وعید ہے کہ اس حالت میں اگر موت آ جائے تو ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔ چنانچہ ایک موقوف حدیث میں ہے: شراب سے احتراز کرو کیونکہ یہ ام الخبائث ہے۔ ایمان اور شراب دونوں اکٹھے اور یکجا نہیں رہ سکتے، ان میں ایک، دوسرے سے انسان کو فارغ کر دیتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 288/8) (3) اہل سنت کا موقف ہے کہ شراب نوشی کرنے والا کامل ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنے لیے حلال سمجھتا ہے تو مطلق ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری: 44/10) حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس سے ایمان کیسے نکال لیا جاتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس طرح۔ انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈالیں پھر انہیں نکال لیا۔ اگر وہ توبہ کرے تو ایمان اس کی طرف اس طرح لوٹ آتا ہے۔ پھر انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6809)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور ابن مسیب سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص جب زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب وہ شراب پیتا ہے تو عین شراب پیتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب چور چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ اورا بن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبدالملک بن ابی بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، ان سے حضرت ابو بکر ؓ بیان کرتے تھے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ پھر انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں امور مذکورہ کے ساتھ اتنا اور زیادہ کرتے تھے کہ کوئی شخص (دن دھاڑے) اگر کسی بڑی پونجی پر اس طور ڈاکہ ڈالتا ہے کہ لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں تو وہ مومن رہتے ہوئے یہ لوٹ مار نہیں کرتا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ایمان سے بالکل محروم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ گناہ ایمان کی ضد ہیں پھر اگر وہ توبہ کر لے تو اس کے دل میں ایمان لوٹ آتا ہے اور اگر یہی کام کرتا رہے تو وہ بے ایمان بن کر مرتا ہے۔ اس کی تائید وہ حدیث کرتی ہے جس میں فرمایا کہ ''والمُؤمِنُ مَن أمِنَه الناسُ على دِمائِهِم وَ أمْوالِهِم''
مومن وہ ہے جس کو لوگ اپنے خون اور اپنے مالوںکے لیے امین سمجھیں، سچ ہے۔ لا إيمانَ لمن لا أمانةَ له ، ولا دينَ لمن لا عهدَ له
اأو کما قال صلی اللہ علیه وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "An adulterer, at the time he is committing illegal sexual intercourse is not a believer; and a person, at the time of drinking an alcoholic drink is not a believer; and a thief, at the time of stealing, is not a believer." Ibn Shihab (RA) said: 'Abdul Malik bin Abi Bakr bin 'Abdur-Rahman bin Al- Harith bin Hisham told me that Abu Bakr (RA) used to narrate that narration to him on the authority of Abu Hurairah (RA) . He used to add that Abu Bakr (RA) used to mention, besides the above cases, "And he who robs (takes illegally something by force) while the people are looking at him, is not a believer at the time he is robbing (taking)