مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5611.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے باغات کے لحاظ سے تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا محبوب ترین مال بیرحاء تھا اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے اور اس میں میٹھا پانی نوش فرماتے تھے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”تم ہرگز بھلائی نہیں پاؤ گے حتٰی کہ تم اپنے محبوب مال سے خرچ کرو۔“ تو حضرت ابو طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”تم ہرگز نیکی نہیں پاؤ گے حتیٰ کہ اپنی محبوب ترین چیز خرچ کرو۔“ اور میرا محبوب ترین مال بیرحاء ہے وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کا اجر و ثواب اللہ کے ہاں پانے کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول! آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خوب! یہ بہت فائدہ بخش مال ہے۔“ (آپ نے مزید فرمایا) ”جو کچھ تو نے کہا میں اسے سن لیا ہے لہذا میری رائے ہے کہ تم اسے اپنے رشتے داروں میں تقسیم کر دو۔“ حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ انہوں نے وہ (مال) اپنے رشتے داروں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ اسماعیل اور یحیٰی بن یحییٰ نے ''رایح'' کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
تشریح:
(1) میٹھا اور شیریں پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں میٹھا پانی پینے کے لیے تشریف لے جاتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میٹھا پانی "سُقیا" کے گھروں میں لایا جاتا تھا۔ راوئ حدیث حضرت قتیبہ کہتے ہیں کہ سقیا ایک چشمے کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے دو دن کی مسافت پر تھا۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3735) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت انس، ہند اور حارثہ جو اسماء کے بیٹے ہیں بیوت السقیا سے پانی لایا کرتے تھے اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام حضرت رباح بھی میٹھا پانی لانے کا اہتمام کرتا تھا، کبھی بئر عرس سے اور کبھی بیوت السقیا سے لاتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر میں پڑاؤ کیا تو وہ بھی مالک بن نضر رضی اللہ عنہ کے کنویں سے میٹھا پانی آپ کے لیے لایا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔ (فتح الباري: 94/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5399
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5611
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5611
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5611
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
نمکین اور کھارے پانی کے مقابلے میں میٹھا پانی عام سادہ پانی ہوتا ہے جس میں چینی یا شہد نہیں ملایا ہوتا۔ صاف اور عمدہ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے باغات کے لحاظ سے تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا محبوب ترین مال بیرحاء تھا اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے اور اس میں میٹھا پانی نوش فرماتے تھے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”تم ہرگز بھلائی نہیں پاؤ گے حتٰی کہ تم اپنے محبوب مال سے خرچ کرو۔“ تو حضرت ابو طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”تم ہرگز نیکی نہیں پاؤ گے حتیٰ کہ اپنی محبوب ترین چیز خرچ کرو۔“ اور میرا محبوب ترین مال بیرحاء ہے وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کا اجر و ثواب اللہ کے ہاں پانے کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول! آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خوب! یہ بہت فائدہ بخش مال ہے۔“ (آپ نے مزید فرمایا) ”جو کچھ تو نے کہا میں اسے سن لیا ہے لہذا میری رائے ہے کہ تم اسے اپنے رشتے داروں میں تقسیم کر دو۔“ حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ انہوں نے وہ (مال) اپنے رشتے داروں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ اسماعیل اور یحیٰی بن یحییٰ نے ''رایح'' کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) میٹھا اور شیریں پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں میٹھا پانی پینے کے لیے تشریف لے جاتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میٹھا پانی "سُقیا" کے گھروں میں لایا جاتا تھا۔ راوئ حدیث حضرت قتیبہ کہتے ہیں کہ سقیا ایک چشمے کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے دو دن کی مسافت پر تھا۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3735) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت انس، ہند اور حارثہ جو اسماء کے بیٹے ہیں بیوت السقیا سے پانی لایا کرتے تھے اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام حضرت رباح بھی میٹھا پانی لانے کا اہتمام کرتا تھا، کبھی بئر عرس سے اور کبھی بیوت السقیا سے لاتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر میں پڑاؤ کیا تو وہ بھی مالک بن نضر رضی اللہ عنہ کے کنویں سے میٹھا پانی آپ کے لیے لایا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔ (فتح الباري: 94/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابو طلحہ ؓ کے پاس مدینہ کے تمام انصار میں سب سے زیادہ کھجور کے باغات تھے اوران کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء کا باغ تھا۔ یہ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے تھے اور اس کا عمدہ پانی پیتے تھے۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ پھر جب آیت ”تم ہرگز نیکی نہیں پاؤگے جب تک وہ مال نہ خرچ کرو جو تمہیں عزیز ہو۔“ نازل ہوئی تو ابو طلحہ ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”تم ہرگز نیکی کو نہیں پاؤگے جب تک وہ مال نہ خرچ کرو جو تمہیں عزیز ہو۔“ اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ عزیز بیرحاء کا باغ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں صدقہ ہے، اس کا ثواب اور اجر میں اللہ کے یہاں پانے کی امید رکھتا ہوں، ا س لیے یا رسول اللہ! آپ جہاں اسے مناسب خیال فرمائیں خرچ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ٰخوب یہ بہت ہی فائدہ بخش مال ہے یا (اس کے بجائے آپ نے) رايح (یاء کے ساتھ فرمایا) راوی حدیث عبداللہ کو اس میں شک تھا (آنحضرت ﷺ نے ان سے مزید فرمایا کہ) جو کچھ تو نے کہا ہے میں نے سن لیا۔ میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں کو دے دو۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا کہ ایسا ہی کروں گا یا رسول اللہ! چنانچہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اپنے چچا کے لڑکوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ اور اسماعیل اور یحییٰ بن یحییٰ نے ''رايح'' کا لفظ نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
بیرحاء کے میٹھے پانی والے باغ میں پانی پینے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے جانا یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے بیرحی یا بیرحاء یہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ کا نام تھا۔ (لغات الحدیث، کتاب ، ص: 4) میٹھا پانی اللہ کی بڑی بھاری نعمت ہے۔ جیسا کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وارد ہے کہ (إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنْ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ : أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنْ الْمَاءِ الْبَارِدِ) یعنی قیامت کے روز اللہ پہلے ہی حساب میں فرمائے گا کہ اے بندے! کیا میں نے تجھ کو تندرستی نہیں دی تھی اور کیا میں نے تجھے ٹھنڈے میٹھے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا۔﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾(الضحیٰ: 11) کی تعمیل میں یہ نوٹ لکھا گیا ﴿وَاللہُ عَلیم بِذاتِ الصُدُور﴾ الحمد للہ خادم نے اپنے کھیتوں واقع موضع رہپواہ میں دو کنوئیں تعمیر کرائے ہیں جس میں بہترین میٹھا پانی ہے۔ پہلا کنواں حضرت ڈاکٹر عبدالوحید صاحب کوٹہ راجستھان کا تعمیر کردہ ہے جس کا پانی بہت ہی میٹھا ہے جزاہ اللہ خیر الجزاء في الدارین (خادم راز عفي عنه)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Abu Talha had the largest number of datepalms from amongst the Ansars of Medina. The dearest of his property to him was Bairuha garden which was facing the (Prophet's) Mosque. Allah's Apostle (ﷺ) used to enter it and drink of its good fresh water. When the Holy Verse:-- 'By no means shall you attain righteousness unless you spend (in charity) of that which you love.' (3.92) was revealed, Abu Talha got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allah says: By no means shall you attain righteousness unless you spend of that which you love,' and the dearest of my property to me is the Bairuha garden and I want to give it in charity in Allah's Cause, seeking to be rewarded by Allah for that. So you can spend it, O Allah's Apostle, where-ever Allah instructs you. ' Allah s Apostle (ﷺ) said, "Good! That is a perishable (or profitable) wealth" ('Abdullah is in doubt as to which word was used.) He said, "I have heard what you have said but in my opinion you'd better give it to your kith and kin." On that Abu Talha said, "I will do so, O Allah's Apostle! (ﷺ) " Abu Talha distributed that garden among his kith and kin and cousins.