Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: To visit sick children)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5655.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا، اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ وہ حضرت سعد اور حضرت ابی بن کعب ؓ تھے۔ پیغام تھا کہ میری لخت جگر بستر مرگ پر پڑی ہے، اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام بھیجا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہی کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے۔ اس کے نزدیک ہر چیز ایک مقرر مدت تک کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالٰی سے اس مصیبت پر اجر کی امید رکھو اور صبر کرو۔“ صاحبزادی نے پھر آپ ﷺ کو قسم دے کر پیغام بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے پھر بچی کو نبی ﷺ کو گود میں رکھ دیا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا اور وہ بے قرار تھی، (یہ منظر دیکھ کر) نبی ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس پر حضرت سعد ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے اسے رکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ صرف انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو خود بھی رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے جو اس وقت حالت نزع میں تھی، جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ ایسے حالات میں صبر کرنا چاہیے، رونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب آپ نے دیا: ’’یہ اللہ کی رحمت ہے جو صبر کے منافی نہیں۔ یہ جذبہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔‘‘ (2) اللہ تعالیٰ کے ہاں سو رحمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک رحمت اللہ تعالیٰ نے جِنوں، انسانوں، جانوروں اور حشرات میں رکھی ہے جس کے باعث وہ ایک دوسرے سے شفقت کرتے ہیں حتی کہ وحشی جانور بھی اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ باقی ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر قیامت کے دن نازل فرمائے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5442
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5655
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5655
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5655
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا، اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ وہ حضرت سعد اور حضرت ابی بن کعب ؓ تھے۔ پیغام تھا کہ میری لخت جگر بستر مرگ پر پڑی ہے، اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام بھیجا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہی کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے۔ اس کے نزدیک ہر چیز ایک مقرر مدت تک کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالٰی سے اس مصیبت پر اجر کی امید رکھو اور صبر کرو۔“ صاحبزادی نے پھر آپ ﷺ کو قسم دے کر پیغام بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے پھر بچی کو نبی ﷺ کو گود میں رکھ دیا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا اور وہ بے قرار تھی، (یہ منظر دیکھ کر) نبی ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس پر حضرت سعد ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے اسے رکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ صرف انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو خود بھی رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے جو اس وقت حالت نزع میں تھی، جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ ایسے حالات میں صبر کرنا چاہیے، رونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب آپ نے دیا: ’’یہ اللہ کی رحمت ہے جو صبر کے منافی نہیں۔ یہ جذبہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔‘‘ (2) اللہ تعالیٰ کے ہاں سو رحمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک رحمت اللہ تعالیٰ نے جِنوں، انسانوں، جانوروں اور حشرات میں رکھی ہے جس کے باعث وہ ایک دوسرے سے شفقت کرتے ہیں حتی کہ وحشی جانور بھی اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ باقی ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر قیامت کے دن نازل فرمائے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عاصم نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابو عثمان سے سنا اور انہوں نے اسامہ بن زید ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی (حضرت زینب ؓ ) نے آپ کو کہلوا بھیجا۔ اس وقت حضور اکرم ﷺ کے ساتھ حضرت سعد ؓ اور ہمارا خیال ہے کہ حضرت ابی بن کعب ؓ تھے کہ میری بچی بستر مرگ پر پڑی ہے اس لیے آنحضرت ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائیں۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے ہر چیز اس کے یہاں متعین و معلوم ہے۔ اس لیے اللہ سے اس مصبیت پر اجر کی امید وار رہو اور صبر کرو۔ صاحبزادی نے پھر دوبارہ قسم دے کر ایک آدمی بلانے کو بھیجا۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے پھر بچی آنحضرت ﷺ کی گود میں اٹھا کر رکھی گئی اور وہ جانکنی کے عالم میں پریشان تھی۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس پر حضرت سعد ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! یہ کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہ رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے رکھتا ہے اوراللہ تعالیٰ بھی اپنے انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو خود بھی رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حدیث كى اس باب میں مطابقت ظاہر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بچی کی عیادت کو تشریف لے گئے جو جانکنی کے عالم میں تھی جسے دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ان کو آپ نے رحم سے تعبیر فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu 'Uthman (RA) : Usama bin Zaid said that while he. Sad and Ubai bin Ka'b (RA) were with the Prophet (ﷺ) a daughter of the Prophet (ﷺ) sent a message to him, saying. 'My daughter is dying; please come to us." The Prophet (ﷺ) sent her his greetings and added "It is for Allah what He takes, and what He gives; and everything before His sight has a limited period. So she should hope for Allah's reward and remain patient." She again sent a message, beseeching him by Allah, to come. So the Prophet (ﷺ) got up. and so did we (and went there). The child was placed on his lap while his breath was irregular. Tears flowed from the eyes of the Prophet. Sad said to him, "What is this, O Allah's Apostle?" He said. "This Is Mercy which Allah has embedded in the hearts of whomever He wished of His slaves. And Allah does not bestow His Mercy, except on the merciful among His slaves. (See Hadith No. 373 Vol. 2)