Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: Placing the hand on the patient)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5659.
سیدہ عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں سخت بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں مال چھوڑ رہا ہوں اور میری صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ اسکے علاوہ میرا کوئی دوسرا (وارث) نہیں کیا میں دو تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہوں اور ایک تہائی اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو۔“ میں نے عرض کی: پھر نصف ترکہ کی وصیت کر دوں اور نصف رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ بھی نہ کرو۔“ میں نے پھر عرض کی: میں ایک تہائی کی وصیت کر دوں اور دو تہائی رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو لیکن یہ بھی زیادہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میری پیشانی ہر رکھا پھر میرے چہرے اور پیٹ پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایاَ ”اے اللہ! سعد کو شفا دے اور اس کی ہجرت مکمل کر دے۔“ (حضرت سعد فرماتے ہیں) جب مجھے خیال آتا ہے آپ ﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک میں اپنے جگر میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔
تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اس وقت ایک ہی بیٹی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو زندہ رکھے اور آپ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچے اور بہت سے لوگ آپ کی وجہ سے نقصان میں رہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عرصۂ دراز تک زندہ رکھا۔ ان کی اولاد میں برکت فرمائی اور وہ فاتح قادسیہ قرار پائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مریض کو مانوس کرنے اور اس کی بیماری کو جاننے کے لیے اس کی پیشانی اور پیٹ پر ہاتھ رکھا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کو دم کرتے اور جہاں تکلیف ہوتی وہاں ہاتھ رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مریض شفایاب ہو جاتا۔ اگر کوئی نیک آدمی کسی کی عیادت کے لیے جائے تو آج بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5446
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5659
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5659
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5659
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
سیدہ عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں سخت بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں مال چھوڑ رہا ہوں اور میری صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ اسکے علاوہ میرا کوئی دوسرا (وارث) نہیں کیا میں دو تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہوں اور ایک تہائی اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو۔“ میں نے عرض کی: پھر نصف ترکہ کی وصیت کر دوں اور نصف رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ بھی نہ کرو۔“ میں نے پھر عرض کی: میں ایک تہائی کی وصیت کر دوں اور دو تہائی رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو لیکن یہ بھی زیادہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میری پیشانی ہر رکھا پھر میرے چہرے اور پیٹ پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایاَ ”اے اللہ! سعد کو شفا دے اور اس کی ہجرت مکمل کر دے۔“ (حضرت سعد فرماتے ہیں) جب مجھے خیال آتا ہے آپ ﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک میں اپنے جگر میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اس وقت ایک ہی بیٹی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو زندہ رکھے اور آپ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچے اور بہت سے لوگ آپ کی وجہ سے نقصان میں رہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عرصۂ دراز تک زندہ رکھا۔ ان کی اولاد میں برکت فرمائی اور وہ فاتح قادسیہ قرار پائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مریض کو مانوس کرنے اور اس کی بیماری کو جاننے کے لیے اس کی پیشانی اور پیٹ پر ہاتھ رکھا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کو دم کرتے اور جہاں تکلیف ہوتی وہاں ہاتھ رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مریض شفایاب ہو جاتا۔ اگر کوئی نیک آدمی کسی کی عیادت کے لیے جائے تو آج بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کوجعید بن عبدالرحمن نے خبر دی، انہیں عائشہ بنت سعد نے کہ ان کے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ) نے بیان کیا کہ میں مکہ ميں بہت سخت بیمار پڑ گیا تو رسول اللہ ﷺ میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! (اگر وفات ہو گئی تو) میں مال چھوڑوں گا اور میرے پاس سوا ایک لڑکی کے اور کوئی وارث نہیں ہے۔ کیا میں اپنے دوتہائی مال کی وصیت کر دوں اور ایک تہائی چھوڑ دوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں میں نے عرض کیا پھر آدھے کی وصیت کر دوں اورآدھا (اپنی بچی کے لیے) چھوڑ دوں فرمایا کہ نہیں پھر میں نے کہا کہ ایک تہائی کی وصیت کر دوں اور باقی دو تہائی لڑکی کے لیے چھوڑ دوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ ان کی پیشانی پر رکھا (حضرت سعد ؓ نے بیان کیا) اور میرے چہرے اور پیٹ پر آپ نے اپنا مبارک ہاتھ پھیرا پھر فرمایا اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما اور اس کی ہجرت کو مکمل کر۔ حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے جگر کے حصہ پر میں اب تک پا رہا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص قریشی عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ سترہ سال کی عمر میں اسلام لائے۔ تمام غزوات میں شریک رہے، بڑے مستجاب الدعوات تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے قبولیت دعا کی تھی۔ اس کی برکت سے ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔ یہی ہیں جن کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا (ارم یا سعد فداك أبي و أمي) سنہ55ھ میں مقام عقیق میں وفات پائی۔ ستر سال کی عمر تھی مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ مدینے کے قبر ستان بقیع الغرقد میں دفن ہو ئے۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad (RA) : I became seriously ill at Makkah and the Prophet (ﷺ) came to visit me. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I shall leave behind me a good fortune, but my heir is my only daughter; shall I bequeath two third of my property to be spent in charity and leave one third (for my heir)?" He said, "No." I said, "Shall I bequeath half and leave half?" He said, "No." I said, "Shall I bequeath one third and leave two thirds?" He said, "One third is alright, though even one third is too much." Then he placed his hand on his forehead and passed it over my face and abdomen and said, "O Allah! Cure Sad and complete his emigration." I feel as if I have been feeling the coldness of his hand on my liver ever since.