Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: Ablution by a person who pays a visit to a patient)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5676.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ میرے ہاں تشریف لائے، جبکہ میں بیمار تھا آپ نے وضو فرمایا اور وجو کا پانی مجھ پر ڈالا یا آپ نے فرمایا: ”(یہ پانی) اس پر بہا دو۔“ اس سے مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو کلالہ ہوں، میرے ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی؟ اس پر فرائض کی آیت نازل ہوئی۔
تشریح:
(1) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں بے ہوشی کی حالت میں دیکھا تو بے قرار ہو گئے۔ آپ نے فوراً وضو کیا اور علاج کے طور پر وضو کا بقیہ پانی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اوپر ڈالا۔ انہیں فوراً ہوش آ گیا۔ (2) معلوم ہوا مریض کے لیے وضو سے بچا ہوا پانی باعث شفا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مریض کے لیے وضو کرنا اس صورت میں ہے جب تیمارداری کرنے والا اس حیثیت کا ہو کہ اس سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 164/10) لیکن یہ بات محل نظر معلوم ہوتی ہے کیونکہ اصل شفا تو وضو کے پانی میں ہے بزرگ خواہ کس طرح کا ہو۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5463
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5676
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5676
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5676
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ میرے ہاں تشریف لائے، جبکہ میں بیمار تھا آپ نے وضو فرمایا اور وجو کا پانی مجھ پر ڈالا یا آپ نے فرمایا: ”(یہ پانی) اس پر بہا دو۔“ اس سے مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو کلالہ ہوں، میرے ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی؟ اس پر فرائض کی آیت نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں بے ہوشی کی حالت میں دیکھا تو بے قرار ہو گئے۔ آپ نے فوراً وضو کیا اور علاج کے طور پر وضو کا بقیہ پانی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اوپر ڈالا۔ انہیں فوراً ہوش آ گیا۔ (2) معلوم ہوا مریض کے لیے وضو سے بچا ہوا پانی باعث شفا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مریض کے لیے وضو کرنا اس صورت میں ہے جب تیمارداری کرنے والا اس حیثیت کا ہو کہ اس سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 164/10) لیکن یہ بات محل نظر معلوم ہوتی ہے کیونکہ اصل شفا تو وضو کے پانی میں ہے بزرگ خواہ کس طرح کا ہو۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر (محمد بن جعفر) نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے، کہا کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے میں بیمار تھا آنحضرت ﷺ نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر ڈالا یا فرمایا کہ اس پر یہ پانی ڈال دو اس سے مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو کلالہ ہوں (جس کے والد اور اولاد نہ ہو) میرے ترکہ میں تقسیم کیسے ہو گی اس پر میراث کی آیت نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾(النساء: 176)اے پیغمبر! لوگ آپ سے کلالہ کے بارے میں پوچھنے ہیں کہو کہ اللہ کا اس کے متعلق یہ فتویٰ ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جابررضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی۔ سخت بیماری کی حالت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے ہی بیتاب ہو گئے، علاج کے طریقہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے بقیہ پانی کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ پر ڈالتے ہی شفایابی ہو گئی، معلوم ہوا کہ وضو کا بچا ہوا پانی موجب شفا ہے۔ ایک روز حضرت جابر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کی دیوار کے سایہ میں بیٹھے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے سے گزر ے یہ دوڑ کر ساتھ ہو لیے ادب کے خیال سے پیچھے چل رہے تھے فرمایا پاس آ جاؤ۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر کاشانہ اقدس کی طرف لائے اور پردہ گرا کر اندر بلایا۔ اندر سے تین ٹکیا اور سرکہ ایک صاف کپڑے پر رکھ کر آیا آپ نے ڈیڑھ ڈیڑھ روٹی تقسیم کی اور فرمایا کہ سرکہ بہت عمدہ سالن ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن سے سرکہ کو میں بہت محبوب رکھتا ہوں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ زندگی کے آخر سال بہت ہی ضعیف و ناتواں اور آنکھوں سے نابینا ہو گئے تھے۔ بعمر94 سال سنہ74 ھ میں مدینہ میں وفات پائی، (رضي اللہ عنه)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) came to me while I was ill. He performed ablution and threw the remaining water on me (or said, "Pour it on him) " When I came to my senses I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have no son or father to be my heir, so how will be my inheritance?" Then the Verse of inheritance was revealed.