باب: قسط ہندی اور قسط بحری یعنی کوٹ جو سمندر سے نکلتا ہے اس کا نام لینا
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: To sniff the Indian and sea Qust (kind of incense))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اسے کست بھی کہتے ہیں جیسے کافور کو قافور اور قرآن میں بھی سورۃ التکویر میں کشطت اور قشطت دونوں قرات ہیں ۔ عبداللہ بن مسعود ؓنے قشطت سے پڑھا ہے
5693.
۔(وہ کہتی ہیں کہ) میں اپنے شیر خوار بچے کو نبی ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی تو اس نے آپ پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے پانی منگوایا اور اس(پیشاب کی جگہ) پر چھینٹے مار دیے۔
تشریح:
(1) سخت گرمی کی وجہ سے بچوں کے گلے میں ورم آ جاتا ہے۔ بعض دفعہ خون جمع ہو کر حلق سرخ ہو جاتا ہے تو خواتین اس کا علاج اس طرح کرتی ہیں کہ انگلی پر کپڑا لپیٹ کر اسے زور سے دباتی ہیں۔ بعض اوقات انگلی پر راکھ لگا کر یہ کام کرتی ہیں تو اس سے سیاہ خون نکلتا ہے جس کے اخراج سے بچے کو سکون مل جاتا ہے۔ (2) بہرحال اس عمل سے بچے کو تکلیف ہوتی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ عود ہندی کو پیس کر پانی یا تیل میں ملایا جائے اور اسے ناک میں ڈالا جائے۔ اس طرح دوا خود بخود حلق تک پہنچ جاتی ہے اور بچے کو آرام پہنچ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات بیماریوں میں سے دو کی نشاندہی کی ہے کیونکہ اس ماحول میں یہ دو بیماریاں عام تھیں: ایک بچوں کا گلا خراب ہونا اور دوسرا سینے میں درد ہونا، سو ان دو بیماریوں کے لیے قسط ہندی بہت ہی مفید ہے۔ (فتح الباري: 184/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5480
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5693
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5693
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5693
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
قسط ایک خوشبو ہے جسے عود بھی کہتے ہیں۔ عود ہندی ایک خوشبودار لکڑی ہے۔ اس میں معمولی سا کھردرا پن ہوتا ہے۔ اس کے چبانے سے دانتوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ عود ہندی کی تمام اقسام فائدہ مند ہیں۔ اس کے استعمال سے پیشاب اور حیض کھل کر آتا ہے۔
اسے کست بھی کہتے ہیں جیسے کافور کو قافور اور قرآن میں بھی سورۃ التکویر میں کشطت اور قشطت دونوں قرات ہیں ۔ عبداللہ بن مسعود ؓنے قشطت سے پڑھا ہے
حدیث ترجمہ:
۔(وہ کہتی ہیں کہ) میں اپنے شیر خوار بچے کو نبی ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی تو اس نے آپ پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے پانی منگوایا اور اس(پیشاب کی جگہ) پر چھینٹے مار دیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) سخت گرمی کی وجہ سے بچوں کے گلے میں ورم آ جاتا ہے۔ بعض دفعہ خون جمع ہو کر حلق سرخ ہو جاتا ہے تو خواتین اس کا علاج اس طرح کرتی ہیں کہ انگلی پر کپڑا لپیٹ کر اسے زور سے دباتی ہیں۔ بعض اوقات انگلی پر راکھ لگا کر یہ کام کرتی ہیں تو اس سے سیاہ خون نکلتا ہے جس کے اخراج سے بچے کو سکون مل جاتا ہے۔ (2) بہرحال اس عمل سے بچے کو تکلیف ہوتی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ عود ہندی کو پیس کر پانی یا تیل میں ملایا جائے اور اسے ناک میں ڈالا جائے۔ اس طرح دوا خود بخود حلق تک پہنچ جاتی ہے اور بچے کو آرام پہنچ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات بیماریوں میں سے دو کی نشاندہی کی ہے کیونکہ اس ماحول میں یہ دو بیماریاں عام تھیں: ایک بچوں کا گلا خراب ہونا اور دوسرا سینے میں درد ہونا، سو ان دو بیماریوں کے لیے قسط ہندی بہت ہی مفید ہے۔ (فتح الباري: 184/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک شیر خوار لڑکے کو لے کر حاضر ہوئی پھر آنحضرت ﷺ کے اوپر اس نے پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوا کر پیشاب کی جگہ پر چھینٹا دیا۔
حدیث حاشیہ:
بچہ بہت چھوٹا شیر خوارتھا ا س لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیشاب پر صرف چھینٹا دینا کافی قرار دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سینے میں غلیظ اور فاسد ریاح کے جمع ہو جانے سے جو تکلیف ہوتی ہے عود ہندی اس میں مفید ہے۔ صاحب خواص الادویہ لکھتے ہیں کہ قسط بحری شیریں گرم خشک ہے۔ دماغ کو قوت بخشی ہے اعضائے رئیسہ کو اور باہ اور جگر اور پٹھوں کو طاقت دیتی ہے۔ ریاح کو تحلیل کرتی ہے دماغی بیماریوں فالج اور لقوہ اور رعشہ کو مفید ہے۔ پیٹ کے کیڑے مارتی ہے، پیشاب اور حیض کو جاری کرتی ہے۔ باب میں قسط ہندی اور بحری ہر دو کو ملا کر ناس بنانا اور ناک میں سونگھنا مراد ہے۔ یہ ایک بوٹی کی جڑ ہوتی ہے ہندی میں اسے کوٹ کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Once I went to Allah's Apostle (ﷺ) with a son of mine who would not eat any food, and the boy passed urine on him whereupon he asked for some water and sprinkled it over the place of urine.