مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5707.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چھوٹ لگنا، بد شگونی لینا، الو کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ کوڑھی آدمی سے اس طرح بھاگ جیسے تو شیر سے بھاگتا ہے۔“
تشریح:
(1) بیماری، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے مگر کوڑھی آدمی کے ساتھ میل ملاپ اس کا ایک سبب ہے، جب اللہ تعالیٰ اس میں اثر پیدا کر دے۔ اسبابِ بیماری سے پرہیز کرنا توکل کے منافی نہیں۔ کمزور عقیدہ رکھنے والوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجذوم آدمی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو تاکہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدے میں خرابی نہ آئے ایسا نہ ہو کہ وہ کہنے لگیں: یہ بیماری ہمیں فلاں آدمی سے لگی ہے۔ گویا یہ حکم عوام کے لیے ہے اور جس کا عقیدہ مضبوط ہو اسے جذامی کے ساتھ کھانے پینے اور ملنے جلنے کی اجازت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذامی آدمی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور فرمایا: ’’اللہ کا نام لے کر، اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔‘‘(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1817) یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے، تاہم صاحب ایمان و یقین کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسے آدمی کے ساتھ مل کر کھانا کھائے لیکن ایسے مریض کو ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھنا چاہیے تاکہ اس کا دل نہ دکھے جیسا کہ روایت میں ہے: ’’جذام کے مریضوں کو ٹکٹکی باندھ کر مت دیکھو۔‘‘(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3543) (2) جزام کی بیماری والے شخص کو چاہیے کہ وہ عام لوگوں سے الگ رہے تاکہ دوسروں کو اس سے تکلیف نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف میں ایک مجذوم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیغام بھیجا: ’’تم واپس چلے جاؤ۔ ہم نے تیری بیعت قبول کر لی ہے۔‘‘(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5822 (2231))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5493
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5707
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5707
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5707
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جذام ایک مشہور گندی بیماری ہے جس میں خون بگڑ کر سارا جسم گلنے لگ جاتا ہے پھر وہ پھٹ جاتا ہے۔ سوداوی مادے کی کثرت اس کا باعث ہوتی ہے۔ یہ اعضاء کے مزاج اور ان کی ہئیت کو فاسد کر دیتی ہے۔ اسے جذام اس لیے کہتے ہیں کہ یہ انگلیوں کو کاٹ دیتی ہے۔ واللہ اعلم
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چھوٹ لگنا، بد شگونی لینا، الو کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ کوڑھی آدمی سے اس طرح بھاگ جیسے تو شیر سے بھاگتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بیماری، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے مگر کوڑھی آدمی کے ساتھ میل ملاپ اس کا ایک سبب ہے، جب اللہ تعالیٰ اس میں اثر پیدا کر دے۔ اسبابِ بیماری سے پرہیز کرنا توکل کے منافی نہیں۔ کمزور عقیدہ رکھنے والوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجذوم آدمی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو تاکہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدے میں خرابی نہ آئے ایسا نہ ہو کہ وہ کہنے لگیں: یہ بیماری ہمیں فلاں آدمی سے لگی ہے۔ گویا یہ حکم عوام کے لیے ہے اور جس کا عقیدہ مضبوط ہو اسے جذامی کے ساتھ کھانے پینے اور ملنے جلنے کی اجازت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذامی آدمی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور فرمایا: ’’اللہ کا نام لے کر، اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔‘‘(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1817) یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے، تاہم صاحب ایمان و یقین کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسے آدمی کے ساتھ مل کر کھانا کھائے لیکن ایسے مریض کو ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھنا چاہیے تاکہ اس کا دل نہ دکھے جیسا کہ روایت میں ہے: ’’جذام کے مریضوں کو ٹکٹکی باندھ کر مت دیکھو۔‘‘(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3543) (2) جزام کی بیماری والے شخص کو چاہیے کہ وہ عام لوگوں سے الگ رہے تاکہ دوسروں کو اس سے تکلیف نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف میں ایک مجذوم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیغام بھیجا: ’’تم واپس چلے جاؤ۔ ہم نے تیری بیعت قبول کر لی ہے۔‘‘(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5822 (2231))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عفان بن مسلم (امام بخاری کے شیخ) نے کہا (ان کو ابونعیم نے وصل کیا) ہے کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا، ان سے سعید بن میناء نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چھوت لگنا، بد شگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسا بھاگتا رہ جیسا کہ شیر سے بھاگتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
جذام ایک خراب مشہور بیماری ہے جس میں خون بگڑ کر سارا جسم گلنے لگ جاتا ہے۔ آخر میں ہاتھ پاؤں کی انگلیاں جھڑ جاتی ہیں۔ ہر چند مرض کا پورا ہونا بہ حکم الٰہی ہے مگر جذامی کے ساتھ خلط ملط اور یکجائی اس کا سبب ہے اور سبب سے پرہیز کرنا مقتضائے دانشمندی ہے یہ توکل کے خلاف نہیں ہے۔ جب یہ اعتقاد ہو کہ سبب اس وقت اثر کرتا ہے جب مسبب الاسباب یعنی پروردگار اس میں اثر دے۔ بعضوں نے کہا آپ نے پہلے فرمایا جذامی سے بھاگتا رہ یہ اس کے خلاف نہیں ہے آپ کا مطلب یہ تھا کہ اکثر شر سے ڈرنے والے کمزور لوگ ہوتے ہیں ان کو جذامی سے الگ رہنا ہی بہتر ہے ایسا نہ ہو کہ ان کو کوئی عارضہ ہو جائے تو علت اس کی جذامی کا قرب قرار دیں اور شرک میں گرفتار ہوں گویا یہ حکم عوام کے لیے ہے اور خواص کو اجازت ہے وہ جذامی سے قرب رکھیں تو بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے جذامی کے ساتھ کھانا کھایا اورفرمایا ''کُل بسمِ اللہِ ثقة باللہِ وتَوکلا عَلیهِ“ طاعون زدہ شہروں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ علامہ ابن قیم نے ”زاد المعاد“ میں لکھا ہے کہ احادیث میں تعدیہ کی نفی اوہام پرستی کو ختم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ یعنی یہ سمجھنا کہ بیماری اڑ کر لگ جاتی ہے اور بیماریوں میں تعدیہ اس حیثیت سے قطعاً نہیں ہے۔ اصلاً تعدیہ کا انکار مقصود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی بیماریوں میں تعدیہ پیدا کیا ہے۔ اس لیے اس باب میں اوہام پرستی نہ کرنی چاہیے ۔ ''ھامة'' کا اعتقاد عرب میں اس طرح تھا کہ وہ بعض پرندوں کے متعلق سمجھتے تھے کہ اگروہ کسی جگہ بیٹھ کر بولنے لگے تووہ جگہ اجاڑ ہو جاتی ہے۔ شریعت نے اس کی تردید کی کہ بننا اور بگڑنا کسی پرندے کی آواز سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے چاہنے سے ہوتا ہے۔ الو کے متعلق آج تک عوام جہلاء کا یہی خیال ہے۔ بعض شہد کی مکھیوں کے چھتہ کے بارے میں ایسا وہم رکھتے ہیں یہ سب خیالات فاسدہ ہیں مسلمان کو ایسے خیالات باطلہ سے بچنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) said, '(There is) no 'Adwa (no contagious disease is conveyed without Allah's permission). nor is there any bad omen (from birds), nor is there any Hamah, nor is there any bad omen in the month of Safar, and one should run away from the leper as one runs away from a lion.''