Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: At-Tiyara (drawing an evil omen from birds, etc.))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5753.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسولل اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مرض متعدی نہیں اور بد شگونی کی بھی کوئی اصل نہیں، نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے: ”عورت میں گھر میں اور گھوڑے میں۔“
تشریح:
(1) بدشگونی کے لغو ہونے پر تمام عقلاء متفق ہیں۔ حدیث میں مذکور تین چیزوں کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدشگونی اگر ہو بھی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث:3921) اس کا مطلب یہ ہے کہ بدشگونی اگر ہو تو بھی ان مذکورہ تین چیزوں میں ممکن ہے لیکن یہ کوئی یقینی نہیں۔ سواری، بیوی اور گھر اگر دین و دنیا میں مفید نہ ہوں تو ان کے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔ سواری کی نحوست یہ ہے کہ وہ اڑیل ہو اور مقصد پورا کرنے کے قابل نہ ہو۔ بیوی کی نحوست یہ ہے کہ وہ ترش مزاج اور جھگڑالو ہو۔ اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہ تنگ و تاریک ہو یا اس کے ہمسائے اچھے نہ ہوں۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی بدشگونی کو شرک قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: ’’ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی وہم میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے زائل کر دیتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث:3538) بہرحال بدشگونی اور نحوست کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5535
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5753
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5753
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5753
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
دور جاہلیت میں ایسا ہوتا تھا کہ آدمی اپنے گھر سے نکلتا تو کسی پرندے کو دیکھتا، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو کہتا کہ کام ہو جائے گا اور اگر بائیں جانب جاتا تو کہتا کہ کام نہیں ہو گا۔ اس مقصد کے لیے وہ پرندہ خود بھی اڑاتا تھا۔ اس انداز سے فال لینا شرعاً ناجائز ہے۔ دور حاضر میں ہندسوں اور حرفوں میں انگلی رکھنا، طوطے سے فال نکلوانا بھی اس قسم سے ہے۔ جائز فال صرف اسی قدر ہے کہ بلا ارادہ کوئی لفظ کان میں پڑے اور انسان اس وجہ سے امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس مقصد میں کامیاب کر دے گا۔ اس میں سننے والے کے قصد و ارادے کو کوئی دخل نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اہل مکہ کے نمائندے سہیل بن عمرو کی آمد پر فرمایا تھا: "اب تمہارا معاملہ سہل، یعنی آسان ہو گیا ہے۔" (صحیح البخاری، الشروط، حدیث: 2731) ہمارے ہاں دور جاہلیت کے بے شمار توہمات رائج ہیں، مثلاً: صبح صبح اگر مکان کی چھت پر کوا بولتا ہے تو اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ شریعت نے اس طرح کے خیالات کو لغو قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسولل اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مرض متعدی نہیں اور بد شگونی کی بھی کوئی اصل نہیں، نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے: ”عورت میں گھر میں اور گھوڑے میں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بدشگونی کے لغو ہونے پر تمام عقلاء متفق ہیں۔ حدیث میں مذکور تین چیزوں کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدشگونی اگر ہو بھی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث:3921) اس کا مطلب یہ ہے کہ بدشگونی اگر ہو تو بھی ان مذکورہ تین چیزوں میں ممکن ہے لیکن یہ کوئی یقینی نہیں۔ سواری، بیوی اور گھر اگر دین و دنیا میں مفید نہ ہوں تو ان کے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔ سواری کی نحوست یہ ہے کہ وہ اڑیل ہو اور مقصد پورا کرنے کے قابل نہ ہو۔ بیوی کی نحوست یہ ہے کہ وہ ترش مزاج اور جھگڑالو ہو۔ اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہ تنگ و تاریک ہو یا اس کے ہمسائے اچھے نہ ہوں۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی بدشگونی کو شرک قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: ’’ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی وہم میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے زائل کر دیتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث:3538) بہرحال بدشگونی اور نحوست کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے، کہا کہ ہم سے یونس بن یزید ایلی نے، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امراض میں چھوت چھات کی اور بد شگونی کی کوئی اصل نہیں اور اگر نحوست ہوتی تو یہ صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ عورت میں، گھر میں اور گھوڑے میں۔
حدیث حاشیہ:
بد شگونی کے لغو ہونے پر سب عقلاء کا اتفاق ہے مگر چھوت کے معاملہ میں بعض اطباء اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض امراض متعدی ہوتے ہیں مثلاً جذام اور طاعون وغیرہ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ تمہارا وہم ہے اگر وہ در حقیقت متعدی ہوتے تو ایک گھر کے یا ایک شہر کے سب لوگ مبتلا ہو جاتے مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ ایک گھر میں ہی کچھ لوگ بیمار ہوتے اور کچھ تندرست رہ جاتے ہیں جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "There is neither 'Adha (no contagious disease is conveyed to others without Allah's permission) nor Tiyara, but an evil omen may be in three a woman, a house or an animal."